نئی ’کنگز پارٹی‘ کی تشکیل کی کوششیں اور پاکستانی سیاست میں ’کنگز پارٹی‘ کی تاریخ

ویب ڈیسک

پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد ملک میں سیاسی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ ایسے میں پنجاب کے شہر لودھراں سے تعلق رکھنے والے ارب پتی بزنس مین اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین بھی سیاسی اُفق پر دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں

جہانگیر ترین گروپ نے آئندہ چند روز میں نئے نام سے سیاسی جماعت کے قیام کا بھی اعلان کیا ہے، جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والے افراد کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی ہے

ترین گروپ نے پیر کو سابق پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان سے بھی ملاقات کی تھی۔ ترین گروپ کے اہم رُکن عون چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں سے بھی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنما ترین گروپ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں

تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین میں یہ خوبی ہے کہ وہ لوگوں کو لا سکتے ہیں، بٹھا سکتے ہیں، اُنہیں کھلا سکتے ہیں اور اُنہیں سیاسی طور پر چلا سکتے ہیں لیکن وہ بڑے سیاسی لیڈر نہیں ہیں۔ وہ ملک کی سطح پر سیاسی طور پر کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتے

اُن کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ وہ کوئی الگ جماعت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ البتہ وہ پی ٹی آئی کے اندر اِس وقت الیکٹیبلز کے ساتھ سب سے زیادہ رابطے میں ہیں

سلمان غنی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے گروپ میں الیکٹیبلز کی طاقت جہانگیر ترین کے پاس ہے جب کہ عبدالعلیم خان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے

سلمان غنی بتاتے ہیں کہ جب عمران خان وزیرِاعظم تھے تو اُنہوں نے جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو نظرانداز کیا۔ ایک کو جیل بھی جانا پڑا جب کہ جہانگیر ترین نااہل قرار پائے

یاد رہے عمران خان کے وزارتِ عظمٰی کے دور میں جہانگیر خان کے خلاف چینی اسکینڈل میں تحقیقات شروع کی گئی تھیں جب کہ عبدالعلیم خان کو نیب کی جانب سے پراپرٹی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد سے دونوں کے عمران خان کے ساتھ سیاسی اختلافات بڑھ گئے تھے اور ترین گروپ سامنے آیا تھا

تجزیہ کار اور کالم نویس افتحار احمد کہتے ہیں کہ نئے الیکشن سے قبل سیاسی صف بندیاں تو ہوتی ہیں۔ لہٰذا پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو نئے ’سیاسی آشیانے‘ کی تو ضرورت ہوگی

افتحار احمد کا کہنا ہے کہ پنجاب کی سطح پر ترین گروپ متحرک ہے، جن کے ساتھ اسحاق خاکوانی، عبدالعلیم خان اور سرائیکی بیلٹ کے لوگ شامل ہیں۔ جو ایک مضبوط دھڑا بنا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی گزشتہ کئی روز سے پنجاب کی سیاست میں متحرک ہے

تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ جہانگیر ترین کتنے لوگوں کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ اُن کے بقول الیکشن میں پنجاب میں ہی اصل میدان لگے گا اور دیکھنا یہ ہو گا کہ الیکٹیبلز کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں

پاکستانی سیاست میں ایک اور کِنگز پارٹی کی بازگشت، نیا چہرہ کون؟

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان تسلسل کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھیوں کو دباؤ میں لا کر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے منگل کی شام بھی وڈیو لنک پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کو توڑ کر کِنگز پارٹی بنائی جا رہی ہے

عمران خان کے الفاظ کچھ یوں تھے’اب تک مجھے سمجھ آئی ہے کہ یہ ایک کنگز پارٹی تیار کر رہے ہیں۔ پارٹی چھوڑنے والوں میں سے ایسے بھی ہیں جو لابی کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کو توڑ کر کنگز پارٹی بنانے کا ڈرامہ کیا جائے۔‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور ان کے بطن سے ’حقیقی‘، ’نظریاتی‘ اور ’پیٹریاٹ‘ کے لاحقوں کے ساتھ نئی جماعتیں سامنے آتی رہی ہیں

بعض اوقات انہی سیاسی جماعتوں کے ناموں کے ساتھ بریکٹ میں کسی شخصیت کے نام کی نسبت سے حروف تہجی (ش، ف، قاف، ض، س) لکھ دیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ یہ ضروری نہیں کہ وہ کِنگر پارٹی شمار ہوں بلکہ وہ ایک سیاسی دھڑا ہی شمار ہوتی ہیں

کِنگز پارٹی ہوتی کیا ہے؟

پاکستانی سیاست کے تناظر میں جب ’کنگز پارٹی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے تو عموماً اس سے ایسی پارٹی مراد ہوتی ہے، جو کوئی ایک یا کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ملا کر کھڑی جائے۔ عام طور پر فوجی آمروں کے ادوار میں ان کی ایماء پر بننے والی نئی پارٹیوں یا سیاسی اتحادوں کے لیے ’کنگز پارٹی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
کِنگز پارٹی کو وقتی اُبھار تو مل جاتا ہے، لیکن اسے مستقل یا دیرپا سیاسی پوزٹ حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کا سہارا ہٹنے یا آمر کے اقتدار سے نکلنے کے ساتھ ہی یہ پارٹی زمین بوس ہو جاتی ہے یا پھر اس قدر محدود ہو جاتی ہے کہ سیاست کی بساط پر اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہتی

ماضی کی کِنگز پارٹیاں اور سیاسی اتحاد

قیام پاکستان کے پہلے عشرے میں اس وقت کے صدر سکندر مرزا کے دور میں بنائی گئی ریپبلکن پارٹی کا حوالہ ملتا ہے، جس کا سربراہ ڈاکٹر خان کو بنایا گیا تھا، لیکن سکندر مرزا کے اقتدار سے کُوچ کے ساتھ ہی یہ پارٹی بھی ماضی کا حصہ بن گئی تھی

آئی جے آئی اور اس کا انجام
سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور کے آخری زمانے میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) سیاسی منظرنامے پر ظاہر ہوا۔ نواز شریف اس اتحاد کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ بعد ازاں 1990ء میں الزام لگا کہ خفیہ ایجنسیوں نے اس کے لیے سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے تھے

یہ معاملہ بعد میں ’اصغر خان کیس‘ کے نام سے بار بار زیرِ بحث آیا۔ آئی جے آئی کے نام سے بننے والے اس اتحاد کا کریڈٹ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل لیا کرتے تھے، لیکن یہ اتحاد بھی زیادہ وقت تک قائم نہیں رہ سکا تھا

مسلم لیگ سے قاف لیگ تک
بعد میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ زیرِعتاب آئی تو اسی مسلم لیگ میں سے ایک جماعت برآمد ہوئی جس کے ساتھ ’قائداعظم‘ کا لاحقہ لگایا گیا۔ اس کی سربراہی میاں محمد اظہر کو سونپی گئی۔
مسلم لیگ ق بننے کے بعد باقی ماندہ مسلم لیگ کی سربراہی نواز شریف کر رہے تھے، اسی وجہ سے اسے مسلم لیگ ن کہا جانے لگا

میاں محمد اظہر کے بعد اس جماعت کی قیادت گجرات کے چوہدری برادران کے پاس رہی۔ پھر مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے چند برس بعد یہ بھی کمزور ہوتی چلی گئی۔ تاہم اس نے ابھی تک اپنا وجود کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھا ہوا ہے

سنہ 2011ء میں پاکستان میں تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت اچانک دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور الیکٹ ایبلز نے پی ٹی آئی کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا

جب ق لیگ بنی تو اس وقت کے بعض انگریزی جرائد میں ’دی رائز آف کِنگز پارٹی‘ سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ تجزیاتی رپورٹس شائع کی تھیں

پی ٹی آئی کا سیاسی اُفق پر اُبھار

پی ٹی آئی کے سیاسی سفر بالخصوص 2011ء سے 2018ء تک کے دورانیے میں اس جماعت میں دیگر سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر آںے والوں کی تعداد غیرمعمولی رہی

سنہ 2018ء کے الیکشن سے قبل الیکٹ ایبلز کی یکے بعد دیگرے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ آمد اور الیکشن کے بعد آزاد حیثیت میں جیتنے والوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت ماضی سے ذرا مختلف چیز تھی

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر باقی جماعتوں کو توڑ کو نئی جماعت بنانا ہی کسی پارٹی کو ’کنگز پارٹی‘ کہنے کا معیار ہے تو تحریک انصاف کے ابھار میں بھی کہیں نہ کہیں ایسی علامتیں دکھائی دیتی ہیں۔
تاہم یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ماضی کی ’کنگز پارٹیاں‘ کچھ عرصے بعد کہانی بن جایا کرتی تھیں، لیکن تحریکِ انصاف اقتدار سے الگ ہونے کے ایک برس بعد بھی نہ صرف سیاسی منظر پر موجود ہے بلکہ سیاسی مباحث کا ایک نمایاں موضوع بھی بنی ہوئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی طرف سے اب یہ دعویٰ کہ ’ان کی پارٹی توڑ کر نئی کِنگز پارٹی بنائی جا رہی ہے‘ ، کس حد تک درست ہے

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کو عمران خان کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے

احمد بلال محبوب کہتے ہیں ’مجھے عمران خان کی بات میں کافی حد تک صداقت لگتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ ایک ایسی پارٹی بنائی جائے گی جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو کمزور کرنے اور اس کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کا کام کر سکے۔‘

کِنگز پارٹی کا چہرہ کون ہو سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا ’اب جو حالات بنے ہیں ان میں کئی لوگوں کو خود خیال آیا ہوگا یا پھر ایسے بھی ہوں گے جنہیں یہ ٹاسک سونپا گیا ہوگا۔ مطلب یہ کہ ایک سے زیادہ لوگ کوشش کریں گے جنہیں بعد کے نئے بندوبست میں اپنی کوشش کے مطابق حصہ ملے گا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا خود پی ٹی آئی کی اپنی اٹھان کسی کِنگز پارٹی جیسی نہیں تھیِ، انہوں نے کہا ’تحریک انصاف اپنے آغاز میں ایک نیچرل سیاسی جماعت جیسی تھی۔ پھر ایک مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ کو لگا کہ اس میں نواز شریف کو سیاسی مات دینے کا پوٹینشل موجود ہے اور خود عمران خان کے ساتھ بھی ایک طرح کا گلیمر کا عنصر ہے۔ یہ دیکھ کر پی ٹی آئی کی پیٹھ تھپکنے کی کوشش کی گئی تھی۔‘

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات کنگز پارٹیوں کے جلو میں ابھرنے والے سیاستدان اور ان کی پارٹیاں حقیقی سیاسی جماعتوں کا روپ بھی اختیار کر لیتی ہیں

انہوں نے کہا ’پیپلز پارٹی کو دیکھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے جنرل ایوب خان کے قریب بلکہ ان کی کابینہ میں تھے اور چند برس بعد جب انہوں نے پیپلز پارٹی قائم کی تو وہ ایک حقیقی سیاسی جماعت تھی۔ اسی طرح ہم نواز شریف کی مثال بھی ہم لے سکتے ہیں۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ابھرے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی حقیقی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔‘

احمد بلال محبوب کے بقول ’جہاں تک معاملہ پی ٹی آئی کا ہے تو عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد خود کو ٹرانسفارم کیا ہے۔ اب یہ خود عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ مستقبل میں کتنے متعلق (ریلیونٹ) رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک پُش بٹن سے ختم نہیں کی جا سکتیں۔‘
’مجھے لگتا ہے پی ٹی آئی کی ایک حیثیت چاہے وہ کم ہی ہو، برقرار رہے گی۔ جماعتیں بنانا تو اختیار میں ہوتا ہے، لیکن انہیں منظر سے غائب کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت اتحادی حکومت کے کچھ وزراء نو مئی کے واقعات کے تناظر میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے بات بھی کر رہے ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سیاسی رہنما ایسے بیانات پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں

فواد چوہدری کی سیاسی منظر نامے پر واپسی ’نئی مائنس عمران خان پارٹی‘ کی طرف اشارہ؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے حال ہی میں علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی نے بدھ کو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ملاقات کی

فواد چوہدری نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’25 کروڑ عوام کو نواز شریف اور زرداری کے سہارے نہیں چھوڑ سکتے۔‘

ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وہ پارٹی کے دیگر سابق اور موجودہ رہنماؤں سے بھی رابطے میں ہیں

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کی علی زیدی، پرویز خٹک، اسد عمر، فرخ حبیب، عاطف خان اور شاہ محمود قریشی سے ’تفصیلی گفتگو‘ ہوئی ہے

پی ٹی آئی کے سابق اور موجودہ رہنماؤں سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’پاکستان کو مستحکم حل کی طرف جانا ہے۔ ہمیں حل نکالنا ہے، حل نکالنے کی طرف جائیں گے۔‘

تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں کی اچانک سیاسی منظر نامے پر واپسی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی موجودہ حالات پر تبصرے دیکھنے میں آرہے ہیں

کئی افراد ایسی بھی ہیں جو فواد چوہدری کے تازہ بیان کو ’مائنس عمران‘ مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں

عمر دراز گوندل کے مطابق ’جس طرح ایم کیو ایم نے الطاف حسین والی پریس کانفرنس کی تھی اور مائنس کیا تھا آج فواد چوہدری اور دیگر کی پریس کانفرنس عملی طور پر مائنس عمران کا اعلان تھا‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حامی ذیشان خان نیازی نے لکھا ’فواد چوہدری کو پھر کہیں سے تھپکی مل گئی ہے کیا؟‘

انہوں نے مزید لکھا ’یہ عجیب مذاق ہے کہ پریس کانفرنس کرنے والوں کو اب کُھلی رعایت مل گئی ہے کہ وہ اپنے کیسز معافی مانگ کر بخشوا لیں اور پھر کسی اور پلیٹ فارم پر ایک ہوکر حکومت کے خلاف محاذ کھول لیں۔‘

صحافی ریاض الحق کو بھی ایسا لگتا ہے کہ سابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی میڈیا پر واپسی ’ایک نئی مائنس عمران خان پارٹی‘ کی طرف اشارہ ہے

شمس خٹک نامی صارف نے اس حوالے سے لکھا ’پارٹی کے تمام رہنما اس بات پر قائل کریں کہ وہ موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹیں، رضا کارانہ طور پر پارٹی چیئرمین شپ چھوڑیں یا صرف کسی اور کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر منتخب کریں‘

فواد چوہدری کے بیان کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’میرا فواد چوہدری سے کوئی رابطہ نہیں‘

دوسری جانب شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین حسین قریشی نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ ان کے والد کسی عمران خان مخالف گروہ کا حصہ بن رہے ہیں

ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں زین حسین قریشی کا کہنا تھا ’آج اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں سے شاہ محمود قریشی صاحب کی ملاقات پر میڈیا میں جو تاثر دیا جا رہا ہے میں اُس کی تردید کرتا ہوں۔ مخدوم صاحب پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں اور پی ٹی آئی ایک نظریے کا نام ہے، ہم تحریک انصاف اور عمران خان کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں‘

زین قریشی نے مزید لکھا ’شاہ محمود قریشی نے آج تک صرف اصولوں اور خدمت کی سیاست کی۔ نہ کوئی عہدہ نہ کوئی لالچ شاہ صاحب کو خرید سکتی ہے۔ کل بھی عمران خان کے ساتھ تھے، آج بھی ہیں‘

خیال رہے فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور محمود مولوی سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے تناظر میں پی ٹی آئی اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close