حکومت شرحِ ترقی اور قیمتوں میں استحکام لانے میں بری طرح ناکام

ویب ڈیسک

اسٹیٹ بینک کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ ممالک جو قیمت اور مالی استحکام پر شرحِ ترقی کو ترجیح دیتے ہیں، وہ ترقی کو برقرار نہیں رکھ پاتے اور انہیں بار بار بوم-بسٹ سائیکل (زیادہ شرح نمو اور پھر معاشی بحران) کا سامنا کرنا پڑتا ہے

معاشی ماہرین کے مطابق ن لیگ کی زیر قیادت پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت نے مالی سال 23 کے لیے ترقی پر توجہ دینے سے گریز کیا، جس کے نتیجے میں شرح نمو میں زبردست کمی کا خدشہ ہے، اس حکمت عملی کے باوجود حکومت مالی استحکام اور قیمتوں میں استحکام لانے میں بھی ناکام رہی

’معاشی صورتحال برائے مالی سال 2022‘ کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے تخمینہ لگایا کہ مالی سال 2023ع میں شرحِ نمو سال کے لیے مقرر کردہ 3 سے 4 فیصد کے ہدف سے بھی کم رہے گی

اسٹیٹ بینک شرح نمو کے لیے نئی حد فراہم کرنے سے گریز کر رہا ہے، لیکن عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اس کے 2 فیصد کے آس پاس رہنے کی پیش گوئی کر رہی ہیں

واضح رہے کہ رواں سال جنوری میں وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ سال 2020-21 میں پاکستان کی معیشت کی مجموعی پیداوار میں شرح نمو پانچ اعشاریہ تین سات فیصد رہی، جو گذشتہ 14 برسوں کے دوران دوسری سب سے زیادہ شرح تھی

نئی حکومت آنے کے بعد شرحِ ترقی میں تیزی سے گراوٹ کے اثرات تجارتی اور صنعتی شعبوں میں پہلے ہی نظر آرہے ہیں، جبکہ مزید اثرات نظر آنے کا خدشہ بھی موجود ہے

ٹیکسٹائل ملرز، برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کے نہ کھلنے پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، جس نے کاروباری سائیکل کو مفلوج کر دیا ہے

قیمتوں پر توجہ مرکوز کرنے کے باوجود گزشتہ پانچ ماہ سے مہنگائی کی شرح 25 فیصد کے قریب منڈلا رہی ہے، جس کے سبب مالی استحکام اور ترقی کے امکانات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں

تجارت اور صنعتوں کے لیے ان ترجیحات کے تحت برقرار رہنا مشکل ہے، جن میں قیمتوں پر زیادہ اور ترقی پر کم توجہ دی جاتی ہے

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ’عالمی تجربے نے ثابت کیا ہے کہ قیمتوں کا استحکام پائیدار شرح ترقی کے لیے لازمی شرط ہے، جن ممالک میں قیمتوں میں استحکام کو بنیادی ہدف سمجھا جاتا ہے ان میں افراط زر کی شرح کم ہوتی ہے، افراط زر اور شرح نمو میں اتار چڑھاؤ بھی کم ہوتا ہے‘۔

تاہم حکومتِ پاکستان شرح ترقی ترک کرنے کے باوجود ان میں سے ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی

اسٹیٹ بینک کا قیمتوں میں استحکام کا ہدف حکومت کے 5 سے 7 فیصد کے درمیانی مدت کے افراط زر کے ہدف سے ظاہر ہوتا ہے

ملکی اور عالمی دونوں سطح پر ہونے والے عوامل توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں تبدیلی کی وجہ ہو سکتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ ان عوامل کی پیش گوئی کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے، افراطِ زر کی پیش گوئی میں بہت سے مفروضے طے کیے جاتے ہیں اور مزید معلومات کے آنے کے ساتھ ہی اسے مسلسل اپ ڈیٹ کرنا پڑتا ہے

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’پاکستان میں معلومات کی کوریج اور بروقت تجدید میں بہتری کی ضرورت ہے، عارضی تخمینوں کی نسبت سالانہ جی ڈی پی نمو کے تخمینے میں اکثر بڑے پیمانے پر نظرثانی کی جاتی ہے، اور یہ سب حتمی اعداد و شمار کی عدم دستیابی اور پیچیدہ تخمینوں کے ساتھ ہورہا ہوتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ افراط زر کی پیش گوئیاں اجناس کی عالمی قیمتوں اور شرح مبادلہ کی ترقی کے نقطہ نظر پر بھی منحصر ہیں

مارکیٹ کی طے شدہ شرح مبادلہ کی جانب منتقل ہوتے ہوئے قیمتوں کے استحکام کو اسٹیٹ بینک کے بنیادی ہدف کے طور پر اپنانا معیشت کو شرح مبادلہ سے افراط زر کے ہدف کی جانب منتقل کرنے کے مترادف ہے جسے اقتصادی کھلاڑی اپنی توقعات اور فیصلوں کا مرکز بناتے ہیں

رپورٹ کے مطابق اس کے لیے اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کا ہدف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس عہد کرنے کی ضرورت ہے

ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 29 فیصد اضافہ

پاکستان کے ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی پیمائش کے حساس قیمت انڈیکس کے مطابق خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ 22 دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 28.76 فیصد اضافہ ہوا ہے

سالانہ بنیادوں پر جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ان میں پیاز کی قیمت میں (482.30 فیصد)، مرغی (67.42 فیصد)، لپٹن چائے کی پتی (65.41 فیصد)، ڈیزل (65.05 فیصد)، پیٹرول (52.19فیصد)، نمک (51.99فیصد)، کیلے (47.95فیصد)، مونگ کی دال (47.13فیصد)، انڈے (47.07فیصد)، چنے کی دال (45.24فیصد) اور سرسوں کے تیل کی قیمت میں (40.97فیصد) اضافہ شامل ہے

تاہم ہفتہ وار بنیادوں پر حساس قیمت انڈیکس کے مطابق مہنگائی میں 0.11 فیصد کمی ہوئی ہے، اس کی بنیادی وجہ تیل اور سبزیوں کی قیمتوں میں معمولی کمی ہے

اس کے علاوہ پیٹرول (4.45 فیصد)، ڈیزل (3.20 فیصد) اور ایل پی جی (0.23 فیصد) کی قیمتوں میں کمی ہوئی، ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی میں معمولی کمی کی بنیادی وجہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی ہے

مارکیٹ میں ٹماٹر کی اوسط قیمت 80 سے 120 روپے فی کلو کے درمیان ہے جبکہ پیاز کی قیمت 230 سے ​​260 روپے فی کلو کے درمیان ہے۔ اسی طرح فی کلو آلو کی قیمت 60 روپے سے 90 روپے تک ہے۔

ہفتہ وار بنیادوں پر کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، جن میں مرغی کی قیمت میں (9.86فیصد)، مسور کی دال (2.00فیصد)، لپٹن چائے کی پتی (1.72فیصد)، چاول (1.15فیصد) اور گندم کے آٹا کی قیمت میں (1.12فیصد) کا اضافہ شامل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close