چاند پر انسانی آبادکاری کی خواہش اور برطانوی کمپنی کا چاند پر نیوکلیائی ری ایکٹر بنانے کا منصوبہ

ویب ڈیسک

حال ہی میں چاند پر انسانی آبادکاری کے لیے ایک خطیر رقم سے تشکیل دیا گیا منصوبہ سامنے آیا ہے، جس کے تحت برطانوی کمپنی نیوکلیائی ری ایکٹر بنانے کی تیاری شروع کرری ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق زمین سے باہر چاند پر انسانی آبادکاری کے اس منفرد منصوبے کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے رولز رائس کمپنی کو برطانوی خلائی ایجنسی نے 2.9 ملین ڈالر پاؤنڈز فراہم کر دیے ہیں

چاند پرانسانوں کی آبادکاری کو ممکن بنانا سائنسدانوں کا دیرینہ خواب رہا ہے۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے حکومتوں اور مختلف عالمی اداروں کی معاونت سے سائنسدان شب و روز تحقیق میں مصروف ہیں۔ برطانوی حکومت کی جانب سے تقریباً تین ملین پائونڈز کے فنڈز کی فراہمی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے

برطانوی خلائی ایجنسی نے گذشتہ برس ڈھائی لاکھ پائونڈز کی لاگت سے کی گئی ایک تحقیق کے بعد نیوکلیائی ری ایکٹر کی تیاری کے لیے فنڈز جاری کیے ہیں، جس کا مقصد چاند پر انسانی قیام کے لیے بَیس کی تعمیر کو ممکن بنانا ہے

رولز رائس کے انجنیئر اور سائنسدان اس مائیکرو ری ایکٹر پروگرام پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد یہ جانچ کرنا ہے کہ مستقبل میں چاند پر ایک مستقل بیس بنانے کے لیے نیوکلیائی توانائی کا استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے

کمپنی کے ماہرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ مائیکرو ری ایکٹر چاند پر انسانوں کے طویل قیام، مواصلاتی رابطوں اور وہاں تجربات کرنے کے لیے درکار توانائی فراہم کرے گا

مسلسل تحقیق مائیکرو ری ایکٹر کے تین اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرے گی: حرارت پیدا کرنا، اس حرارت کو منتقل کرنا اور اس حرارت کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنا

رولز رائس نے مائیکرو ری ایکٹر کی تیاری کے لیے 2029ع کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس منصوبے میں کمپنی نے اوکسفرڈ کے علاوہ، بینگوئر، شیفلڈ اور یونیورسٹی آف برائٹن کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی ہیں

برطانوی وزیرِ سائنس جارج فری مین اس منصوبے کو سائنسی محاذ پر برطانیہ کے ایک بڑی طاقت ہونے کی ایک اور دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں

برطانوی خلائی ایجنسی کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر پائول بیٹ کہتے ہیں ”رولز رائس کی یہ پیشرفت چاند پر مستقل انسانی موجودگی کو یقینی بنانے کی بنیاد رکھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے خلائی شعبے کو بھی وسعت ملے گی اور یہاں ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔“

یاد رہے کہ اس سے قبل 2021 کے اواخر میں امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا اور وفاقی جوہری تحقیقی لیبارٹریز نے بھی چاند پر جوہری پلانٹ کی تنصیب کے لیے تجاویز اور پیشکشیں طلب کی تھیں

خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا بھی امریکی محکمہ برائے توانائی کے آئیڈاہو میں قائم نیشنل لیبارٹریزیز کے اشتراک سے چاند پر جوہری بجلی گھر کی تنصیب کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد رواں دہائی کے اختتام تک چاند پر اترنے والے مشنز کے لیے چاند پر قیام کی راہ ہموار کرنا ہے

کہا جا رہا ہے کہ اگر چاند کی سطح پر جوہری ری ایکٹر کی تنصیب کا منصوبہ کامیاب رہا تو ایسا ہی منصوبہ مریخ کے لیے ترتیب دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان چاند کی سطح پر اترنے کے بعد وہاں طویل عرصے تک قیام کر سکے۔ ناسا کا خیال ہے کہ ماحولیاتی حالات سے قطع نظر چاند یا مریخ پر بجلی گھر ہونا چاہییں، تاکہ انسان ان اجرام فلکی پر طویل مدتی قیام کر سکے

ناسا کے منصوبے کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ یہ جوہری بجلی گھر زمین پر تیار کرنے کے بعد تیار حالت میں چاند کی جانب روانہ کیا جائے گا۔ یہ جوہری ری ایکٹر یورینیم ایندھن پر منحصر ہوگا، جب کہ تھرمل مینیجمنٹ نظام اس ری ایکٹر کو ٹھنڈا رکھنے میں معاونت دے گا۔ اس جوہری پلانٹ کے ذریعے چاند کی سطح پر چالیس کلوواٹ بجلی اگلے دس سال تک بنائی جائے گی

◼️سیاروں کی جانب اڑان بھرنے کی خواہش کیوں؟

انسان دہائیوں سے مداروں میں گھومنے والے سیاروں اور کائنات کے درجنوں چاند کی جانب خلائی جہاز روانہ کر رہا ہے۔ کئی ایسے ریسرچ خلائی جہاز نظام شمسی کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہیں

خلائی سفر کے جہاز کچھ نئے نہیں ہیں۔ وینس یا زہرہ سیارے کی جانب اول اول دو فلائی بائز روانہ کی گئی تھیں۔ بیپی کولمبو کو مریخ اور سولر آربیٹر کو سورج کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے پانچ لاکھ پچھتر ہزار کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہیں

بیپی کولمبو نے مرکری کی بہت خوبصورت تصاویر روانہ کی ہیں۔ زمین کی مداری قوت سے نکلنے کے بعد کسی بھی ایسے خلائی جہاز کو کسی اور سیارے کی مداری قوت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ یہ خلائی جہاز زہرہ کے پاس سے گزرا تو اس کی رفتار قدرے تیز ہو گئی کیونکہ زہرہ کی کشش ثقل نے اس کو نئی قوت دی۔ یہ زہرہ کے مدار سے نکل کر مرکری کی جانب بڑھے گا

خلائی سفر کی ابتدا سرد جنگ کے دور میں ہوئی تھی۔ پہلا خلائی جہاز سویوز سن 1961 میں زہرہ کی جانب روانہ کیا گیا لیکن یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے اپنا مشن روانہ کیا۔ دوسری جانب سن 1978 میں سابقہ سوویت یونین کو زہرہ کے مشن میں کامیابی مل گئی تھی۔ امریکا نے مرکری، مریخ اور مشتری کی جانب خلائی ریسرچ کے جہاز روانہ کیے۔ البتہ سوویت سب سے پہلے چاند تک پہنچے تھے

وائجر نامی خلائی جہاز سن 1977 میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس سیریز کے دو خلائی جہاز نظام شمسی کی معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ وائجر اول اور دوئم خلائی جہازوں پر گولڈن ریکارڈ بھی رکھے گئے ہیں۔ گولڈن ریکارڈ سے مراد وہ ریکارڈ جس پر زمین بارے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے سیاروں کی جانب بھی فلائی بائیز روانہ ہیں، جو نظام شمسی سے باہر نکل چکی ہیں

لوگ اکثر زمین کے مدار میں گھومنے والے اکلوتے چاند کی بات بڑی محبت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری کے مدار میں اناسی چاند گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک وائجر دوئم خلائی جہاز نے نیپچون سیارے کے پانچ چاند تلاش کیے ہیں۔ مشتری کے چاند کا نام یورپ رکھا گیا ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا یورپ چاند کی جانب ایک ریسرچ خلائی جہاز روانہ کرنے کی پلاننگ کیے ہوئے ہے

مشتری کے اناسی چاند ہیں تو سیٹرن کے بیاسی۔ کاسینی خلائی جہاز کو امریکا اور یورپ کی خلائی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روانہ کیا تھا۔ اسی نے سیٹرن کے بیاسی چاند کی معلومات دی تھیں۔ اس خلائی جہاز سے سیٹرن کے مدار میں گھومتی کئی اشیا کی نشاندہی ہوئی۔ کاسینی نے سیٹرن کے مختلف چاند کو دریافت کیا تھا۔ تیرہ برس تک نظام شمسی میں محو پرواز رہنے کے بعد اسے سیٹرن سے ٹکرایا گیا تھا

وائجر اول اور دوئم نظام شمسی کے انتہائی دور تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک نئے افق کے پاس ہیں۔ مشتری کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی کشش ثقل نے ان کو نئی قوتیں بخشیں۔ مشتری کے بعد ان کا سفر بونے سیارے پلوٹو کی جانب رہا اور پھر یہ کوئپر بیلٹ کی جانب بڑھ گئے۔ پائنیر دس اور گیارہ خلائی جہاز بھی اتنی دوری تک پہنچے تھے۔ ان خلائی جہازوں کے سفر سے خلائی زندگی اور وہاں کی سرزمینوں بارے معلومات حاصل ہوئیں تھیں

خلا کے لیے کئی دوسرے مشن بھی ہیں۔ ان میں ایک روزیٹا ہے، جو زمین اور مریخ کا چکر کاٹتا ہوا دم دار ستارے شوری کی جانب بڑھ چکا ہے۔ گیاٹو نے دم دار ستارے ہیلی کا سفر کیا تھا۔ ایسے ہی ڈیپ اسپیس وَن، ڈیپ امپیکٹ، اسٹارڈسٹ وغیرہ ہیں۔ مستقبل میں ہیرا کو روانہ کیا جانا ہے اور اس کی منزل اسٹیرائیڈ سسٹم ڈیڈیموس ہے۔ ان سب کو خلا کی تلاش کا جنون قرار دیا جا سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close