اٹلی حادثہ: قانونی طور پر بیرون ملک کیسے جایا جا سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

سلیمان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مَلاکنڈ سے ہے اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے روزگار کے سلسلے میں برطانیہ جانا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے

کچھ عرصہ پہلے ان کا رابطہ کچھ ایجنٹس کے ساتھ ہوا، انہوں نے اس نوجوان کو غیر قانونی طریقے سے برطانیہ بھیجنے کا وعدہ کیا اور اس مد میں ان سے ستائیس لاکھ روپے ادا کرنے کو کہا

ایجنٹ کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ شروع میں تیرہ لاکھ ادا کرنے ہونگے اور باقی رقم لندن پہنچنے کے بعد ادا کرنی پڑے گی

سلیمان بتاتے ہیں ”پہلے مجھے بتایا گیا کہ آپ کو دبئی جانا ہوگا اور وہاں پر ہمارا ساتھی آپ کو پک کرے گا اور رہائش مہیا کرے گا اور وہیں سے برطانیہ جانے کا منصوبہ بنایا جائے گا“

سلیمان کو بتایا گیا کہ وہ دبئی پہنچ کر ایئرپورٹ پر ایک نمبر پر کال کریں گے تو ان کا ایک بندہ لینے آئے گا

یوں ٹکٹ اور ویزے کا بندوبست کیا گیا اور سلیمان دبئی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گئے لیکن چھ گھنٹے ایئرپورٹ پر گزارنے کے باوجود بھی کوئی بندہ ان کو لینے نہیں آیا

سلیمان بتاتے ہیں ”میں نے چھ گھنٹے ایئرپورٹ پر انتظار کیا اور جو موبائل نمبر مجھے دیا گیا تھا، وہ بھی کوئی کال نہیں اٹھا رہا تھا اور آخر میں ایئرپورٹ پولیس نے مجھے بتایا کہ یا تو ایئرپورٹ سے باہر نکل جائیں یا ہم آپ کو اگلی فلائٹ سے واپس بھیج دیں گے“

اس کے بعد سلیمان نے دبئی میں مقیم ایک رشتہ دار سے رابطہ کیا اور وہ ان کو پک کرنے آیا اور یوں ٹکٹ، ویزا اور دبئی میں کچھ دن قیام پر پانچ لاکھ کا خرچہ ہوا حالانکہ انہیں ایجنٹ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ دبئی میں رہائش کا خرچہ ان کی طرف سے ہوگا

اس سارے فراڈ میں سلیمان کے مطابق ان کو تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور آخر میں یہ سب دھوکہ نکلا۔ یوں ان کے پیسے بھی ضائع ہو گئے اور برطانیہ جانے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا

یہ صرف اکیلے سلیمان کی کہانی نہیں ہے، پاکستان میں ایسے بے شمار نوجوان ہیں، جو روزگار اور اچھی زندگی کا خواب دیکھ کر یورپ جانے کے چکر میں زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ یہ نوجوان غیر قانونی طریقے سے باہر جاتے ہیں، اور زیادہ تر واقعات میں مختلف ممالک کے بارڈر پر ان کو گولی مار دی جاتی ہے، یس پھر اگر سمندری راستہ اختیار کرتے ہیں تو اکثر اوقات کشتی ڈوبنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں

جیسا کہ ایک حالیہ واقعے میں ہوا، جہاں اٹلی جانے والی ایک کشتی ڈوبنے کی وجہ سے اس میں موجود لگ بھگ باسٹھ تارکینِ وطن اپنج جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں متعدد پاکستانی بھی شامل تھے

جان سے جانے والے افراد میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی ممبر شاہدہ رضا بھی شامل تھیں، جن کا تعلق کوئٹہ سے ہے جبکہ باقی افراد میں پاکستان اور افغانستان کے تارکینِ وطن شامل تھے اور ایسے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں

اب سوال یہ ہے کہ اگر بیرون ملک جانے والے افراد غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانا چاہتے ہیں تو کیا ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، جس کے تحت یہ افراد قانونی طریقے سے یورپ یا دیگر ممالک میں جا سکیں؟

تعلیمی ٹریک

قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے کے لیے آسان ٹریک تعلیم ہے

منیب کا تعلق پشاور سے ہے اور آج کل وہ لندن میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر برسرِ روزگار بھی ہیں اور برطانیہ جانے پر تین سال پہلے ان کا تقریباً تیس لاکھ روپے خرچہ آیا تھا

وہ کس طریقے سے گئے، اس سوال کے جواب میں منیب بتاتے ہیں ”میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے برطانیہ آیا اور اس مقصد کے لیے میں نے پاکستان ہی سے ایک کنسلنٹنٹ کے ذریعے برطانیہ میں موجود کچھ یونیورسٹیوں میں اپلائی کیا اور ایک یونیورسٹی سے آفر مل گئی۔“

انہوں نے بتایا ”میں نے یونیورسٹی کی آدھی فیس پاکستان سے جبکہ باقی ماندہ برطانیہ جانے کے بعد قسطوں میں ادا کی اور اب ایک سال میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ جتنے گھنٹے مجھے کام کی اجازت ہے، وہ بھی کرتا ہوں“

منیب کے مطابق وہ تعلیم کے دوران بھی کام کرتے تھے اور فیس کا خرچہ بھی برداشت کرتے تھے اور گھر بھی پیسے بھیجتے تھے ”اب مجھے برطانیہ کی جانب سے دو سال مزید دیے گئے ہیں، جس میں مَیں اپنے لیے بہتر ملازمت تلاش کر سکتا ہوں اور اس کے بعد پانچ سال ملازمت کرنے کے بعد برطانیہ کی شہریت کے لیے بھی اپلائی کرنے کا اہل ہوجاؤں گا“

اختر حسین پشاور میں ایس آئی یو کے نامی غیر سرکاری ادارے کے نمائندے ہیں، جو گذشتہ سترہ سالوں سے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے داخلے کے لیے کونسلنگ فراہم کرتے ہیں

وہ بتاتے ہیں ”تعلیمی ٹریک پر جانے سے پہلے ہم خواہشمند طلبہ سے بجٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں اور اگر کوئی طالب علم چالیس سے پچاس لاکھ روپے برداشت کر سکتا ہے تو وہ لندن، آسٹریلیا، امریکہ کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتا ہے“

تاہم اگر کسی کا بجٹ کم ہو تو اختر کے مطابق وہ سائپرس، سویڈن اور اس طرح کے کم ترقی یافتہ ممالک میں داخلہ لے سکتے ہیں ”داخلے کے بعد وہ ماسٹرز کرنے کے دوران بھی اور اس کے بعد قانونی طور پر وقت دیا جاتا ہے، جس میں وہ ملازمت کر کے پیسے کما سکتے ہیں“

انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے طلبہ کے لیے وہ پھر جرمنی سمیت کچھ ایسے ممالک کا بھی مشورہ دیتے ہیں، جہاں پر تعلیمی فیس نہ ہونے کے برابر ہے یا قسکالرشپ دی جاتی ہے اور صرف وہاں رہائش کا خرچہ برداشت کرنا ہوتا ہے، تو یہ بھی تعلیم کی غرض سے باہر جانے کے لیے ایک آسان راستہ ہے

ورک پرمٹ ٹریک

تعلیمی ٹریک صرف ان نوجوانوں کو زیادہ فائدہ دے سکتا ہے، جنہوں نے پاکستان میں کم از کم بیچلر تک تعلیم حاصل کی ہو اور اس کے بعد وہ ایک سال کی ماسٹر ڈگری کے لیے کسی بھی یورپی یا دیگر ممالک میں اپلائی کر سکیں

تعلیمی ٹریک پر جانے کے لیے سب سے زیادہ خرچہ جو آتا ہے، وہ فیس کی مد میں ہے۔ آج کل لندن میں یونیورسٹی کی فیس چالیس سے پچاس لاکھ روپے ہے لیکن یہ فیس نوجوان وہاں جا کر کام کر کے واپس کما سکتے ہیں

لیکن اب اگر کوئی شخص تعلیم یافتہ نہیں ہے اور وہ یورپی ممالک جانا چاہتا ہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ اس حوالے سے سختر نے بتایا ”یہ بہت مشکل سوال ہے کیونکہ کم تعلیم یافتہ افراد کو ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کیونکہ ان کو اگر کام کے لیے کسی کی ضرورت ہے تو وہ تعلیم یافتہ افراد ہی ہیں“

اختر کہتے ہیں ”کم تعلیم یافتہ افراد کا یورپ میں جانا یا لندن اور امریکہ میں جانا اور وہاں ملازمت کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، لیکن ایسے افراد مڈل ایسٹ کے ممالک میں جا سکتے ہیں، جہاں پر تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہاں پر وہ اچھے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔ ان ممالک میں سعودی عرب، قطر، کویت، ترکی سمیت دیگر ممالک شامل ہے“

اختر کے مطابق کم تعلیم یافتہ اور بغیر تعلیم کے افراد میں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات یہی لوگ وزٹ ویزا پر جاتے ہیں لیکن وہاں پر اسائلم کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو اپنے ملک میں خطرہ ہے جبکہ وہ اسائلم کا ویزا اپلائی کرنے کے دوران نہیں بتاتے

انہوں نے بتایا ”اسی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ایسے افراد کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے کیونکہ برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کو غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ سنگین ہے اور اب اس کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہے“

اسکلڈ ورکر ویزا

اب اگر کوئی شخص تعلیم یافتہ بھی ہے اور انہوں نے پاکستان میں ملازمت بھی کی ہے، اور ان کا تجربہ بھی ہے تو ایسے افراد کو اسکلڈ ورکر ویزا پر جانا چاہیے

اس حوالے سے اختر نے بتایا کہ ایسے افراد کی آج کل کینیڈا میں بہت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جو اوپن امیگریشن ہے اور تجربہ کار افراد اس قسم کے ویزا کے لیے اپلائی کر کے کینیڈا جا سکتے ہیں

اسی طرح اختر کے مطابق ایسا بھی ممکن ہے کہ مثال کے طور پر کسی کا منیجیمنٹ میں تجربہ ہے اور کسی شخص نے لندن کی کسی کمپنی میں اپلائی کیا اور ان کو ملازمت کی آفر آگئی تو وہ لندن کی کپمنی کی طرف سے سپانسرشپ حاصل کر کے بیرون ملک جا سکتے ہیں

اختر نے بتایا ”اسکلڈ ورکر کا سکوپ لندن میں اتنا زیادہ نہیں ہے بلکہ کینیڈا اور کچھ دیگر ممالک میں موجود ہیں، جہاں پر تجربہ کار افراد اپلائی کر کے جا سکتے ہیں“

اس کے علاوہ اختر کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی ملک اگر باقاعدہ ویزا لے کر نہیں جا رہا، تو یہ ایک غیر قانونی عمل ہے اور غیر قانونی طریقے سے کسی بھی ملک میں جانا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے

انہوں نے بتایا ”ہمیشہ کوشش کرنا چاہیے کہ رجسٹرڈ اور تجربہ کار کنسلنٹس سے مشورہ لے کر بیرون ملک کسی بھی ویزا کے لیے اپلائی کرنا چاہیے اور ایجنٹوں کی جھانسے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ غیر قانونی طور پر کسی ملک کا بارڈر کراس کرنے میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close