قرضوں کی حد مقرر کرنے پر تنازع امریکہ کو معاشی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے؟

ویب ڈیسک

امریکہ کے لیے رواں ہفتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر کانگریس نے یکم جون سے قبل قرض کی حد نہیں بڑھائی تو پھر ایسے میں امریکہ ڈیفالٹ کر سکتا ہے

واضح رہے کہ اپنے پیدا کردہ معاشی بحران پر قابو پانے سے متعلق غور کرنے کے لیے منگل کے روز امریکی صدر جو بائیڈن، ایوان اور دونوں جماعتوں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے رہنماؤں نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی

اگلے مہینے (جون) کے اوائل میں امریکی حکومت ملکی قرضوں کی آخری قانونی حد تک جا سکتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فیڈرل ٹریژری یعنی وزارت خزانہ اضافی فنڈز نہیں حاصل کرسکی گی

اس ناکامی کے بعد یہ معاشی بحران اس قدر سنگین ہو جائے گا کہ پھر امریکہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوں گے کہ وہ موجودہ قرض کی ادائیگی کر سکے، سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائرمنٹ کے پیسے ادا کر سکے یا کسی بھی قسم کے سرکاری بل کی ادائیگی ممکن ہو سکے

کانگریس کسی بھی وقت قرض کی حد بڑھانے کے لیے ووٹ دے سکتی ہے لیکن مقننہ میں ریپبلکن کے اراکین صرف صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس سے کچھ پالیسی مراعات حاصل کرنے کے بعد ہی ایسا کرنے کے لیے راضی ہونگے

واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن اور ان کے اتحادیوں نے اب تک ان مذاکرات کا حصہ بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ معاشی تباہی کے خطرے کے سائے میں ایسا نہیں کر سکتے ہیں

اس تناظر میں یہ ملاقات ہی جو بائیڈن کے لیے پہلے سے ہی کسی حد تک رعایت سے کم نہیں، کیونکہ انہوں نے اب تک ریپبلکن تجاویز پر بحث کے امکان کو مسترد کر رکھا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے اصرار کیا تھا کہ اخراجات اور پالیسی مذاکرات کو قرض کی حد سے علیحدہ رکھا جائے

اب یہ ایک ایسا تنازع بن چکا ہے، جو امریکہ کو اقتصادی تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے

قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے

اور جب قرض کی حد کا مسئلہ انا کی جنگ بن گیا۔۔

قرض کی حد پہلی بار سنہ 1917ع میں متعارف کرائی گئی تھی، جس کا مقصد پہلی جنگِ عظیم کے دوران حکومت کو رقم اکٹھا کرنے کے لیے گنجائش فراہم کرنا تھا

اصولی یا نظریاتی طور پر یہ کانگریس کے لیے اخراجات کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ فراہم کرتا ہے، لیکن قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کے متعلق رسہ کشی وقت کے ساتھ نقصاندہ ہوتی گئی کیونکہ اس کی وجہ سے سیاسی تقسیم اور امریکی قرض (جو ایک دہائی میں تقریباً دوگنا ہو گیا ہے) دونوں میں اضافہ ہوا

یہ جزوی طور پر (سنہ 2008ع کے) مالیاتی بحران اور کووڈ کی وبا کے دوران حکومت کی طرف سے کیے گئے نمایاں اخراجات کی وجہ سے ہے، لیکن یہ اس کا نتیجہ بھی ہے کہ ملک سنہ 2001ع سے مسلسل بجٹ خسارے میں چل رہا ہے اور یہ اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کر رہا ہے

اس طرح اب قرض کی حد امریکی سیاست میں مستقل طور پر سیاسی سودے بازی کا حصہ بن چکی ہے

یاد رہے کہ اس مسئلے پر سنہ 2011 میں پیدا ہونے والا تنازع اُس وقت حل ہوا، جب اُس وقت کے صدر براک اوباما نے نو سو ارب ڈالر سے زیادہ کے اخراجات میں کمی کرنے پر اتفاق کیا، جس کی وجہ سے قرض کی حد میں اتنی ہی رقم کی کمی واقع ہوئی

بعض ریپبلکن اس بار پھر اخراجات میں کٹوتیوں پر زور دے رہے ہیں، لیکن ڈیموکریٹس نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے

جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کیا چاہتے ہیں؟

قرض کی حد ایک ایسا نازک معاملہ ہے کہ جس پر ڈیموکریٹس کسی بھی قسم کی سیاسی چال نہیں چلتے۔ انہوں نے کبھی دیوالیہ ہونے کی دھمکی تک نہیں دی۔ جیسا کہ ماضی میں جب ریپبلکن کم از کم اجرت میں اضافہ کرنے، حکومت کی مالی امداد سے چلنے والی صحت کی دیکھ بھال کو بڑھانے یا دولت مندوں پر ٹیکس بڑھانے سے انکار کر دیا تھا تو ڈیموکریٹس نے کوئی تنازع نہیں کھڑا کیا

اب جواب میں ڈیموکریٹس بھی یہی چاہتے کہ ریپبلکن اس معاملے پر کوئی سیاست نہ کریں

ایک دہائی سے زائد کا وقت گزر چکا ہے جب پہلی بار کانگریس میں ریپبلکنز نے اس وقت کے ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر پر اس معاملے پر دباؤ ڈال کر اس معاملے کو اپنے لیے پالیسی مراعات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا۔ ڈیموکریٹس اس معاملے پر پارٹی سیاست کو ملک کی معاشی تباہی سے تعبیر کرتے ہیں

سنہ 2011 میں اس مسئلے پر جو تعطل ہوا تھا، اس کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’ایس اینڈ پی‘ ملک کی درجہ بندی گھٹانے پر مجبور ہو گئی تھی اور ایسا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا

اب اس دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ڈیموکریٹس سمیت بہت سے اراکین اس پریکٹس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے ہیں

وہ قرض کی حد کو بڑھانے کے لیے ایک صاف ستھرے اقدام کا مطالبہ کر رہے ہیں یعنی ایسا اقدام، جو کسی اور قانون سازی کے اقدامات سے منسلک نہ ہو

ان کا کہنا ہے کہ ان کے مخالفین صرف قومی قرض کی فکر اس وقت کرتے ہیں، جب ڈیموکریٹس برسرِ اقتدار آتے ہیں۔ ان کے مطابق ماضی میں جب ٹرمپ انتظامیہ نے قرض کی حد میں تین بار اضافہ کیا اور یوں ریپبلکن حمایت یافتہ اخراجات اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں سے قومی قرضوں میں سیکڑوں اربوں کا اضافہ ہوا

کس قسم کے خطرات ہیں؟

اگر امریکہ ڈیفالٹ ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر ملک اپنی عالمی ساکھ کھو سکتا ہے، عالمی مالیاتی منڈیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہاں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈز کی خریداری کو روایتی طور پر کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے

اگرچہ اس کے سیاسی نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم ایک حالیہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ اس پر رائے یکساں طور پر منقسم ہے۔ ایک تہائی عوام جو بائیڈن کو ایسے منظر نامے میں موردِ الزام ٹھہرائیں گے، ایک تہائی ریپبلکنز کو اور ایک تہائی کی رائے اس پر واضح نہیں ہے

اگر اس تعطل میں معیشت تباہ ہو جاتی ہے تو، ڈیموکریٹس کو بطور حکمران اس کی زیادہ سیاسی قیمت چکانی ہوگی۔ جب بیروزگاری بڑھے گی اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی کمی آئے گی

اگر ڈیموکریٹس میں تقسیم ہوتی ہے تو پھر صدر بائیڈن پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، جس سے ان کی جماعت کے قرض کی حد سے متعلق سخت گیر مؤقف رکھنے والے ناراض ہو جائیں گے، جس سے وہ سیاسی طور پر آئندہ قیادت کے لیے کمزور ہو سکتے ہیں۔ ان کی جماعت میں پہلے ہی سے ایسے لوگ ہیں جو آئندہ برس کے لیے ان کی پارٹی پر گرفت سے متعلق صلاحیت کے بارے میں پریشان ہیں

ریپبلکنز صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کے حمایت یافتہ وفاقی پروگراموں کی توسیع جیسے اقدامات کی واپسی کے خواہاں ہیں۔ وہ وفاقی اخراجات کو محدود کرنا چاہتے ہیں یا ہر صورت ڈیموکریٹس کی ترجیح کے منصوبوں پر کٹوتی چاہتے ہیں، تاہم ان اہداف کے حصول کے امکانات کم ہیں

قرض کی حد ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز کو ایک طریقہ فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے بڑی رعایتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ڈیموکریٹس کو ان میں سے کچھ قانون سازی کے اقدامات پر بھی راضی کرنا ریپبلکنز کی فتح ہوگی۔ تاہم، پارٹی کے کچھ سخت گیر مؤقف کے حامل اراکین اس پیکج کو کم سے کم رعائت کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ قرض کی حد میں اضافے کے لیے قبول کریں گے

قرض کی حد سے جڑا معاشی بحران ایوان کے سپیکر کیون میکارتھی کے لیے بھی خاص چیلنجز میں سے ایک ہے۔ اس ایوان میں اقتدار پر ان کی گرفت کمزور ہے۔ اگر وہ مذاکرات میں کسی ایک طرف جھکاؤ دکھاتے ہیں تو پھر ایسے میں ان کے لیے جہاں آئندہ انتخاب مشکل ہو جائے گا وہیں انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close