آبی ذخائر میں مائیکرو پلاسٹک ذرات کی بڑھتی مقدار ایک عالمی مسئلے کا روپ دھار چکی ہے، جس کے حل کے لیے دنیا بھر کے سائنسدان ایک عرصے سے کوششوں میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں دو پاکستانی سائنسدانوں نے آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے ماہرین کے ساتھ مل کر مقناطیسی خاصیت رکھنے والا ایک پاؤڈر تیار کیا ہے، جو انتہائی کم لاگت اور کم وقت میں پانی سے پلاسٹک کے خوردبینی ذرات کو کھینچ نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے
آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی آسٹریلیا کے شعبۂ کیمیکل انجینئرنگ سے وابستہ ڈاکٹر نکی اشتیاگی اس تحقیق کے سربراہ ہیں، جبکہ اسی شعبے سے وابستہ پاکستانی ڈاکٹر ناصر محمود اور پی ایچ ڈی کے طالبعلم محمد حارث نے تحقیق میں ان کی معاونت کی ہے۔ یہ تحقیق چند ہفتے قبل کیمیکل انجینئرنگ جرنل میں شائع ہوئی ہے
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی سائنسدان ڈاکٹر نکی اشتیاگی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آبی ذخائر سے پلاسٹک کے خوردبینی ذرات کو کشید کرنے کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی جا رہی ہیں جن میں سے بیشتر مہنگی اور وقت طلب ہیں۔ اس مقصد کے لیے جو جدید ترین فلٹر پلانٹ آج کل استعمال کیے جارہے ہیں، وہ پانی میں صرف چند ملی میٹر تک ذرات کو کشید کر سکتے ہیں
ڈاکٹر نکی اشتیاگی کے مطابق ان کا تیار کردہ مقناطیسی پاؤڈر کم خرچ اور ماحول دوست ہے اور صرف ایک گھنٹے میں فلٹر پلانٹ سے ہزار درجے پر خوردبینی پلاسٹک کے ذرات جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سفوف کو اس طرح تیار ڈیزائن کیا گیا ہے کہ فی گرام پاؤڈر کا اندرونی رقبہ 749.7 مربع میٹر تک پہنچ جاتا ہے، جو یقیناً حیرت انگیز ہے
اس تحقیق میں ڈاکٹر نکی اشتیاگی کی معاونت کرنے والے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ناصر محمود اس پاؤڈر کو ڈزائن کرنے کے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم کا تیار کردہ پاؤڈر دیکھنے میں عام سفوف جیسا ہی ہے۔ مگر حقیقت میں اس کی ساخت فیرو میگنیٹک ہے، جو پتلے ستونوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ان ستونوں کو ٹو ڈائیمینشل یا دو جہتی پرتوں پر لگایا گیا ہے، جنہیں سائنسی اصطلاح میں میٹل ’آرگینک فریم ورک‘ یا ’ایم او ایف‘ کہا جاتا ہے
ڈاکٹر ناصر محمود نے مزید بتایا کہ سفوف کی افادیت کو بڑھانے کے لیے ان دونوں پرتوں کے درمیان آئرن آکسائیڈ کے نینو ستون اس طرح کھڑے کیے گئے ہیں کہ یہ شنکجوں کا کام دیتے ہیں۔ جب ان دونوں پرتوں کے درمیان سے آلودہ پانی گزرتا ہے تو مائیکرو پلاسٹک، بھاری دھاتیں اور دیگر آلودہ ذرات اس میں پھنس جاتے ہیں
آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی شعبۂ کیمیکل انجینئرنگ میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی کے طالبعلم محمد حارث نے اپنے سینئر اساتذہ کی اس تحقیق میں معاونت کی ہے۔ انہوں نے اس مقناطیسی پاؤڈر کے کام کرنے کے طریقے کے بتایا ”ہم نے ایم او ایف اور نینو ستونوں کو ڈیزائن کرنے پر خصوصی محنت کی ہے۔ اسے ہم نے خوردبینی پیمانے پر ایک کثیر منزلہ پارکنگ کی طرح تعمیر کیا ہے، جس میں جا بجا ستون چھت کو سہارا دیتے ہیں“.
حارث مزید بتاتے ہیں ”جب اس سفوف کو پانی میں ملایا جاتا ہے تو پہلے مرحلے میں یہ ایک فوم کی طرح کام کرتے ہوئے پانی میں تمام آلودگی کو جذب کر لیتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ایک عام مقناطیس کو اس پانی میں گھمایا جاتا ہے تو پاؤڈر سے منسلک تمام آلودہ ذرات مقنا طیس سے چپک جاتے ہیں۔ باریک خوردبینی ساخت کے باوجود ا س کے ستونوں کا اندرونی رقبہ کافی بڑا ہے جس میں سے پانی با آسانی بہہ سکتاہے اور اس دوران یہ ستون مائیکرو پلاسٹک جذب کرلیتے ہیں“
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سمندروں میں شامل ہونے والے خوردبینی پلاسٹک کے ذرات سے سمندری حیات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مائیکرو پلاسٹک نگلنے سے سبز اور زیتونی کچھووں میں جنسی توازن بگڑ گیا ہے اور زیادہ تر مادہ کچھوا جنم لے رہی ہیں۔ اسی طرح مچھلیوں کی کئی نایاب انواع معدومی کے خدشے سے دوچار ہیں
مقناطیسی سفوف کی افادیت کے بارے میں محمد حارث کہتے ہیں کہ ان کے تیار کردہ سفوف کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سستا اور استعمال میں آسان ہے۔ اس کے علاوہ اس سے سمندری حیات پر بھی کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اس کی افادیت کو جانچنے کے لیے مائیکرو اسکوپی سمیت دیگر جدید تکنیک استعمال کی گئی ہیں
حارث بتاتے ہیں کہ ایک لیٹر پانی میں اگر ایک گرام مائیکرو پلاسٹک گھلا ہو تو اسے کشید کرنے کے لیے تین گرام سفوف استعمال کیا جاتا ہے، جسے دوبارہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کی ٹیم نے آلودہ پانی کے نمونوں پر اس سفوف کو بار بار آزمایا اور ہر دفعہ سو فیصد نتائج حاصل ہوئے
سفوف کے کمرشل استعمال سے متعلق کیا منصوبہ بندی پر بات کرتے ہوئے محمد حارث کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کا ایک بریک تھرو پوائنٹ یہ بھی ہے کہ اس کا خام مال حیاتیاتی کچرا ہی ہے جو آلودہ پانی میں شامل ہے۔ وہ مستقبل میں مقناطیسی سفوف کے کمرشل استعمال کے متعلق بہت پر امید ہیں
حارث کے مطابق اسے پیٹنٹ کروانے کے لیے درخواست دینے کے علاوہ ان کی ٹیم آبی ذخائر پر کام کرنے والی متعدد آرگنائزیشنز اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ اگلے مرحلے میں اس سفوف کو پانی کی صفائی کے لیے کمرشل بنیادوں پر استعمال کیا جا سکے۔