اگر سیاست چیٹ جی پی ٹی بوٹ کے ہتھے چڑھ گئی تو کیا ہوگا؟

ویب ڈیسک

چند روز قبل مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی (اے آئی) کے ’گاڈ فادر‘ سمجھے جانے والے ماہر نے اس کے بڑھتے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اپنی ملازمت چھوڑ دی ہے

پچھتر سالہ ماہر ٹیکنالوجی جیفری ہنٹن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ گوگل سے مستعفی ہو گئے ہیں اور انہیں مصنوعی ذہانت کے میدان میں کیے گئے اپنے کام پر پچھتاوا ہے

انہوں نے کہا ”اے آئی چیٹ بوٹس کے کچھ خطرات ’کافی خوفناک‘ ہیں۔۔ جتنا میں سمجھتا ہوں، اس کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال، چیٹ بوٹس ہم سے زیادہ ذہین نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی ہم سے زیادہ ذہین ہو سکتے ہیں“

یہی وہ صورتحال ہے، جس کے بعد چیٹ بوٹس کی ایجاد کے بطن سے خوشی کے بعد اب خدشات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے

مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے ’کمپیوٹر بوٹ‘ کی ایجاد نے پہلے تو سب کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا، لیکن اس ایپ کی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے اب یہ خوف جنم لے رہا ہے کہ وہ انسان کی ذہانت کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے

ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر چیٹ جی پی ٹی نے سیاست پر غلبہ پا لیا تو پھر سیاست کیا رخ اختیار کرلے گی؟

اے آئی بوٹ چیٹ جی پی ٹی اب شاعری کر رہا ہے، ڈراموں کے اسکرپٹ لکھ رہا ہے۔ میڈیا کے نیوز روم میں خبریں ترتیب دے رہا ہے۔ موسیقی کی دھنیں بنا رہا ہے۔ وکیلوں کی مدد کے لیے مقدمات کے دلائل بنا کر دے رہا ہے۔ اور اب اس نے سیاست میں بھی ہاتھ مارنا شروع کر دیا ہے، جس کے بعد ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سیاست پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں

چیٹ جی پی ٹی بوٹ کو منظر عام پر آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اسے گزشتہ نومبر میں ایک امریکی کمپنی اوپن اے آئی کے ذریعے لانچ کیا گیا تھا

چیٹ جی پی ٹی بوٹ کیا ہے؟

بوٹ اصل میں روبوٹ کا مخفف ہے۔ یہ ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام ہے، جو روبوٹ کی طرح خودکار طریقے سے کام کرتا ہے اور اپنے کام کے لیے انسانی دماغ کی طرح ’اپنی ذہانت‘ سے کام لیتا ہے، جسے ہم ’مصنوعی ذہانت‘ کہتے ہیں

اس بوٹ کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جب اس سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو انٹرنیٹ پر دستیاب لامحدود ڈیٹا میں سے سوال سے متعلق معلومات اکھٹی کرتا ہے اور ’اپنی ذہانت‘ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب تیار کر کے مہیا کر دیتا ہے

واضح رہے کہ انسانی دماغ بھی کوئی جواب دینے کے لیے اس ڈیٹا کو استعمال کرتا ہے، جو اس کی یاداشت میں محفوظ ہوتا ہے۔ اس یاداشت کا تعلق انسان کے مشاہدے اور اس علم سے ہوتا ہے، جو اس نے حاصل کیا ہے۔ جس کے بعد انسانی دماغ اپنی ذہانت سے اس ڈیٹا کی بنیاد پر جواب تیار کرتا ہے

جی پی ٹی بوٹ کی رسائی انٹرنیٹ پر پھیلے ہوئے لامحدود ڈیٹا تک ہے، اس لیے اس کے پاس زیادہ بڑا ذخیرہ ہے۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے جی پی ٹی بوٹ اپنے ہر تجربے سے سیکھتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی سطح رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی ہے اور اگر یہ عمل جاری رہا تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ وہ انسان سے آگے نکل جائے گا

اگرچہ سیاست کے شعبے میں جی پی ٹی بوٹ کااستعمال فی الحال بہت محدود ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال میں اضافہ سیاست کا رخ تبدیل کر سکتا ہے

ایسی ہی دلچسپ صورتحال حال ہی میں جاپانی پارلیمنٹ میں نظر آئی

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا کا سامنا مصنوعی ذہانت کے بوٹ سے اس وقت ہوا، جب انہوں نے صحت کی اصلاحات سے متعلق حزب اختلاف کے ایک رکن پارلیمنٹ کے سوالات کے جواب دیے۔ ان کے ایک حریف نے یہی سوال چیٹ جی پی ٹی کے سامنے رکھے، ان کا دعویٰ ہے کہ بوٹ کے جوابات وزیراعظم کی نسبت زیادہ مخلصانہ تھے

تاہم کشیدا نے اپنے موقف کادفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے جوابات کی نوعیت زیادہ خصوصی تھی

فرانسیسی ٹریڈ یونین کی سربراہ سوفی بینٹ نے صدر ایمانوئل میکرون کی حالیہ تقریر کا سخت تنقیدی جائزہ لیا ہے، جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ایسے گہرے تنقیدی نکات چیٹ جی پی ٹی ہی تیار کر سکتا ہے

واضح رہے کہ جی پی ٹی بوٹ کو تقریریں لکھنے اور قوانین کا مسودہ تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے

پچھلے مہینے، امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن نینسی میس نے سینیٹ کمیٹی میں مصنوعی ذہانت کے ممکنہ استعمال اور نقصانات پر پانچ منٹ کی تقریر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے تقریر سے پہلے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ تقریر چیٹ جی پی ٹی بوٹ سے لکھوائی ہے

امریکہ کے ایک اور سیاستدان بیری فائن گولڈ، ننسی سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے جنوری میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی ٹیم نے میساچوسیٹس سینیٹ کے لیے ایک قانونی مسودہ کی تیاری کے لیے چیٹ جی پی ٹی سے مدد لی تھی

بتایا گیا ہے کہ اس مسودے میں مصنوعی ذہانت کے اس بوٹ نے منفرد نظریات متعارف کرائے تھے، جن میں چیٹ بوٹس اور مصنوعی ذہانت کو قابو میں رکھنا بھی شامل تھا

سیاست کے حوالے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بوٹ کی نہ صرف ذاتی پسند اور ناپسند ہوتی ہے بلکہ وہ اس کا اظہار بھی کر دیتا ہے۔ حال ہی میں اس وقت ایک تنازع کھڑا ہوا، جب چیٹ جی پی ٹی سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف میں ایک نظم لکھنے کے لیے کہا گیا۔ لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ نظم لکھنے سے انکار کیا بلکہ ان کی جگہ سنبھالنے والے صدر جو بائیڈن کی مدح میں کئی اشعار بھی لکھ ڈالے

دوسری جانب خلائی مہمات کی امریکی کمپنی اسپیس ایکس، ٹوئٹر اور الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے بھی چیٹ جی پی ٹی کا متبادل ’ٹرتھ جی پی ٹی’ لانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ایلون ​​​​​​​مسک کا دعویٰ ہے کہ ان کا ’ٹرتھ جی پی ٹی‘ زیادہ سے زیادہ سچائی تلاش کرنے والی اے آئی ٹول ہوگا

ایلون مسک نے یہ انتباہ کرتے ہوئے کہ مصنوعی ذہانت ہماری معاشرت کو تباہ کر سکتی ہے ، ٹروتھ جی پی ٹی(TruthGPT) کے نام سے ایک نئی اپیلی کیشن بنانے کا وعدہ کیا ہے جو تعصبات کے خاتمے کے لیے کام کرے گی

مزید برآں نیوزی لینڈ کے ایک ماہر ڈیوڈ روزیڈو حال ہی میں رائٹ ونگ جی پی ٹی نامی ایپ کا تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ ایپ خاندانی اقدار اور اعتدال پسند سوچ کو آگے بڑھاتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close