اعترافِ جرم (مراکشی افسانہ)

لیلیٰ سلیمانی (ترجمہ: سیّد سعید نقوی)

میں آپ کو اپنا نام نہیں بتا سکتا۔ نہ ہی وہ دیہات، جہاں اس قصے نے جنم لیا۔۔ کیونکہ وہاں میرے والد ایک عزت دار فرد ہیں، جن سے لوگ خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں انہیں شرمسار نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اسی زرخیز زمین میں پیدا ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنا مستقبل شہر میں بنایا، جہاں وہ سوٹ پہننے اور قیمتی کار چلانے والے ایک اہم شخص بن گئے

وہ میری سولہویں سالگرہ تھی، جب انہوں نے مجھے اس تکلیف دہ جگہ بھیج دیا، تاکہ میں دیہاتی زندگی کی سختیوں سے اپنی روح کی بالیدگی اور عضلات کی سختی بہتر کرسکوں۔ ”میں نہیں چاہتا کہ تم ہماری سڑکوں پر پھرنے والے آوارہ لڑکوں کی مانند ہو جاؤ“ انہوں نے مجھ سے کہا تھا، ”وہاں تم جینا سیکھ لو گے۔“

ان گرمیوں کے متعلق میری یادداشت دھندلی ہے۔ تمام دن ایک ہی جیسے تھے اور میں اس بوریت سے نجات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔ میں نے کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانے کی پیشکش کی مگر کسی کو مجھے اس بیکار کام میں شامل کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، کیونکہ میں ایک جج کا بیٹا تھا۔۔ اور میرے بازو بھی بہت پتلے تھے۔ گاؤں کے دوسرے نوعمر لڑکے بھی مجھ سے فاصلہ رکھتے تھے۔ جب کبھی وہ رات گئے چُرائی ہوئی بئیر لنڈھانے کے لیے جمع ہوتے تو میں کبھی مدعو نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنے کمرے سے ان کے قہقہوں اور ڈکاروں کی آوازیں سنتا، جہاں میں گھنٹوں لیٹا اس مٹی سے بنی چھت کو گھورتا رہتا۔

زیادہ تر دیہاتی ان پڑھ تھے۔ابھی تک اس دیہات میں بجلی نہیں آئی تھی اور کسی کے پاس ٹی وی یا کمپیوٹر نہیں تھا۔ وہ اپنی تفریح کے لیے ناقابلِ یقین افواہیں تراشتے یا ایسی کہانیاں سناتے، جو مجھ جیسے کسی شہری لڑکے کے لیے ناقابلِ یقین تھیں۔ ان گرمیوں میں ہر شخص اس علاقے کی ایک ایسی لڑکی کے بارے میں بات کر رہا تھا، جسے اس کے قبیلے نے نکال دیا تھا۔ ان لڑکوں کے بیان کے مطابق اس نے اپنی بے راہ روی سے گاؤں کی عزت خاک میں ملا دی تھی، اور اب وہ سڑکوں پر کتوں کی مانند گھوما کرتی۔ بوڑھی عورتیں اسے دیکھ کر کچھ نہ کہتیں، بس اپنی آنکھیں نیچی کر لیتیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس کسان لڑکی کی روح کے لیے دعا کرتی تھیں۔

میں اس آوارہ لڑکی کے متعلق باتیں دلچسپی سے سنتا اور کسی نئی معلومات کے لیے بے چین رہتا۔ وہ رنگین داستان، جس میں ہیروئین ہر روز نئے خطرات سے کھیلتی تھی، میری تفریح کا واحد ذریعہ تھی۔ دن کے وقت جب میں بد دلی سے مویشیوں کی دیکھ بھال کررہا ہوتا، تو سینہ بہ سینہ پھیلتی افواہیں کی تازہ خبریں سنتا، جو ہر خبر دہندہ کے ساتھ ذرا اور بڑھ جاتی، ذرا اور مزیدار۔۔

ایک دوپہر آکور نام کے ایک شخص نے تجویز کیا کہ میں اس کے ساتھ میدانوں میں جا کر جانوروں کے چارہ کے لیے گھاس اکٹھی کروں۔ وہ چالیس برس کا مضبوط، جسم آدمی تھا، جس کے گول چہرے پر سورج نے اثرات چھوڑ دیے تھے۔ وقتاً فوقتاً وہ اپنی اونی ٹوپی اتار کر سر کھجا لیتا۔ جب وہ مسکراتا تو آپ اس کے نیلے مسوڑے دیکھ سکتے تھے۔ یہ شخص بہت دیو قامت تھا اور میں کئی بار اس کی غیر معمولی جسمانی طاقت کے مظاہرے دیکھ چکا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا دس برس کا بیٹا تھا، جو ابھی سے کھیتوں کی سخت زندگی کا عادی معلوم ہوتا تھا۔ میں نے لڑکے سے دریافت کیا کہ کیا وہ اسکول جاتا ہے؟ کیا اسے اپنے اساتذہ پسند ہیں؟ لیکن اس نے جواب میں مجھ پر محض ایک مشکوک سی نظر ڈالی۔۔ اور اپنے ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر اپنی ناک صاف کرلی۔

میرے ساتھ چلتے، آکور نے مجھ سے میرے والد کے بارے میں گفتگو کی، وہ ان کا بہت مقروض تھا۔ وہ مجھ سے ایسے احترام کا رویہ روا رکھے ہوئے تھا، جو مجھے مضطرب کر رہا تھا۔ میں اس کے سوالات کے جواب میں زیادہ نہیں بولا۔ میں اس منظر کے سحر میں گرفتار تھا۔ چمکیلی دھوپ میں سنہری، نقرئی گندم کی بالیاں مجھے مسحور کر رہی تھیں۔ دور پس منظر میں اطلس پہاڑیوں کا سلسلہ نظر آ رہا تھا۔ میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر مجھے یقین تھا کہ آکور محض شانے اُچکا دے گا۔ ان فصلوں کے علاوہ وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ ہم گایوں کے ایک ریوڑ کے پاس سے گزرے۔ وہ اتنی لاغر تھیں کہ میں ان کی پسلیاں گن سکتا تھا۔ رسی سے ان کے ٹخنے باندھ دیے گئے تھے تاکہ وہ فرار نہ ہو سکیں۔ سر جھکائے وہ ایک کانٹے دار جھاڑی پر منہ مار رہی تھیں، بے حرکت اپنے اطراف سے لاتعلق۔۔

ہم کام میں مصروف ہو گئے۔آکور نے مجھے پٹ سن کے وہ تھیلے بغیر تھکاوٹ کے بھرنا سکھائے، جو ہم اپنے ساتھ لائے تھے۔ میں اس سناٹے کا لطف لیتا، شاید دن میں خواب دیکھ رہا تھا۔ جب کوئی درجن گز دور مجھے ایک عورت نظر آئی، سورج کی روشنی میں اس کا ہیولہ نظر آ رہا تھا۔ پہلے تو مجھے گمان ہوا کہ شاید میرا واہمہ ہے۔ میں سمجھا کہ شاید گاؤں میں سنی کہانیوں نے میرے دماغ پر اثر ڈالا ہے اور میں فریبِ نظر کا شکار ہوں۔۔ مگر وہ شبیہ ہمارے نزدیک آ گئی۔ وہ ایک نوجوان عورت تھی، جو ہماری سمت گھسٹ رہی تھی۔ آکور میری جانب مڑا تو میں اس کی نگاہوں سے سمجھ گیا کہ وہ بھی اس پُراسرار لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا، جس کے بارے میں سارا گاؤں ہی بات کر رہا تھا۔

”یہ تمہارے لیے ہے“ وہ چیخا.. اس کا لہجہ اچانک پر جوش ہو گیا تھا، ”اس قسم کا موقع تمہیں روز نہیں ملے گا!“

کسی پیاس کی شدت سے جاں بلب آدمی کی مانند، جسے اچانک پانی نظر آ جائے، آکور نے اس لڑکی کی سمت بھاگنا شروع کر دیا۔ اس لڑکی نے جواب میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ تھکاوٹ سے نڈھال وہ اپنی قسمت سے سمجھوتہ کر چکی تھی۔ اس نے بھاگنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اور اب میں سوچتا ہوں تو وہ بھاگ کر جاتی بھی کہاں؟ ان ویران میدانوں میں، کسی قریبی گھر سے نصف ساعت کی مسافت پر، وہ آکور سے بھاگ کر کہاں جاتی؟

میں کچھ نہیں بولا، میں نے اسے منع کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔ شاید اس نے مجھے اس کی مہلت بھی نہیں دی۔ کچھ اس لیے بھی کہ میں ان گرمیوں کی مردہ دل بوریت میں کچھ ہلچل دیکھنا چاہتا تھا۔

آکور اس لڑکی کے پاس پہنچ گیا تو اس نے مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ جب میں ان سے چند قدم کے فاصلے پر تھا تو میں اسے لڑکی کو دھمکاتے سنا کہ اگر اس نے شور مچایا، یا میرے کہنے کے خلاف کیا، تو آکور کے تشدد کا نشانہ بنے گی۔ اس نے لڑکی کو گندم کی فصل میں بیٹھ جانے پر مجبور کیا، جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا۔ وحشیانہ طور پر اس نے وہ پتلون نوچ لی، جو وہ لڑکی اپنی لمبی فراک کے نیچے پہنے تھی۔ پھر اس نے ہاتھ سے مجھے اشارہ کیا۔ ویسا ہی اشارہ، جو کوئی اپنے مہمان کو کوئی ڈش چکھنے کے لیے کرتا ہے، جو اس نے خود تیار کی ہو۔۔ اپنے سرخ، گٹھے پڑے ہاتھوں سے مدعو کرنے کا اشارہ۔۔ بغیر کوئی لفظ ادا کیے میں نے اس کا اشارہ قبول کر لیا۔

آج میں نہیں بتا سکتا کہ اس وقت میرے ذہن میں کیا گھوم رہا تھا۔ میں صرف حقائق دہرا سکتا ہوں، اور یہ یاد کر سکتا ہوں کہ اپنی پتلون ڈھیلی کرتے ہوئے میں گھٹنوں کے بل اس لڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے آکور کے قدموں کی دور ہوتی چاپ سنی۔ وہ اپنے بیٹے کو چوکیداری کی ہدایت دے رہا تھا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ اس کے بارے میں میری یادداشت سچائی پر مبنی ہے، لیکن جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو اس کی عمر مشکل سے سولہ برس تھی۔ ایک بچی کے بھرے بھرے گول رخسار، اس کی لمبی پلکوں والی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ گاؤں کی بیشتر لڑکیوں کے برخلاف وہ کھیتوں میں کام سے خستہ نہیں لگتی تھی، اس کی جلد نرم اور ٹھنڈی تھی

وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی۔ اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ جب میں اس کے نزدیک ہوا اور اس کے نازک جسم پر حاوی ہو گیا، تو اس نے اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیا۔ جیسے اس کی آزادی کا بس اب یہی اظہار رہ گیا ہو کہ وہ میری جانب نہ دیکھے۔ اس نے شاید یہ خیال قبول کر لیا تھا کہ اب اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں نے اس سے جفتی کی، اس کا بوسہ لینے کی کوشش کی مگر اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس نے تو اپنے جسم سے ہی لاتعلقی اختیار کر لی۔ ایسے نہیں کہ جیسے کوئی محبت سے اپنا جسم پیش کر رہا ہو، بلکہ جیسے کوئی اپنے ذہن کے استعمال سے کسی بھیانک صورت حال سے فرار اختیار کرہا ہو۔۔ نامعلوم کیوں، مگر مجھے یہ دردناک احساس ہوا کہ اس بھری دھوپ والے دن میں اس کے جسم پر قابض ہونے والا پہلا مرد نہیں تھا۔ میں فارغ ہو گیا۔ جب میں کپڑے پہن رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے ہاتھ خون آلودہ تھے۔ اپنی انگلیوں اور اس کی رانوں پر خون کی موجودگی نے مجھے اس بے حسی کے عالم میں جھنجھوڑ ڈالا، جس میں اس وقت میں گرفتار تھا۔

میں نے کپڑے پہننے میں اس لڑکی کی مدد کی۔ آچور نے اس کی جو پتلون نوچ کر پھینک دی تھی، وہ میں نے اسے اٹھا کر دی۔ جب وہ اسے پہن رہی تھی تو میں نے اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیا۔ میں نے اپنی ندامت چھپانے کے لیے اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کا نام پوچھا۔ میں نے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ وہ کہاں سے آئی تھی، کہاں جا رہی تھی، اس کی عمر کیا تھی؟ اس نے صرف ایک ہی جواب دیا: ”میں بہت بھوکی ہوں۔“ میں ایسے اچھل کر کھڑا ہو گیا، جیسے کسی الوہی مشن کا عندیہ مل گیا ہو۔

آکور، جس نے مجھے لباس پہنتے دیکھ لیا تھا، میری جانب آ رہا تھا۔ میں نے اسے نزدیک آنے کا اشارہ کیا۔ لیکن آکور نے میرے اشارے کا غلط مطلب سمجھا اور کسی عفریت کی ماننداس نوعمر لڑکی پر چھا گیا۔ اس دفعہ لڑکی نے مزاحمت کی کوشش کی۔ وہ چیخی اور اس نے کسان کے چہرے پر کھرونچے ڈال دیے۔ وہ اس کی آنکھیں نکال دینے کو تیار تھی۔ میں دخل اندازی کر کے ان دونوں کو پرسکون کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

”یہ بہت بھوکی ہے“ میں نے آکور کو سمجھایا

اس نے اپنے شانے اچکا دیے، جیسے پوچھ رہا ہو کہ تو کیا ہوا؟

اس پہاڑی دیہات میں بھوک ایک مستقل وجود تھا۔ ایک عادت، جو بچپن سے ہی رفاقت اختیار کر لیتی، اور جسے صرف افیون یا گھر میں کشید کی گئی شراب سے ہی دور رکھا جاتا۔ لیکن میں نے اصرار کیا اور بالآخر آکور نے اپنے بیٹے کو گاؤں بھیجا کہ کھانے اور پینے کے لیے کچھ لے آئے۔ ”ان سے کہنا یہ اس نوجوان آدمی کے لیے ہے۔۔ سمجھ گئے؟“ اس نے لڑکے کے سر پر چپت لگا کر کہا۔ وہ لڑکا ایک گدھے پر سوار ہوا اور "را” کی آواز لگا کر مہمیز دی، گدھا آگے بڑھ گیا۔

ہم تینوں گندم کی فصل میں ہی کوئی ایک گھنٹا بیٹھے رہے۔ وہ لڑکی مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر تھی، اور شاید آکور سے بھی اتنا ہی فاصلہ رہا ہوگا۔ اس نے اپنے پاؤں اپنے سامنے پھیلا لیے تھے، اور خاموشی سے سامنے نظریں گاڑے بیٹھی تھی۔ آکور ایک بالی چبا رہا تھا۔ اس نے کھڑے ہوکر افق کا جائزہ لیا اور پھر بکتا جھکتا بیٹھ گیا۔۔ وہ اپنے بیٹے، گدھے کی سست رفتاری اور عورتوں کی کند ذہنی کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔

آخر کار وہ لڑکا نمودار ہوا، اس کے پاس ایک گول ڈبل روٹی تھی، کچھ مکھن اور گرم چائے کی کیتلی ایک بان کی ٹوکری میں رکھے تھے۔ ہم وہ کھانا اس لڑکی کو دے کر وہاں سے جا سکتے تھے، بالخصوص کیوں کہ اب جلد ہی تاریکی اترنے والی تھی۔ لیکن وہ لڑکا بار بار کہتا رہا کہ ’ماما نے کہا ہے کہ چائے دانی ساتھ واپس لے آکر آنا، انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں بھول گیا تو وہ مجھے ماریں گی۔‘ ہم نے بیٹھ کر گرم چائے ساتھ ہی پی لی، کسی محبت بھرے خاندان کی مانند۔۔ وہ محبت کرنے والی ماں، آکور بہادر، باوقار باپ اور میں بڑا بیٹا، جو اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھے گا۔

جب ہم چائے پی رہے تھے تو لڑکی خوف زدہ آنکھوں سے ہماری جانب دیکھتی رہی۔ لگتا تھا کہ جیسے اسے خوف ہو کہ ہم اسے اس تاریک ہوتے، ویران کھیت میں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ہماری نگاہوں کا کئی بار تصادم ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی، لیکن ان دو گنوار گواہوں کی موجودگی میں ہچکچا رہی تھی۔ اگر مجھ میں زیادہ ہمت ہوتی، اگر میں ایک اچھا آدمی ہوتا تو میں اٹھ کر اس کے پاس جاتا تاکہ وہ تنہائی میں مجھ سے بات کر سکتی۔

سورج افق میں غروب ہو رہا تھا اور آسمان نے عنابی چادر اوڑھ لی تھی۔ لڑکے نے کھڑے ہو کر چائے دانی باسکٹ میں رکھی۔ گدھے کی لگام تھام کر اس نے اصرار کیا کہ میں اس پر سوار ہو جاؤں۔ مجھے علم تھا کہ آکور کی آنکھیں مجھ پر مرکوز تھیں، میں نے لاتعلقی ظاہر کی کیوں کہ میں مردانگی کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو خدا حافظ بھی نہیں کہا۔ لیکن اس جھٹ پٹے میں کئی بار میں نے اسے مڑ کر دیکھا۔ وہ وہیں کھیت کے وسط میں کھڑی تھی۔ اس نے اپنا سر ایک کالے اسکارف سے ڈھک لیا تھا اور جسم کو گرم رکھنے کی کوشش میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے تھے۔

تمام راستے میں اس کے بارے میں سوچتا رہا، اسے درپیش سرد رات کے بارے میں۔۔ وہ درندے جو اس پر حملہ آور ہوسکتے تھے۔۔ انسان، جانور، اس کے قبیلے کے افراد، جو انتقام پر مائل ہوں۔۔ اس کمبل کے بارے میں، جو میں اسے فراہم کر سکتا تھا۔۔ ان پیسوں کے بارے میں، جو میں اس کی مٹھی میں دبا سکتا تھا، تاکہ وہ ایک بس کا ٹکٹ خرید کر اس جگہ سے نکل سکے، جس نے اسے قید کر رکھا تھا، جو اسے زندہ کھائے جا رہی تھی۔۔

جب ہم گاؤں واپس پہنچے تو آکور مردوں کو میری مہم جوئی کی داستان سنانے کے لیے بے چین تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے، رال ٹپکاتے اسے دیکھتے رہے۔ ان کے قہقے بلند ہوتے رہے، ان کی توصیفی نگاہوں سے مجھے فخر محسوس ہوا۔ اس لمحے میں اپنی پشیمانی، اس شب کی ٹھنڈک سب فراموش کر چکا تھا۔ میں نے آکور کے بیان میں مداخلت کی اور باقی کہانی خود سنائی، ستارے ٹانک کر اس میں شہوت بھرے چٹخاروں کا اضافہ کیا، جس سے وہ گنوار اپنے قہقہے نہ روک سکے۔ میری کہانی میں وہ لڑکی ایک شہوت پرست، پر مسرت دیہاتن بن گئی، جس کے سینے کے ابھار نمایاں تھے، اور رانیں وا تھیں۔ کیسے ہم نے گھاس پر لوٹ لگائی تھی، اور پھر وہیں بیوقوفوں کی مانند لیٹے ہنستے رہے تھے۔ میرے سامعین مسحور ہو گئے تھے، کئی لوگوں نے مجھے شانوں پر ہاتھ مار کر مبارک باد دی۔

اسی سال میرے والد کا تبادلہ کاسابلانکا ہو گیا اور میں نے اپنے ہائی اسکول کے آخری سال کا آغاز کیا۔ اب زرعی میدانوں میں گرمیوں کے لمبے ہفتے گزارنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اب میری ساری توجہ پڑھائی پر مرکوز تھی۔ اپنے والدین کے بیان کے مطابق میں ’فخرِ خاندان‘ تھا۔ انہوں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی کہ میں فرانس کی کسی اچھی شہرت والی جامعہ میں داخلہ لے لوں۔

اس آوارہ لڑکی سے معاملہ کے ایک سال بعد میں انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں منتقل ہو گیا۔ ہفتے کے دوران میں رات گئے تک کام کرتا۔ اس جامعہ میں عموماً میرے کمرے کا چراغ ہی سب سے آخر میں گل ہوتا تھا۔ البتہ اختتامِ ہفتہ باقی دوستوں کی مانند، میں بھی لڑکیوں کا تعاقب کرتا، اتنی شراب پیتا کہ قے ہو جاتی، میں بہت خوش تھا۔۔

پھر ایک رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں ایک بگھی میں بیٹھا ہوں، اس کی چمڑے کی نشست پھٹی ہوئی ہے، اور بھوری بھرائی کے پھونسے باہر نکل کر لکڑی کے فرش اور پائدان پر پھیلے ہیں۔ ہم کسی جنوبی شہر مثلاً اشبیلہ یا اصفہان سے ایک اندھا دھند رفتار سے گزر رہے ہیں۔ پہیے پتھریلی سڑک پر اچھل رہے ہیں۔ میں نے ہتھے کو اتنی مضبوطی سے تھام رکھا ہے کہ میری انگلیوں کے پور نیلے، بے حس ہو گئے ہیں۔ میں بہت خوف زدہ ہوں، ہر جھٹکے کے ساتھ مجھے لگ رہا ہے کہ میں بگھی سے باہر گر پڑوں گا۔۔ اور ان درختوں کے اطراف بکھری کھٹی نارنگیوں کی مانند میرا سر بھی پاش پاش ہوجائے گا۔ وہ کوچوان گھوڑے کو انتہائی بے رحمی سے چابک مارے جا رہا تھا۔۔ ایک ایسی بے رحمی، جو میری فہم سے بالاتر تھی۔۔ اور حیرت انگیز طور پر مجھے شرمندہ کر رہی تھی۔ میں اس سے کہنا چاہتا تھا کہ رک جاؤ، میں اس جانور کا دفاع کرنا چاہتا تھا۔ میں اس کے مالک سے رحم کی درخواست کرنا چاہتا تھا، لیکن میں اس پتلے آہنی ہتھے کو چھوڑنے کی جرأت نہیں کر سکا، جو مجھے گرنے سے روکے ہوئے تھی۔ جب ہم ایک چوراہے پر پہنچے تو میں اپنا ہاتھ اس کوچوان کے شانے پر رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ عین اسی وقت وہ گھوڑا بے دم ہو کر گرا، بگھی الٹ گئی اور بے چارہ بوڑھا گھوڑا زمین پر مردہ پڑا ہوا تھا۔۔ لگتا تھا جیسے اس کا جسم پھیل رہا ہو، جیسے اس کے عضلات پگھل رہے ہوں۔ کوچوان نے بگھی سے چھلانگ لگائی اور گھوڑے سے لپٹ گیا۔ پاگلوں کی مانند، بے تکے پن سے وہ اسے پھر سے کھڑا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے گھوڑے کے دانتوں کو پکڑا، اپنی انگلیاں اس کے پھیلے نتھنوں میں گھسا دیں۔ لیکن گھوڑے کی بے نور آنکھیں خلا میں کچھ تلاش کرتی رہیں۔ میں اس کے مردہ جسم پر جھک گیا، اس کی پسلیاں صاف نظر آرہی تھیں۔ میں نے پہلے غور نہیں کیا تھا کہ وہ کس قدر لاغر تھا۔ میں نے اس کے پسینے میں بھیگے سرین پر ہاتھ رکھا تو مجھے اپنے بچپن کی مانوس خوشبو یاد آ گئی۔ جانور کے جسم کی ستھری بُو، زمین کی خوشبو، لہسن اور کھاری پانی کی بُو۔۔

میری آنکھ کھلی تو چادر بھیگ چکی تھی اور میں ہوا میں ہاتھ چلا رہا تھا۔ مجھے اپنے ذہن کو صاف کرنے میں کئی منٹ لگ گئے۔ مجھے بتی جلانے سے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میں اپنے آپ کو اس سڑتی لاش کی ہولناکی کے روبرو نہ پاؤں۔ سارے دن اس خواب کی خوشبو مجھ سے لپٹی رہی۔ یہ اس کسان لڑکی کے بالوں کی خوشبو تھی، اس کے پسینے میں گندھے کھیت کی خوشبو۔۔ اس کے بعد آنے والے کئی ہفتے میں اس اضطراب سے نجات حاصل نہ کر سکا۔ مجھے وہ خیالی بگھی ہراس کرتی رہی۔ مجھے گھوڑے کے جسم پر پڑنے والے کوڑوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔اس کے مرنے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے دوبارہ گھوم گیا۔ اس خیال سے ہی میرا دل بیٹھ گیا کہ میں ایک انجان شہر کے فٹ پاتھ پر مرنے والا تھا۔ دن رات میں ایک احساسِ زیاں کے ساتھ پھرتا رہتا۔۔ ایک ایسے جرم کے ادراک میں، جس کا نام بھی لینے کی مجھ میں جرأت نہیں تھی!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close