پاکستان: کیا سورج کے گرد ہالہ طوفانی موسم کی پیش گوئی کرتا ہے؟

ویب ڈیسک

گزشتہ ماہ یعنی اپریل کے اواخر میں سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مختلف علاقوں میں سورج کے گرد ایک واضح ہالہ دیکھا گیا، جس کے بعد اس کے بارے میں مختلف غلط معلومات اور افواہیں گردش میں ہیں

سورج کے گرد ہالہ کیسے بنتا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو چاند یا سورج کے گرد خوبصورت مظاہر تشکیل دیتے ہیں؟

اس حوالے سے پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کراچی میں ڈائریکٹر فورکاسٹنگ اینڈ کلائی میٹولوجی اور اس فیلڈ میں چوبیس سال سے زائد کا تجربہ رکھنے والے زبیراحمد صدیقی کہتے ہیں ”سورج کے گرد بننے والے ہالے کو سائنسی اصطلاح میں ’سولر ہالو‘ کہا جاتا ہے۔ زمین پر دریاؤں اور سمندروں وغیرہ سے پانی کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں اور ایک خاص بلندی پر مناسب درجۂ حرارت کے زیرِ اثر یہ بخارات ٹھنڈے ہو کر پانی کے قطروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں“

انہوں نے مزید بتایا ”اگر بلندی پر حالات بادلوں کے لیے سازگار نہیں ہوں اور درجۂ حرارت مسلسل گرتا رہے تو یہ قطرے مزید ٹھنڈے ہو کر آئس کرسٹل یا برف کی قلموں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں“

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ زمین سے آٹھ سے سولہ کلومیٹر کی بلندی پر ماحول کی پہلی تہہ کو ’ٹروپوسفیئر‘ کہا جاتا ہے، جہاں سے درجۂ حرارت مسلسل گرنا شروع ہوجاتا ہے

زبیر صدیقی بتاتے ہیں ”اس دوران ایئر بورن پارٹیکل (ہوا میں پیدا ہونے والے ذرات) اہم کردار ادا کرتے ہوئے برف کے گالے یا اولے تشکیل دیتے ہیں، جن کا انحصار اس وقت ما حول کی صورتحال، ہوا کے کم دباؤ اور درجۂ حرارت پر ہوتا ہے“

زبیر صدیقی کے مطابق بہت زیادہ بلندی پر موجود بادلوں میں بننے والی برف کی قلموں کی شکل ہیگزاگونل (چھ کونوں والے) اور اوپرکی سطح بالکل ہموار ہوتی ہے۔ ان بادلوں کو سائنسی اصطلاح میں سیرس یا سیرس سٹریٹس کلاؤڈ کہا جاتا ہے۔ ان قلموں پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو یہ ایک Prism یا منشور کی طرح عمل کرتے ہوئے روشنی کو منعطف کر کے سورج کے اطراف دائرے میں بکھیر دیتی ہیں، جس سے سورج کے گرد ہالہ بنتا ہے

زبیر صدیقی کا کہنا ہے ”اگرچہ بہت بلندی پر برف کی یہ قلمیں بے ترتیب بنتی ہیں مگر یہ سورج کی روشنی کو ہر جانب یکساں بکھیرتی ہیں، جس سے خوبصورت ہالہ تشکیل پاتا ہے۔ سورج کے گرد تین اقسام کےہالے بنتے ہیں، جس میں دائروی ہالہ، لائٹ پلرز (روشنی کے ستون) اور پیری ہیلیئن شامل ہیں۔ ان کی اقسام کا انحصار برف کی قلموں کی آپٹیکل (بصری) خصوصیات پرہوتا ہے۔“

وہ مزید بتاتے ہیں ”زیادہ تر گرم علاقوں میں دائروی ہالہ بنتا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس طرح کے ہالے میں رِنگ کے اندر سے روشنی منعطف نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے رِنگ کے اندر آسمان اطراف سے زیادہ گہرے رنگ کا نظر آتا ہے“

کئی دیگر معاشروں کی طرح پاکستانی معاشرے میں بھی چاند اور سورج کے گرد ہالے بننے سے متعلق طرح طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ سورج کے گرد ہالہ آنے والے طوفانی موسم کی پیشن گوئی کرتا ہے

اس حوالے سے زبیر احمد صدیقی کہتے ہیں ”زیادہ گرم اور قطبین کے قریب واقع علاقوں میں جب ایک ’کولڈ فرنٹ‘ یا ٹھنڈا سسٹم کسی گرم علاقے کی طرف بڑھتا ہے تو اس صورت میں بننے والے سولر ہالو سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگلے بارہ سے چھتیس گھنٹے میں طوفانی بارشوں کا ایک سسٹم اس علاقے کی طرف آئے گا“

وہ مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر بارشیں مون سون، ویسٹرن ڈسٹربینس (بحر الکاہل سے اٹھنے والے طوفان)، سائیکلون یا مقامی گرم و مرطوب ہوا کے باعث ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی نظام کا شمار کولڈ فرنٹ میں نہیں ہوتا، لہٰذا پاکستان میں سورج کے گرد بننے والے ہالے سے کسی بھی طور آنے والے طوفان یا خراب موسم کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی“

زبیر صدیقی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ”25 اپریل 2023 جب سولر ہالو نظر آیا، اس سے پہلے ہی کراچی میں ویسٹرن ڈسٹربینس کے زیرِ اثر آئندہ دو روز میں بارشوں کی پیشن گوئی کی جا چکی تھی۔ لہٰذا بعد میں ہونے والی بارشوں کا سولر ہالو سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور یہ معمول کی بارشیں تھیں

زبیر صدیقی کہتے ہیں ”میٹرولوجی کا ہماری روز مرہ زندگی سے گہرا تعلق ہے، ہم آفس جا رہے ہوں یا سفر پر نکلنے کا ارادہ ہو، پہلے موسم کی صورتحال جانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عام افراد کو اس سے متعلق بنیادی معلومات ضرور ہونی چاہییے۔ میڈیا بھی اس حوالے سے ذمہ داری کا ثبوت دے اور عوام تک درست معلومات فراہم کرے۔ تاکہ جعلی ماہرین کی پھیلائی افواہیں از خود دم توڑ سکیں جو محض اپنے یو ٹیوب چینلز کی ریچ بڑھانے کے لئے اس طرح کی توہمات بریک کرتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close