’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی‘ اگر ایسا ہے تو یہ عینک آپ کی مدد کرے گی!

ویب ڈیسک

بائیس سالہ طالب علم نے اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے ایک ایسا سافٹ وئیر بنایا ہے، جس کو پہن کر آپ لوگوں سے بات چیت کے دوران ان کے سوالوں کا بآسانی جواب دے سکتے ہیں

اگر آپ بولنے کے لیے الفاظ بھول جاتے ہیں، آپ کو لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران گھبراہٹ ہوتی ہے اور اس وجہ سے آپ سماجی تعلقات سے دور رہتے ہیں تو یہ سافٹ ویئر آپ ہی کے لیے بنا ہے

کسی پارٹی میں لوگوں سے بات چیت کے دوران آپ کے پاس بولنے کے الفاظ نہ ہوں، انٹرویو کے دوران گھبراہٹ کی وجہ سے سوال کا جواب ذہن میں نہ آرہا ہو تو بائیس سالہ طالب علم برائن چیانگ نے آپ کے مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالا ہے

یورو نیوز کی رپورٹ کے مطابق مارچ میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم برائن چیانگ نے ایک سافٹ ویئر کوڈ تیار کرنے کے لیے دوستوں کے ایک گروپ کو اپنے ہاسٹل میں جمع کیا

ان طالب علموں نے اوپن اے آئی چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کر کے رِز جی پی ٹی (RizzGPT) کے نام سے ایک ایسا سافٹ وئیر تیار کیا تو انسان کو گفتگو کے دوران الفاظ کے چناؤ میں مدد کرسکتا ہے

یہ ایک لینس (Lens) ہے، جسے عینک پر لگا کر آپ استعمال کر سکتے ہیں، رِز جی پی ٹی کو بریلیئنٹ لیبز نامی ادارے نے ڈیزائن کیا ہے, لینس کی اسکرین پر کیمرہ، مائکروفون اور پروجیکٹر موجود ہے جسے کے ذریعے الفاظ ظاہر ہوتے ہیں، جو صرف آپ ہی دیکھ سکتے ہیں

چیانگ کہتے ہیں کہ رز جی پی ٹی بنیادی طور پر آپ کی دوسرے لوگوں سے بات چیت کو غور سے سنتا ہے، یہ آپ کو بتاتا ہے کہ ’آپ کو آگے کیا کہنا ہے‘

چیانگ اور ان کے دوستوں نے مائیک کا استعمال کرتے ہوئے لینس کے پیچھے پیچیدہ کوڈ کا استعمال کیا ہے، جو بعد میں جملے بن کر ظاہر ہوتے ہیں، تاہم اس کو استعمال کرنے کے لیے پہلے اسے وائی فائی کے ساتھ کنیکٹ کرنا ہوگا

چیانگ کہتے ہیں کہ یہ سافٹ ویئر ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، اس میں ابھی مزید تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے ابتدائی مراحل میں ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال میں کچھ مشکلات آ سکتی ہیں، مثال کے طور پر یہ گفتگو کے دوران پانچ سیکنڈ بعد ردعمل دیتا ہے، جو دو لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو عجیب بنا سکتا ہے

وہ کہتے ہیں کہ اس ڈیوائس کو بنانے کا مقصد کمرشلائیزیشن نہیں بلکہ صرف ایک تجربہ کرنا تھا

ان کا کہنا ہے کہ اس سافٹ ویئر کا مقصد آپ کو بتانا ہے کہ ’آگے کیا بولنا ہے‘، ’میرے خیال میں یہ ان لوگوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے جو سماجی اضطراب کا شکار ہیں اور انہیں دوسروں سے بات چیت میں مشکل پیش آتی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close