اس دور کے ’سائنسی لاڈلے‘ اور چاند کی ملکیت کی جنگ

ویب ڈیسک

دنیا کی طاقتور اقوام سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کے بعد کافی عرصے سے خلائی برتری کے لیے کوشاں ہیں اور برتری کی یہی دوڑ بہت سے اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ایسے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ چاند جیسے اجرام فلکی کی ملکیت کا دعوٰی کیا رنگ لا سکتا ہے؟

اگرچہ یہ بات ایک سائنس فکشن کی طرح ہی لگتی ہے، لیکن طاقتور اقوام چاند اور مریخ جیسے فلکیاتی اجسام کو اپنی نوآبادیات بنانے کی تیاری کر رہی ہیں

امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے کے آرٹیمس پروگرام کا مقصد موجوہ دہائی کے آخر تک چاند پر ایک بیس کیمپ قائم کرنا اور آئندہ دہائی میں وہاں پر مزید تحقیقاتی مراکز کا قیام ہے

ادہر چین کی قومی خلائی ایڈمنسٹریشن اور روس کی وفاقی خلائی ایجنسی روسکوسموس نے آئندہ دہائی میں چاند پر اپنی الگ الگ تنصیبات کی تعمیر کا اعلان کر رکھا ہے

خلائی نوآبادیات کے اس امکان سے چند بڑے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ ان میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا قومیں یا کمپنیاں حقیقت میں چاند یا دیگر فلکیاتی اجسام کی مالک ہو سکتی ہیں؟

اس حوالے سے یورپین اسپیس ایجنسی میں انٹرنیشنل پبلک لا ء کے سربراہ الیگزینڈر سوسیک کہتے ہیں ”ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک قوم چاند پر جھنڈا گاڑ سکتی ہے، لیکن اس کے کوئی قانونی معنی یا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بیرونی خلائی معاہدے میں شامل ہے، جہاں یہ لکھا ہے کہ کوئی بھی ملک چاند پر خودمختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتا یا اسے اپنا علاقہ نہیں بنا سکتا‘‘

مزید وضاحت کرتے ہوئے سوسیک کا کہنا تھا ”اس قانون کا دائرہ ایلون مسک کی اسپیس ایکس جیسی نجی کمپنیوں تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ ہم یہاں بین الاقوامی قانون کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں اپنے شہریوں اور نجی کمپنیوں پر قانون لاگو کریں‘‘

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن اس صورت میں کیا ہوگا، جب لوگ چاند سے مواد نکالیں؟ کیا وہ اس مواد کے مالک ہیں اور اسے بیچ سکتے ہیں؟ سوسیک کے مطابق ”یہ کشیدگی کا ایک بڑا نقطہ ہے۔“

سوسیک نے کہا ”ملک ایکس یا وائے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں چاند کو قومی علاقہ قرار دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن وہ چاند یا مریخ سے نکالے گئے مواد کے مالک ہونے اور انہیں زمین پر واپس فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں‘‘

واضح رہے کہ اس تناؤ کی وجہ 1967ع کے بیرونی خلائی معاہدے کی شق دو کی مختلف قانونی تشریحات ہیں

اس شق میں کہا گیا ہے ”خلا، چاند اور دیگر فلکیاتی اجسام سمیت، خودمختاری کے دعوے کے ذریعے، استعمال، قبضے یا کسی اور طریقے سے قومی اختصاص کے تابع نہیں ہیں۔‘‘

سوسیک کے مطابق اگرچہ یہ شق واضح طور پر چاند کو ایک فلکیاتی جسم کے طور پر رکھنے کا حوالہ دیتی ہے، تاہم مختلف وکلاء کی مختلف تشریحات ہیں کہ آیا یہ شق قوموں یا کمپنیوں کو چاند کے کچھ حصوں کو تجارتی استعمال کے لیے رکھنے کی اجازت دیتی ہے؟ اگر واقعی چاند کے کچھ حصوں کا فائدہ اٹھانا ممکن ہے تو کیا منافع بانٹنے کی ضرورت ہے؟ کیا یہ پہلے آئیے، پہلے پائیے کا معاملہ ہے؟ ان مسائل سے متعلق کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے

لیکن بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ آف اسپیس لاء کے صدر کائی یوو شروگل کے مطابق بیرونی خلائی معاہدہ واضح طور پر کہتا ہے کہ کوئی بھی چاند سے لیے گئے مواد کا مالک نہیں ہو سکتا

وہ کہتے ہیں ”اس میں کوئی خامیاں نہیں ہیں۔ بیرونی خلائی معاہدے کی جان بوجھ کر غلط تشریحات کی گئی ہیں۔ وہ قومیں، جو نجی عناصر کی ذمہ دار ہیں، کو صرف یہ کہنا ہے: ’نہیں، آپ ان وسائل کے مالک نہیں ہو سکتے۔‘ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘‘

یورپی اقوام کی طرف سے افریقہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد 1884-1885ء کی برلن کانفرنس سے اب تک انسانیت نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ ایک ایسے عالمی معاہدے کی موجودگی میں، جس کے مطابق چاند پر علاقوں کا مالک ہونا ایک برا خیال ہے، چاند کی نوآبادیات کا مستقبل کم خون کا پیاسا نظر آتا ہے

سوسیک کے مطابق، ”ہر کوئی بیرونی خلا کو تلاش کرنا چاہتا ہے، اس لیے بین الاقوامی تعاون کے عظیم تر فائدے کی بین الاقوامی آگاہی ہے۔‘‘

مبصرین اکثر خلائی تحقیق کو عالمی امن کے لیے امید کی کرن کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں معاہدوں کو پابندی کے ساتھ تعاون کا استحکام بخشا جاتا ہے اور زیادہ تر ممالک خلا میں اس ہم آہنگی کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں

موجودہ بیرونی خلائی معاہدہ سرد جنگ کے دوران بین الاقوامی کشیدگی کی انتہا پر کامیابی سے طے پایا تھا۔ اب یوکرین میں جنگ پر کشیدگی کے باوجود روسی خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر مغرب کے خلابازوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں

اگرچہ بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ آف اسپیس لاء کے صدر شروگل اس بات سے متفق ہیں کہ بڑی بین الاقوامی خلائی طاقتوں نے استعمار سے سیکھا ہے، تاہم وہ پھر بھی خلا میں بین الاقوامی تعاون کی طویل مدت کے بارے میں کم پر امید ہیں۔ اگرچہ معاہدوں نے ایک بنیادی بین الاقوامی اتفاق رائے قائم کرنے میں مدد کی ہے، لیکن خلائی تحقیق پر کچھ اختلاف ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اس سال کے شروع میں ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چین کسی دن چاند پر اتر سکتا ہے اور کسی مخصوص حصے کو اپنا علاقہ قرار دے سکتا ہے

چین نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے خلاء میں امن اور اسے غیر فوجی رکھنے کے اپنے عزم پر دوبارہ زور دیا۔ شروگل نے کہا کہ ”تمام خلائی طاقتیں اس وقت ختم ہو جائیں گی جب خلا اور فلکیاتی اجسام میں انارکی ہوگی۔ )خلا میں انارکی کا خیال) بالکل وہی تھا، جس کی وجہ سے بیرونی خلائی معاہدہ ہوا، جب خلائی طاقتوں کو یقین نہیں تھا کہ ان میں سے ہر ایک کیسے ترقی کرے گا۔ ہمیں اس صورتحال میں اب اس راستے کو تبدیل کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close