قدرت نے لیا بلونت سنگھ سے انتقام (افسانہ)

محسن عباس محسن

رات کے آخری پہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کے گھر کام کر کے تھکی ماندی پونم اٹھی اور دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی ”ضرور یہ بلونت ہوگا“ اور دروازہ کھول دیا

شراب کے نشے میں دھت بلونت سنگھ دروازہ کھلتے ہی نیچے گر گیا۔ وہ زخمی تھا اور پولیس اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اس کی بائیں پنڈلی پر گولی لگی تھی۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گیا۔ ایشر سنگھ بھی جاگ چکا تھا۔ اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا

اگرچہ بلونت ایک باپ کا فرض ادا نہیں کر رہا تھا مگر ایشر اپنی ماں کی طرح نرم دل تھا اگرچہ اس کی رگوں میں بلونت کا خون دوڑ رہا تھا، مگر پونم کی دی ہوئی تربیت نے ایشر کو ایک نیک دل انسان بنا دیا تھا

پونم نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور دونوں زخمی بلونت کو اٹھا کر کمرے میں لے آئے۔ بلونت کو چارپائی پر لٹا کر پونم کمرے سے اسٹیل کا ایک برتن اٹھا لائی، جس میں وہ تمام سامان موجود تھا، جس سے بلونت کی پنڈلی پر لگی گولی بآسانی نکالی جا سکتی تھی

بلونت سنگھ اپنے گاؤں میں بلونت ڈاکو کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی بیوی پونم بیس سال سے اس کے ساتھ گزارا کر رہی تھی۔ قدرت نے بلونت سنگھ کو ایک بیٹی اور ایک بیٹا عطا کیا تھا مگر بیٹی جب دس برس کی ہوئی تو شکارپور میلے پر جاتے ہوئے ماں سے بچھڑ گئی۔ اب پونم اپنے بیٹے ایشر سنگھ کے ساتھ رہتی تھی اور بلونت مہینے میں ایک بار اپنی شکل دکھانے آ جاتا تھا

بلونت کا اس طرح زخمی ہو کر آنا پہلی بار نہیں تھا۔ پونم اس طرح کے واقعات کی عادی ہو چکی تھی۔ پونم کو جس قدر بلونت سے نفرت تھی، اتنا ہی اس بات کا احساس تھا کہ عورت کی زندگی میں شوہر کی کیا اہمیت ہے۔ وہ گاؤں میں رہنے والی بیوہ عورتوں کا حال دیکھ چکی تھی۔ شاید یہی ایک وجہ تھی، جس نے پونم کو بلونت سے رشتہ قائم رکھنے پر مجبور کیا ہوا تھا

بلونت سنگھ کی اگلی منزل وہ کوٹھا تھی، جہاں وہ کئی سالوں سے جا رہا تھا۔ لنگڑاتا ہوا وہ کلو بائی کے کوٹھے جا پہنچا۔ کلو بائی رنگت میں سانولی تھی مگر قدرت نے اسے ایسے نین نقش دئے تھے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔ کلو بائی اور بلونت کا یارانہ بہت پرانا تھا۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بلونت نے اس کوٹھے پر آنا شروع کر دیا تھا۔ بلونت کا باپ بہت سی زمینوں کا مالک تھا اور بلونت اکلوتا۔۔ یوں ساری جائیداد بلونت کے حصے میں آئی، مگر جلد ہی بلونت نے ساری دولت عیش میں خرچ کر دی۔ اب وہ صرف ایک ڈاکو تھا، لوگوں کو لوٹتا اور لوٹی ہوئی دولت کوٹھے پر خرچ کر دیتا۔۔

کوٹھے میں داخل ہوتے ہی وہ کلو بائی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ جہاں کلو کوٹھے پر آنے والے رنگین مزاج مہمانوں کو رقص و سرور سے لطف پہنچانے والی دو شیزاوں کو رقص کی تربیت دے رہی تھی۔ کلو نے بلونت کو دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف بیٹھنے کا کہا اور خود رقص کے انداز سکھانے لگی۔ کلو بائی ایک ماہر رقاصہ تھی مگر بڑھتی ہوئی عمر اسے پریشان کر رہی تھی، اس لئے اس نے اپنا فن کوٹھے کی طوائفوں کو بانٹنا شروع کر دیا تاکہ وہ مصروف بھی رہے اور کوٹھے کی آمدنی بھی بڑھ سکے

رقص کی تربیت لینے والی طوائفوں میں ایک مجبور خوبرو طوائف شبنم بھی تھی، جس کی خاطر بلونت یہاں آیا تھا۔ بلونت مسلسل شبنم کو دیکھ رہا تھا اور کلو بائی بلونت کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ کلو بائی کو بلونت جیسے لوگوں کی ضرورت تھی اور اس کے لیے بلونت کو اس خاص کمرے میں آنے کی اجازت ملی تھی۔ کلو بائی نے تھوڑی دیر بعد طوائفوں کو اپنے کمرے میں جانے کا حکم دیا

بلونت سنگھ شبنم کو اس کے گھر سے اس وقت اٹھا کر لے آیا تھا، جب وہ اس کے گھر ڈاکہ ڈالنے گیا تھا۔ اس وقت وہ دس برس کی تھی۔ بلونت سنگھ نے شبنم کو کلو بائی کے حوالے کر دیا اور یوں بلونت کو بھاری رقم وصول ہوئی۔ آج اگر شبنم ایک طوائف کی زندگی گزار رہی تھی تو اس کی وجہ بلونت سنگھ تھا۔ اگر وہ کسی کے سامنے رقص کرتی ہے تو اس کا ذمہ دار صرف اور صرف بلونت تھا۔ شبنم نے کئی مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ اسی لیے کلو بائی نے اس کے لیے الگ کمرہ بنا رکھا تھا تاکہ وہ فرار نہ ہو سکے

بلونت شبنم کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ شبنم کی طرف بڑھنے لگا تو شبنم کے ہاتھوں میں خنجر دیکھ کر رک گیا

شبنم شدید غصے میں تھی، وہ بولی: ”رک کیوں گئے۔۔ ہمت ہے تو آگے بڑھو۔ تمہارے جیسے گندے لوگ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ تم نے میری زندگی تباہ کر دی۔ مجھے گناہ پر مجبور کر دیا۔۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی، نہ ہی میرا خدا تمہیں معاف کرے گا“

شبنم کی یہ بات سن کر بلونت نے زور دار قہقہہ لگایا، جیسے اسے اس کام پر فخر تھا۔ وہ شبنم کے ہاتھوں سے خنجر کھینچنے کے لئے آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

بلونت نے دروازہ کھولا تو کلوبائی تھی۔ شبنم نے خنجر چھپا لیا۔

بلونت، جو نشے میں چور تھا، بولا ”کلو بائی کیوں تنگ کر رہی ہو۔۔ ایک طرف شبنم تنگ کر رہی ہے اوپر سے تم آ گئی ہو۔۔ کیا بات ہے؟“

کلو بائی نے کہا ”تمہارے بھلے کی بات ہے!“

”ایک طوائف کسی کا بھلا کیسے کر سکتی ہے“

کلو بائی بلونت کا جواب سن کر ناراض ہو کر جانے لگی تو بلونت نے کلو بائی کا ہاتھ پکڑ کر کہا ”کلو بائی مجھ سے ناراض مت ہوا کر۔۔ بول کیا بات ہے“

کلوبائی نخرے سے بولی ”مجھے تیری طبیعت کا پتا ہے، اس لیے پہلے تیرے پاس آئی ہوں۔۔ شکارپور میں ایک سہیلی ہے، وہ بھی یہی کام کرتی ہے۔۔ اس نے ہمارے کوٹھے کے لیے ایک حسینہ بھیجی ہے۔ وہ بھی تیری شبنم کی طرح نخریلی ہے۔ میرے پاس پہلے بار آئی ہے، میں نے سوچا پہلے تم سے ملوا دوں“

بلونت سنگھ خوش ہو کر بولا ”کلو بائی تیری یہی باتیں تو مجھے یہاں کھینچ کر لاتی ہیں۔ چلو۔۔ آج ویسے بھی شبنم غصے میں ہے۔“

کلو بائی، بلونت سنگھ کو کمرے سے باہر لے آئی۔ بلونت سنگھ نشے میں بدمست ہو کر کلو بائی کے پیچھے پیچھے ایسے چل رہا تھا، جیسے کوئی بُو سونگھنے والا کتا کھوجی کے پیچھے چلتا ہے۔

کلو بائی بلونت کو کمرے تک چھوڑ کر چلی گئی۔ بلونت سنگھ دروازے کو ٹھوکر مار کر اندر داخل ہوا تو سامنے ایک جواں سال لڑکی گھٹنوں پر ہاتھ اور سر رکھے رو رہی تھی۔ بلونت لڑکھڑاتا ہوا اس لڑکی کے پاس پہنچا۔ اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تو اس کی سانس وہیں اٹک گئی اور چہرہ زرد ہو گیا۔۔ جب اس لڑکی کے منہ سے یہ الفاظ سنے، ”باپو تم!!!!!!!!!!“

بلونت کا سر چکرا رہا تھا۔۔ اسے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی، جہاں وہ اپنے آپ کو زندہ دفن کر سکتا۔۔ قدرت اس سے انتقام لے چکی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close