کتاب ’ہوچی من کی آپ بیتی‘ پر تبصرہ

علی رضا کوثر

غلامی کی زنجیر انسانوں کے پیروں میں ڈالنے والے ضمیر فروش حاکم اور لٹیرے ایک دن خود وہ زنجیر توڑ کر الٹے پاؤں بھاگتے ہیں، مگر وہ دن کب آتا ہے؟ رہزنوں کو ہٹانے کے لئے کون سے رہنما فرشتے بن کر آتے ہیں؟ وہ رہنما قومی غیرت اور وطن دوستی کے خمیر سے بنتے ہیں۔ ہوتے تو عام انسانوں کی طرح ہیں، مگر عام سوچ کے مالک نہیں ہوتے۔ ان کی رگ رگ میں خون کی جگہ انقلاب دوڑتا ہے۔۔ اور ایسے انقلابی رہنما ہی غلامی سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں

ایسا ہی ایک انقلابی رہنما تھا، جس کا نام تھا، ہوچی من۔ وہ غلام ویتنام میں پیدا ہوا۔ ویتنام پر اس وقت فرینچ سامراج کی حکومت تھی۔ بلکل ایسے، جیسے ہندوستان میں برطانیہ سامراج کی حکومت تھی۔ فرینچ سامراج نے ویتنام کے عوام کو کتوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ ’کتوں سی زندگی‘ والا جملہ میں نے نہیں بلکہ خود ہوچی من نے کہا ہے۔ کیونکہ فرینچ حاکم اپنے کتوں پر جتنا خرچ کرتے تھے، ویتنام کے غریب عوام اس کا تیسرا حصہ بھی خود پر خرچ نہیں کر پاتی تھی

غلام ویتنام میں بچہ بچہ آزادی کے نام سے واقف تھا۔ مائیں بچوں کو لوریاں بھی سناتی تھیں، تو وہ بھی انقلابی ہوا کرتی تھیں۔ ایک لوری، جو ہوچی من کو بھی اپنی ماں سنایا کرتی تھی، درجِ ذیل ہے:

سو جاؤ، میرے ننھے بچے
سو جاؤ، میری آنکھ کے نور
میرے دل کے چین، آنکھ بند کر کے سو جاؤ
تمہارے وطن نے ابھی آزادی کا چہرہ نہیں دیکھا
اس لئے تم آنکھیں بند کر کے سو جاؤ
بڑے ہو کر تمہیں بہت جاگنا ہے
اور اپنے وطن کا سہاگ واپس لینا ہے
اس لئے ابھی نیندیں کرلو، میرے لال۔۔

ویتنام کی آزادی کے لئے ہوچی من سے پہلے بھی کئی تنظیموں اور رہنماؤں نے کوشش کی تھیں، مگر سب ناکام رہے تھے۔ کیونکہ انہوں نے جنگ کی تھی، جنگ کی تیاری نہیں کی تھی۔ وہ جلد از جلد انقلاب لانا چاہتے تھے، مگر انقلاب تو آتا ہی آہستگی سے ہے۔ انقلاب میں جلدبازی، انقلاب کی جان لے لیتی ہے۔اور ہوچی من یہ جانتا تھا

ہوچی من نے انقلاب کے لئے اپنی زندگی لگادی۔ وہ انقلاب کی زندگی طویل کرنے کے لئے طویل منصوبہ بنانے لگا۔ 1920ع میں ہوچی من نے اپنے آبائی وطن ویتنام کو الوداع کہہ دیا۔ یہ الوداع غلامی سے بھاگنے کے لئے نہیں، بلکہ غلامی کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے پہلا قدم تھا

قدرتی اور وراثتی طور پر آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت ہوچی من میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کی بہن بھی ایک انقلابی عورت تھی۔ وہ آزادی کے سپاہیوں کو ہتھیار مہیا کرتی تھی۔ جب وہ پکڑی گئی اور اس پر کیس چلایا گیا تو ایک مئجسٹریٹ نے اس سے کہا،
”دوسری عورتیں پیٹ سے ہوتی ہیں تو بچے جنتی ہیں، تم جب پیٹ سے ہوگی تو خطرناک ہتھیار پیدا کرو گی۔“

ہوچی کا والد (جو کے ڈاکٹر تھا) اور بھائی بھی غلامی کے خلاف تھے۔ والد تو وزیر کا سیکریٹری بنا اور جب نوکری سے اتارا گیا تو وطن چھوڑ کر گمنام ہو گیا اور ساری عمر گھر نہ لوٹا۔ مگر جہاں گیا وہاں کے غریبوں کا مفت علاج کرتا رہا۔ اور بھائی نے ایک فرینچ افسر کو ویتنامیوں پر ہونے والے مظالم کو ایک احتجاجی خط میں لکھ بھیجا۔ وہ غصہ ہو گیا۔ اور اس پر اور تشدد کیا

ہوچی من نے اس کتاب میں اپنے خاندان، اپنے بچپن، جوانی، اپنے ملک اور ملک کے لئے انقلاب کا ذکر کیا ہے۔ مختصر مگر شاندار آپ بیتی ہے۔ میں نے کہا کہ ویتنام کے بچوں کو بھی آزادی اور غلامی کا فرق پتا تھا تو ہوچی من بھی جب بچہ تھا تو یہی جذبات اس میں بھی تھے۔ مگر ایک واقعے کو پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہوچی من پیدا ہی ویتنام کی تقدیر سنوارنے اور غلامی سے نجات پانے کیلئے ہوا تھا۔ ایک دن بادلوں کی وجہ سے آسمان سے بجلی کڑکی۔ بجلی کی آواز سن کر ہوچی من سوچنے لگا کہ یہ آواز کہاں سے آئی اور کیوں آئی۔ اس نے ایک بزرگ سے پوچھا تو اس نے کہا ”یہ آواز آسمان سے آئی ہے۔“ اس پر ہوچی من کا جملہ سنئے۔ ”کیا آسمان والے بھی اپنی آزادی کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں؟“

ہوچی من نے اپنے ملک ویتنام کی خاطر ویتنام کو چھوڑا۔ مختلف ملکوں میں گیا۔ تھائی لینڈ، چائنہ، پئرس وغیرہ ہر جگہ پر جانے کے بعد وہ وہاں انقلاب کی تبلیغ کرتے۔ سامعین وہ ویتنامی ہوتے جو اب ان ممالک میں رہتے تھے۔ ان کو ویتنام کی آزادی کے متعلق بتاتے۔ فرینچ کے مظالم گنواتے۔ ان کے اندر انقلاب کی آگ بھڑکاتے۔ پہلے تو صرف ہوچی من اور اس کے چند دوست یہ تبلیغی کام کرتے رہے۔ پھر ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شامل ہوگئے۔ انہوں نے مل کر اسکولز کھولے جہاں پر ویتنام کی آزادی کے متعلق تعلیم دی جاتی۔ مختلف سوسائٹیاں کھولی۔ سوسائٹیز میں امیر غریب سب ایک ہوکر رہتے۔ جو جتنا کماتا سب اپنی انجمن پر خرچ کرتے۔ انقلابی اسکولز اور سوسائیٹیز کا گہرا اثر رہا۔ لوگ بچوں کو وہاں پڑھانے لگے۔ ویتنامی لوگ اور غیر ویتنامی بھی وہاں بچوں کو داخلہ دلوانے لگے۔ ہوچی من نے اپنے تھائیلینڈ کے ساتھیوں کو کو تھائی زبان سیکھنے اور تھائی رسم و رواج کی عزت کرنے کا حکم دیا۔ کیونکہ اس سے باہمی اتحاد و اتفاق پیدا ہونا منسوب تھا۔ اور یہی ہوا۔ تھائیلینڈ یا دوسرے ممالک جہاں جہاں ہوچی من کے لوگ کام کرتے تھے ان سے دوسرے غریب لوگ بھی سہکار کرنے لگے۔ ہوچی من کا ماننا تھا کہ انقلاب ملکی نہیں بلکہ دنیاوی ہونا چاہیے۔ ساری دنیا کے مزدور، کسان، غریب عوام سب کو ہمیں تعلیم دینی ہے اور انقلاب کیلئے تیار کرنا ہے

ویتنام میں رہتے ہوئے، ویتنامی عوام پر مظالم دیکھ کر ہوچی من کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں،
”سچ پوچھیے تو مجھے اپنی ماں کی موت کے دکھ سے کہیں زیادہ دکھ اپنے ہم وطنوں پر ہونے والے ظلم و جبر کا ہوتا تھا“

اسی دکھ اور اسی احساس نے ہوچی من کو بچپن سے گھیر رکھا تھا۔ اور یہی احساس انقلاب کا باعث بنا۔

ہوچی من اپنی ذاتی خواہش کو انقلابی اصولوں پر فوقیت دیتا تھا۔ وہ جس دؤر میں ویتنام کو چھوڑ کر آیا تھا تو اسے انقلاب اور آزادی کی اہمیت کا تو پتہ تھا مگر کمیونزم کا کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ خود لکھتے ہیں، ”شروع میں کمیونزم نہیں بلکہ حب الوطنی نے مجھے لینن میں اعتقاد دلایا۔ مگر بعد میں آہستہ آہستہ میں نے کمیونزم اور لینن ازم کو عملی طرح سمجھا اور پڑھا۔ اور میں سمجھ گیا کہ دنیا کے مزدور، مظلوم قومیں اور عوام کی سوشلزم اور کمیونزم ہی آزادی دلا سکتی ہے“

لہٰذا وہ مختلف کمیونسٹ دوستوں سے ملا۔ کمیونزم کو پڑھا۔ کامریڈ لینن کو پڑھا۔ فرینچ کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت کی۔ اس پارٹی کی ہر جمعرات کو میٹنگ ہوتی تھی جہاں ہوچی من بھی جاتا تھا اور وہاں لوگوں کو اپنے خیالات سے واقف کرواتا تھا۔ پئرس کی اس پارٹی میں وہی ایک ویتنامی تھا جو اتنی بہادری سے اپنے ویچار کا پرچار کرتا تھا

ہوچی من کو پڑھنے سے کافی شغف تھا۔ وہ ہر روز چاہے کتنا بھی مصروف ہو مگر دو گھنٹے پڑھائی کیلئے لازمی نکالتا تھا۔ انہی دنوں ہوچی من کا ناول "پئرس” شایع ہوا۔ وہ اخباروں میں مضمون لکھتے، رسالے لکھتے، اور لوگوں کو اپنے ملک کی غلامی اور فرینچ کے جبر کی تصویر دکھاتے تاکہ لوگ ہوچی من کی مدد کرسکیں اور اس کے وطن کو آزاد کرا سکیں

سن 1920ع سے 1940 تک ہوچی من ملک ویتنام کو چھوڑ کر باہر انقلابی تنظیم بناتا رہا۔ بیس سال۔۔۔۔ بیس سال تک ہوچی من نے کام کیا۔ ہزاروں لوگ تیار کیے۔ کئی تنظیموں کو دوست بنایا اور انکا ساتھ پایا۔ بیس سال کے بعد وہ اپنے ساتھیوں اور جنگ کے عزم کے ساتھ واپس اپنے ملک ویتنام لوٹا۔ گیا تو ایک تھا، لوٹا تو ہزاروں تھے۔ ادھر ادھر سے لوگوں کو اکٹھا کیا اور آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا۔ تکلیفیں سہیں، جیل گیا، جیل کے ناقابل بیان مظالم سہے۔ مگر وہ کام جو کرنے نکلا تھا، وہ کر کے ہی دم لیا۔ اب ویتنام کی سرزمین سے فرینچ لٹیروں کا صفایا کرنا مقصود تھا۔ اور یہی ہوا۔ فرینچ قبضہ خور، ہوچی من اور اس کے ساتھیوں سے مقابلہ نہ سکے اور آخر انہیں ویتنام چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ انہوں نے 1944ع میں ویتنام کو چھوڑا مگر اسی طریقے سے جیسے ہندوستان کو برطانیہ نے چھوڑا تھا۔ چھوڑا کی جگہ توڑا لفظ درست رہے گا۔ فرینچ جاتے جاتے ویتنام کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا۔ یعنی آدھا ویتنام خالی کر کے آزاد کردیا۔ مگر ایک ہی سال میں دغابازی کرکے پھر قبضہ کرنے آگئے۔ اور ہوچی من اپنے ساتھیوں سمیت مشکل سے بچ کر کسی غار میں جا چھپے۔ اور ایک دفعہ پھر فرینچ سے جنگ کی۔ اور جیت ہوئی مظلوم کی، آزادی کی اور انقلاب کی

مگر فرینچ ابھی نکلے ہی نہ تھے کہ آمریکا جیسا اجگر آ کے ویتنام پر قبضہ کرنے لگا۔ مگر ویتنام کے انقلابیوں نے آمریکا جیسے سامراج کو بھی بھگا دیا۔ آمریکا کو بھگایا تو جپان آ گیا۔ مگر جپان کو بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ آزادی کی جنگ چلتے ہی ہوچی من وفات کر گیا۔ مگر مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی تھی: ”جدوجہد جاری رکھنا اور وطن کی زمین کا ایک ٹکڑا بھی دشمنوں کے حوالے مت کرنا“

امریکا کے بعد جپان نے قبضہ کرنا چاہا مگر ہوچی من کے مجاہدوں نے اس قبضے کو بھی ناکام کردیا۔اور ویتنام کی عوام کی بالآخر غلامی سے جان چھوٹی اور آزادی کا آفتاب مسکراتے ہوئے طلوع ہوا۔

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close