بیس سالہ احسان خالد ایک کچے کھالے پر بیٹھے انگریزی کی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ان کے آس پاس گھاس اور سرسوں کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں پڑی ہوئی ہیں، جو انہوں نے تھوڑی دیر پہلے کاٹی ہیں۔
وہ قصورشہر سے ملتان جانے والی سڑک پر تقریباً پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں قلعہ ناتھا سنگھ کے رہائشی ہیں۔ دن میں وہ ایک مقامی کسان کے ہاں بھینسوں کا چارا کاٹنے اور دودھ دوہنے کا کام کرتے ہیں اور شام کو گاؤں سے چھ کلو میٹر دور ٹھینگ موڑ نامی جگہ پر آٹھ ہزار روپے ماہوار تنخواہ پر ایک ڈاکٹر کے معاون کے طور پر فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
وہ بی اے کے امتحان کی تیاری کرنے کے لئے ایک نِجی کالج سے کوچنگ بھی حاصل کرتے ہیں جس کی فیس پندرہ سو روپے ماہانہ ہے۔ لیکن انہیں تعلیم کے لئے اتنا کم وقت ملتا ہے کہ وہ مہینے میں چند دن ہی کالج جا پاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر میں کام نہ کروں تو اپنی تعلیم کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا’ چنانچہ وہ کام کرنے کے دوران بھی پڑھائی کرتے رہتے ہیں۔
لیکن وہ شاید کبھی بی اے نہ کر پائیں۔
کیونکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس بات پر پابندی لگادی ہے کہ انٹر میڈیٹ پاس کرنے والا کوئی بھی طالب علم گھر بیٹھے یا کسی نجی کالج یا اکیڈمی سے جز وقتی کوچنگ لے کر دو سال میں بی اے کر سکے۔ ایسے طالب علم اب پنجاب یونیورسٹی کے ذریعے امتحان دے کر دو سال میں محض ایک ایسوسی ایٹ ڈگری لے سکیں گے، لیکن ڈگری مکمل کرنے کے لئے انہیں مزید دو سال گورنمنٹ کے کسی منظور شدہ کالج یا یونیورسٹی میں ایک کل وقتی طالب علم کے طور پر پڑھنا ہو گا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے ایک مراسلے کے مطابق اب صرف وہی طالب علم دو سال میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کر سکیں گے، جو 31 دسمبر 2018 تک کسی یونیورسٹی میں گریجویشن کے امتحان کے امیدوار کے طور پر رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ اس تاریخ کے بعد رجسٹرڈ ہونے والے سبھی طلبا کو چار سالہ ڈگری کے لئے ہی پڑھائی کرنا ہو گی۔
احسان خالد سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ ان جیسے غریب دیہاتی طلبا کے لئے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ اس کے لئے انہیں جن کالجوں یا یونیورسٹیوں میں داخل ہونا پڑے گا، وہ صرف بڑے شہروں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ طالب علم نا تو اپنے دیہاتوں سے روزانہ پڑھائی کے لئے ان شہروں کا سفر کر سکتے ہیں اور نا ہی وہاں کے تعلیمی اور رہائشی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔
دو سالہ بی اے کی جگہ چار سالہ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے سرکاری شعبے کے تعلیمی اداروں کو مزید سبسڈی اور طلبہ کو وظائف دینا ہوں گے۔
پڑھنے سے پڑھانے تک
تیس سالہ محمد فرہاد لاہور کے ایک سرکاری کالج میں انگریزی کے استاد ہیں۔ وہ سرگودھا شہر سے پچپن کلو میٹر شمال مشرق میں واقع ایک گاؤں کے رہائشی ہیں اور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اس لئے اپنی پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ وہ مقامی بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنے گھر کی آمدن میں بھی حصہ ڈالتے تھے (جس کا زیادہ تر انحصار ان کے والد کی کریانے کی دکان پر تھا)۔
جب انہوں نے 2009-10 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تو اس وقت سرکاری کالجوں میں چار سالہ بی اے/بی ایس سی پروگرام کا آغاز ہو چکا تھا، جس میں داخلہ لینے کے لئے درکار مالی وسائل اور وقت ان کے پاس نہیں تھا۔لہٰذا انہوں نے پرائیویٹ بی اے کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ان کا بی اے کا نتیجہ اتنا اچھا آیا کہ انہیں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے انگلش میں داخلہ مل گیا۔ انہوں نے اسی یونیورسٹی سے بعد ازاں ایم فِل کی ڈگری حاصل کی اور اب وہ لیکچرار کے عہدے پر فائز ہیں۔
محمد فرہاد کہتے ہیں کہ ‘اگر میرے پاس دو سال میں بی اے کرنے کی آپشن نہ ہوتی تو شاید میں اپنی تعلیم بہت پہلے ترک کر چکا ہوتا.’
محمد حسین ایک ایسی اکیڈمی میں پڑھاتے ہیں جہاں سے کوچنگ حاصل کرنے کے بعد سینکڑوں بچوں نے محمد فرہاد کی طرح کسی کالج میں داخلہ لئے بغیر بی اے کیا ہے۔ وہ دو سالہ ڈگری کے خاتمے کو دیہاتی بچوں کے ساتھ دشمنی گردانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘چار سالہ پروگرام کے تحت پڑھائی کرنا ان طالب علموں کے لئے نہایت مشکل ہے کیونکہ انہوں نے کھیتی باڑی میں اپنے خاندان کا ہاتھ بھی بٹانا ہوتا ہے.’
لاہور میں ایک تعلیمی اکیڈمی چلانے والے عاصم سہیل ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ شہروں میں رہنے والے مزدور طبقے کے بہت سے بچے بھی چار سالہ پروگرام کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائیں گے کیونکہ وہ دن کے وقت کام کرتے ہیں اور شام کو تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
وہ 2002ع سے ایسے طلبا کو کوچنگ فراہم کر رہے ہیں، جو سرگودھا یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں بطور پرائیویٹ امیدوار بیٹھتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسے طلبا کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ 2018ع اور اس سے پہلے ان کے پاس پرائیویٹ بی اے کرنے والے طالب علموں کی تعداد 100 سے زائد تھی، لیکن پچھلے دو سال میں یہ کم ہوتے ہوتے صرف پنتیس رہ گئی ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں معاشیات کے استاد ڈاکٹر فیصل باری اس بارے میں کہتے ہیں کہ ‘یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا حکومت چار سالہ ڈگری کے لئے طلبا کو پرائیویٹ امیدواروں کے طور پر امتحان دینے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں، لیکن حقیقت یہ کہ چار سالہ ڈگری کا نصاب بہت زیادہ ہے جس پر عبور حاصل کرنا جز وقتی پڑھائی کرنے والے پرائیویٹ طالب علموں کے لئے ممکن نہیں. ‘
دیہاتی طالبات کے مسائل:
محمد حسین سمجھتے ہیں کہ دیہاتی خواتین کی تعلیم کو بھی چار سالہ ڈگری پروگرام شدید متاثر کرے گا۔ ‘ان کے گھر والے انہیں دو یا تین ماہ ٹیوشن پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں اور وہ بھی کسی ایسے شخص سے جس کو وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن وہ انہیں کسی ایسی پڑھائی کی اجازت نہیں دیں گے، جس کے لئے انہیں کم از کم دو سال اپنے دیہات اور خاندان سے دور کسی شہر میں رہنا پڑے یا روزانہ سفر کر کے وہاں پہنچنا ہو.’
چین کی دالیان یونیورسٹی میں 2018ع میں شائع کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ٹرانسپورٹ سسٹم کا نہ ہونا اور سفر پر ہونے والے اخراجات ان اہم رکاوٹوں میں شامل ہیں، جو خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں کا اپنا ٹرانسپورٹ نظام صرف شہری مراکز میں ہی ہوتا ہے، جبکہ دیہی علاقوں سے آنے والی خواتین کو عام بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، جو نا صرف مہنگا ہے بلکہ غیر محفوظ بھی ہے۔
اس تحقیق کے مصنفین کہتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کے باعث 13 فیصد پاکستانی والدین اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتے کہ ان کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخل ہوں، جبکہ اعلیٰ تعلیم کی خواہاں 22.9 فیصد خواتین کو انہی وجوہات کی بنا پر دیگر رشتے داروں، دادا-دادی/نانا-نانی اور شوہروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیا تعلیمی معیار کا تعلق تعلیم کی مدت سے ہے؟
دالیان یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 2001-02 میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخل طلبا کی تعداد 2 لاکھ 76 ہزار تھی، جو 2014-15 میں بڑھ کر بارہ لاکھ اٹھانوے ہزار ہو گئی۔ اس کے باوجود 2015-16 میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ملک بھر میں کسی نہ کسی سطح پر تعلیمی اداروں میں داخل آبادی کا محض 10 فیصد تھے، جو دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا میں 2015-16 یہ شرح 24 فیصد تھی اور سری لنکا اور نیپال میں بالترتیب 21 فیصد اور 16 فیصد۔حتیٰ کہ پاکستان کے سابقہ مشرقی بازو بنگلہ دیش میں بھی یہ شرح 13 فیصد تھی۔
چار سالہ ڈگری پروگرام کے نفاذ کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس سے اعلیٰ تعلیم اس قدر مہنگی اور مشکل ہو جائے گی کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے لوگوں کی شرح بڑھنے کے بجائے کم ہو جائے گی۔ دوسری طرف چار سالہ ڈگری کے حامی کہتے ہیں کہ اس کا نفاذ پاکستان کے تعلیمی معیار کو عالمی سطح پر لانے کے لئے ناگزیر ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا محض ڈگری کے حصول کی مدت بڑھانے سے عالمی معیار حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں مروجہ نصاب عالمی معیار کے مطابق ہے؟ کیا ان تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ اور ایسی سہولیات موجود ہیں جو ایک عالمی معیار کا نصاب پڑھا سکیں؟ اگر مطلوبہ اساتذہ اور سہولیات موجود نہیں تو ان کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟
محمد فرہاد، جو خود بھی ایک سرکاری کالج کے معلم ہیں، کہتے ہیں کہ ‘چار سالہ ڈگری کے لئے بنائے جانے والے نصاب کو پڑھانے کے لئے نا صرف اساتذہ کو نئے سرے سے تربیت دینا پڑے گی (جس کا انتظام کہیں موجود نہیں) بلکہ اس کے اندر موجود عملی کام کے لئے لائبریریاں، لیبارٹریاں اور کئی طرح کا دوسرا سازوسامان چاہیئے ہو گا (جو سرکاری شعبے کے اکثر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دستیاب نہیں)۔
تاہم خدشہ یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں اساتذہ اور سہولیات کا معیار بڑھنے کے بجائے کم ہو جائے گا، کیونکہ حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے سرکاری یونیورسٹیوں کو فراہم کی جانے والی رقم میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ 2018-19 میں یہ رقم ستانوے ارب روپے سے زیادہ تھی، جبکہ 2019-20 میں یہ کم ہو کر ستتر ارب رہ گئی۔ رواں مالی سال یہ رقم مزید کم ہو جائے گی۔ اس کمی کی وجہ سے کچھ یونیورسٹیاں بینکوں سے ادھار لے کر اپنے ملازمین کی تنخواہیں دے رہی ہیں۔
2001-02 میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخل طلبا کی تعداد 2 لاکھ 76 ہزار تھی، جو 15-2014 بڑھ کر بارہ لاکھ اٹھانوے ہزار ہو گئی۔ اس کے باوجود 16-2015 اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ملک بھر میں کسی نہ کسی سطح پر تعلیمی اداروں میں داخل آبادی کا محض 10 فیصد تھے جودوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
اسی طرح بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دور دور تک اعلیٰ تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں۔ ملک میں ایسےاضلاع بھی موجود ہیں، جہاں کئی لاکھ کی آبادی کے لئے صرف ایک ہی کالج ہے۔ ان علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کو عالمی معیار کی تعلیم تو دور کی بات ہے، ملکی معیار کی تعلیم بھی دستیاب نہیں۔
ایسی جگہوں پر رہنے والے لوگوں کے لئے دو سالہ ڈگری پروگرام ایک ایسا راستہ فراہم کرتا تھا جس پر چل کر وہ اپنی تعلیمی اور پیشہ وارانہ زندگی کو بہتر بنا سکتے تھے (جیسا کہ محمد فرہاد کے حالاتِ زندگی سے واضح ہے) لیکن اب انہیں یہ راستہ بھی دستیاب نہیں۔
ٹھینگ موڑ میں واقع اکیڈمی کے استاد محمد حسین کہتے ہیں کہ ‘تعلیمی پالیسی بنانے والوں کو چاہیئے کہ وہ ڈگری کی مدت بڑھانے کے بجائے نصاب بہتر بنانے پر زور دیں تاکہ ڈگری حاصل کرنے والے طلبا کے پاس ایسی قابلیت اور مہارت آ جائے، جس کی مدد سے وہ ملازمتوں کے حصول میں کسی بھی دوسرے ملک کے طلبا کا مقابلہ کر سکیں.’
ڈاکٹر فیصل باری، جو ہائر ایجوکیشن کمشن کے ممبر بھی ہیں، اس نکتہِ نظر سے جزوی طور پر متفق ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر ہمیں دوسرے ملکوں میں اپنی ڈگری کو منوانا ہے، تو ہمیں چار سالہ ڈگری اختیار کرنا ہی پڑے گی’۔ تاہم وہ مانتے ہیں کہ اس کی وجہ سے بہت طالب علموں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا دورانیہ بڑھ جائے گا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں سے دور رہائش پذیر طلبا کے لئے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے وہ تجویز کرتے ہیں کہ مستحق اور قابل طلبا کو وظائف دیے جائیں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی اہلیت اور مہارت میں اضافہ کیا جائے۔ ‘اس کے لئے سرکاری شعبے کے تعلیمی اداروں کو حکومت کی طرف سے مزید رقوم فراہم کی جانی چاہئیں.’
نوٹ: شناخت ظاہر نہ کرنے کی غرض سے نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بشکریہ سجاگ