کینیا کی پولیس کو ملک کے مشرق میں ایک ایسے مذہبی فرقے کے ماننے والوں کی مزید چھبیس لاشیں ملی ہیں، جنہیں مبینہ طور پر ان کے پادری نےکہا تھا کہ اگر فاقہ کشی کرتے ہوئے ان کی موت واقع ہو گئی، تو وہ یسوع مسیح سے جا ملیں گے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کینیا کے ساحلی قصبے مالندی سے ملنے والی ان لاشوں کے بعد اس فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سینتالیس ہو گئی ہے
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق جیسے جیسے قبریں کھودی جا رہی ہیں مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے
کینیا کے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ ایک مقامی ہسپتال میں ان کی جانب سے قائم کیے گئے ٹریسنگ اینڈ کاؤنسلنگ ڈیسک پر 112 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی ہے
کینیا میں پولیس کو ساحلی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک مذہبی رہنما نے مبینہ طور پر اپنے پیروکاروں کو تبلیغ کے دوران فاقہ کشی سے مرنے کی ہدایات کی تھیں۔ بھوک سے ہلاک ہو کر مرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں
ان افراد کی قبریں شکاہولا نامی جنگل سے ملی ہیں جہاں سے گزشتہ ہفتے گڈ نیوز انٹرنیشنل چرچ کے 15 ارکان کو ریسکیو کیا گیا تھا
اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق سفید اووآلز پہنے اور ماسک لگائے سرچ ٹیمیں مالندی کے ساحلی قصبے کے قریب دیگر لاشوں کی تلاش میں کھدائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی لاشیں پہلے ہی پلاسٹک کی چادر میں لپٹی ہوئی وہاں پڑی تھیں
قبروں کی کھدائی اور لاشوں کی بازیابی کو مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا نمایاں کوریج دے رہا ہے
مالندی میں کرمنل تحقیقات کے سربراہ چارلس کاماؤ نے بتایا کہ اتوار کو انہوں نے مزید چھبیس لاشیں نکالیں، جس کے بعد اس جگہ سے ملنے والی لاشوں کی کل تعداد سینتالیس ہو گئی
انہوں نے کہا کہ صرف لاشوں کی ہی نہیں بلکہ فرقے کے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے پہلی لاشیں ملنے کے بعد پولیس نے اپنی کارروائی شروع کی تھی
کینیا میں تحریک ’گڈ نیوز انٹرنیشنل‘ چرچ کے بارے میں مکمل تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔ پولیس پہلے ہی چرچ کے رہنما میکنزی اینتھنگ کو گرفتار کر چکی ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر پیروکاروں سے کہا تھا ”وہ ’یسوع سے ملنے‘ کے لیے خود کو بھوکا رکھیں“
مقامی میڈیا کے مطابق میکنزی نے اس وقت خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا، جب گزشتہ ماہ دو بچوں کے اپنے والدین کے بھوک سے مر جانے کے بعد میکنزی پر الزام عائد کیا تھا
مقامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے اینتھنگ کے مزید چھ پیروکاروں کو گرفتار کیا ہے
چرچ کے رہنما پال میکنزی نتھینگ کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور عنقریب ان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا
کینیا کے سرکاری نشریاتی ادارے کے بی سی نے انہیں ایک ’گروہی لیڈر‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 58 قبروں کی شناخت ہو چکی ہے
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک قبر میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں پائی گئی ہیں، جن میں تین بچے اور ان کے والدین شامل ہیں
دوسری جانب نتھینگ نے ان الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے 2019 میں اپنا چرچ بند کر دیا تھا تاہم ان کی تاحال ضمانت نہیں ہو سکی
مکینزی کے پیروکار موت تک فاقہ کشی کرتے ہیں
انسانی حقوق کی مقامی تنظیم ’حکی افریقہ‘ کے ایک رکن حسین خالد کے مطابق چرچ کی ایک پیرو کارنے واضح طور پر جسمانی تکلیف میں ہونے کے باوجود کھانے سے انکار کر دیا تھا۔جس وقت انہیں یہاں لایا گیا، انہوں ے ابتدائی طبی امداد لینے سے بھی قطعی طور پر انکار کر دیا تھا اور اپنا منہ سختی سے بند کر لیا تھا
خالد نے بتایا ”خاتون اپنی موت تک اپنا ’روزہ‘ جاری رکھنا چاہتی تھیں“
خالد ہی وہی شخص تھے، جنہوں نے پولیس کو چرچ کی کارروائیوں کی اطلاع دی تھی
خالد کا خیال ہے کہ چرچ کے کچھ ارکان اب بھی قریبی جنگل میں عہدہ داروں سے چھپے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ”یہ اس مسئلے کی شدت کی نشاندہی کرتا ہے، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ بہت سے افراد ایسے ہیں جو اب بھی وہاں ہیں اور ممکنہ طور پر ہر سیکنڈ موت کے قریب جا رہے ہیں“
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تلاش میں مدد کے لیے فوج بھیجے تاکہ فرقے کے پیروکاروں کو بھوک سے مرنے سے پہلے تلاش کیا جا سکے
کینیا کے وزیر داخلہ کنڈیکی نے ٹوئٹ کی ہے کہ ”کافی سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور پورے 800 ایکڑ جنگل کو سیل کر دیا گیا ہے اور اسے ‘کرائم سین’ قرار دے دیا گیا ہے“
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے اسے ’شکاہولا جنگل کے قتلِ عام‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ’عبادت کی آزادی کے آئینی انسانی حق کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا
انہوں نے کہا ”اگرچہ ریاست مذہبی آزادی کا احترام کرتی ہے، ذمہ داروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا چاہیے۔ آئندہ ہر چرچ، مسجد، مندر یا سنیگاگ کے لیے سخت ضابطے ہونے چاہئیں۔“
کینیا کے روزنامہ دی سٹینڈرڈ کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کے ڈی این اے سیمپل لیے جائیں گے، جس میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آیا متاثرین کی موت بھوک سے ہوئی۔
چار افراد کی لاشیں ملنے کے بعد نیتھنگ کو 15 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔
مالندی کے سوشل جسٹس سینٹر کے وکٹر کواڈو نے سٹیزن ٹی وی کو اپنے بیان میں بتایا ”اس جنگل میں جب ہم ایک ایسے علاقے میں داخل ہوئے جہاں ہمیں ایک بڑا اور لمبا کراس نظر آتا ہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہاں پانچ سے زیادہ لوگ دفن ہیں“
واضح رہے کہ کینیا ایک مذہب پسند ملک ہے اور یہاں پہلے بھی لوگوں کو خطرناک، غیر منظم گرجا گھروں یا فرقوں کی طرف راغب کیے جانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔