گزشتہ ہفتے لیبیا سے اٹلی جانے والی ایک کشتی یونان کے ساحلوں سے کچھ دور سمندر میں الٹ جانے سے کم از کم 82 تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ اندازوں کے مطابق اس کشتی پر چار سو سے لے کر ساڑھے سات سو تک تارکین وطن سوار تھے، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ ابھی اس کشتی میں سوار تارکینِ وطن کی لاشیں بھی برآمد نہیں ہوئیں کہ ایک اور روح فرسا واقعہ پیش آ گیا
اطلاعات کے مطابق اسپین کے جزیرے گرینڈ کیناری کے قریب پناہ گزینوں کی ایک کشتی ڈوبنے سے تیس سے زائد افراد کے ہلاک ہو جانے کا خدشہ ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ’واکنگ بارڈرز‘ نے ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی تعداد انتالیس بتائی ہے
مراکش کے ساحلی محافظوں نے چوبیس پناہ گزینوں کو ڈوبنے سے بچاتے ہوئے انہیں ایک قریبی بندرگاہ پر پہنچا دیا جبکہ ابھی تک فقط ایک نابالغ فرد کی لاش ملی ہے۔ ‘الارم فون‘ نامی ایک دوسری این جی او کے مطابق لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد تیس ہے
واکنگ بارڈرز نامی تنظیم نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ مجموعی طور پر 39 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں چار خواتین اور ایک بچہ بھی شامل ہیں
اس سال اب تک تقریباﹰ چھ ہزار تارکین وطن مغربی افریقی ساحلی علاقوں سے جزائر کیناری تک پہنچنے کے لیے یہ خطرناک سمندری راستہ اختیار کر چکے ہیں۔ امدادی کارکنوں کو منگل کے روز بھی ایک کشتی پر ایک حاملہ خاتون کی لاش ملی تھی۔ یہ کشتی بھی تقریباً پچاس تارکین وطن کو جزیرے گرینڈ کیناری کی طرف لے کر جا رہی تھی
دوسری جانب جنوبی یونان میں تارکینِ وطن کی کشتی کے حادثے میں بچ جانے والے عینی شاہدین کی طرف سے انہیں پیش آنے والے ہولناک واقعات بیان کیے گئے ہیں
ان میں سے محمد حمزہ، جو اس کشتی میں سوار ان بارہ پاکستانیوں میں شامل ہیں، جو حادثے کے بعد زندہ بچا لیے گئے تھے، نے بتایا ”ایک بہت بڑے بحری جہاز نے پانی پھینکا مگر ہمیں مدد کے لیے ریسیو نہیں کیا۔ ہم بہت چِلائے، انھیں بہت آوازیں دیں۔ وہ بہت بڑا بحری جہاز تھا۔ اس نے بس پانی پھینکا۔ کیک وغیرہ پھینک کر وہ بس چلا گیا“
محمد حمزہ کا کہنا ہے کہ اس کشتی پر ساڑھے تین سو کے قریب پاکستانی بھی سوار تھے
اس حادثے میں زندہ بچنے والے 104 تارکین وطن میں سے 12 پاکستانیوں کو ملاکاسا میں قائم کیمپ میں رکھا گیا جن میں سے محمد حمزہ سمیت کچھ پاکستانیوں کو بدھ کو رہا کر دیا گیا
رہائی کے بعد کشتی پر پیش آنے والے واقعات اور پاکستانی تارکینِ وطن سے روا رکھے گئے سلوک کے بارے محمد حمزہ کا کہنا تھا جب یہ کشتی مشکلات سے دوچار تھی تو اس وقت ان سمیت کئی تارکین وطن نے سمندر میں قریبی کشتیوں کے علاوہ مسافر بردار اور مال بردار بحری جہازوں سے مدد مانگی تھی مگر کسی نے بھی انہیں بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔
ان کا یہ بیان یونان کے کوسٹ گارڈ اور دیگر حکام کے دعوے کی نفی کرتا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ کشتی اٹلی کی جانب روانہ تھی اور اس نے نہ مدد مانگی تھی اور نہ ہی اسے ڈوبنے کا خطرہ تھا
یونان کے حکام پر ایسے الزامات لگے ہیں کہ انھوں نے امدادی کارروائی شروع کرنے میں تاخیر کی اور اس معاملے پر اقوام متحدہ بھی تحقیقات کا مطالبہ کر چکا ہے
حمزہ نے بتایا کہ غرق ہونے والی کشتی پر موجود تارکین وطن نے مدد کے لیے پکارا مگر کشتیوں اور بحری جہازں نے ان کی کشتی میں صرف کھانے کی اشیا اور پانی پھینکا
ان کے مطابق جو مدد وہ درحقیقت چاہتے تھے، یعنی انہیں ڈوبنے والی کشتی سے نکال لیا جائے، وہ انھیں فراہم نہ کی گئی۔ ”رات کوایک بحری جہاز آیا۔ انھیں سب یہی کہہ رہے تھے کہ ہمیں بس ریسکیو کر لو۔ ہمیں پانی وغیرہ کچھ نہیں چاہیے“
وہ کہتے ہیں اسی جہاز سے ان کی کشتی کی ٹکر ہوئی تھی، جسے انہوں نے کئی بار یہ پیغام دیا کہ ’ہمیں ریسکیو کر لو۔‘ مگر آگے سے کوئی جواب نہ آیا
اس سوال پر کہ آپ نے کس طرح مدد کی اپیل کی تھی، حمزہ نے بتایا ”سب ہیلپ ہیلپ کر رہے تھے۔ یہ نہیں پتا وہ کون سے ملک کا بحری جہاز تھا۔ انہوں نے پانی پھینکا، کیک پھینکا اور اپنی کشتی لے کر ہم سے آگے چلے گئے“
وہ بتاتے ہیں ”ہمیں دو مال بردار بحری جہازوں نے پانی دیا۔ ان میں سے ایک دن کے وقت اور ایک رات کے وقت آیا“
وہ مزید بتاتے ہیں کہ دن کے وقت جہاز ان کی ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی سے دور تھا۔ ’بحری جہاز نے انہیں رسیوں کے ذریعے پانی بھی بھیجا، یعنی وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ بڑی مشکل میں ہیں۔‘
حمزہ کا کہنا ہے کہ رات کے وقت ایک بحری جہاز سے ان کی کشتی کی ٹکر ہوئی تھی۔ ”میں پیچھے بیٹھا تھا، وہ بحری جہاز آگے کی طرف تھا۔ اس کے ساتھ آدمی بول رہے تھے۔ اس نے رسی ڈالی۔۔۔ جس طرف میں بیٹھا تھا، اسی طرف کشتی ڈوب گئی“
ان کی یہ بات اہم اس لیے ہے کہ وہ اس حادثے میں زندہ بچنے والوں میں سے ہیں اور یہی وہ افراد ہیں، جو اس حادثے کے تمام حقائق واضح کر سکتے ہیں
حمزہ نے کہا کہ رات کے وقت آنے والی کشتی سے انہوں نے بارہا مدد کا مطالبہ کیا مگر انھوں نے کچھ نہ سنا ”دو، تین دن سے ہماری کشتی ایک ہی جگہ گھوم رہی تھی۔ جہاز کے کپتان کو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ وہ بولتا تھا میں نے وائرلیس کیا ہے، اٹلی والے آ رہے ہیں، ایسا ہے ویسا ہے۔ ہم وہاں بیس پچیس کلومیٹر کے دائرے میں دو، تین دن تک گھومتے رہے“
اس سے قبل بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی
ٹریکنگ ڈیٹا نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور یہ کہ انہوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا
تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا، اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دیے
ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوؤں پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی
یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشتی میں سوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا، جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی
حمزہ کا کہنا ہے ”کشتی میں سب سے اوپر کھلی جگہ پر شامی اور مصری تارکینِ وطن موجود تھے، تاہم اوپر والے حصے میں، مجھے سمیت اور بھی پاکستانی تھے“
ان کے مطابق ”کشتی کے عملے اور انسانی اسمگلروں نے اکثر پاکستانیوں کو نیچے تہہ خانے کی جگہ میں بھرا ہوا تھا۔ نیچے تہہ خانے میں بہت سے پاکستانیوں کو رکھا گیا تھا۔ ہم کل ساڑھے تین سو پاکستانی تھے، جن میں سے ہم صرف بارہ زندہ بچے ہیں۔ ہم سب کو پتا تھا کہ کتنے پاکستانی ہیں۔ سب کو پتا تھا یہ اِس ایجنٹ کا ہے، وہ اُس ایجنٹ کا ہے“
حمزہ نے کہا ”وہاں خواتین نہیں تھیں مگر دس بارہ سال کے دو بچے ضرور تھے، جنہیں کشتی کے اوپری حصے میں رکھا گیا تھا۔ ایک بچہ ہمارے قریب بیٹھا ہوا تھا“
لیبیا سے اٹلی کی جانب روانگی کا احوال بیان کرتے ہوئے حمزہ نے بتایا ”ہماری کشتی سمندر میں کھڑی تھی، وہ دو سپیڈ بوٹوں میں چالیس پچاس لوگ لا کر اس میں ڈالتے تھے۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہم اوپر والے حصے میں پیچھے کر کے بیٹھ گئے اور بعد میں انہوں نے ہم سے نہیں پوچھا“
یونان کشتی حادثے میں بچنے والے پاکستانی کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے اکثر نوجوانوں کو نیچے رکھا گیا تھا، جنہیں کشتی چلنے کے بعد باہر نکلنے نہ دیا گیا۔ ادھر آدمی بہت زیادہ بے ہوش بھی ہوئے۔ ہم نے دو، تین دن سمندر کا پانی بھی پیا“
حمزہ نے بتایا ”کشتی پر پینے کا پانی ختم ہوگیا تھا۔ ہم قریب پانچ دن اور چھ راتیں سمندر میں رہے۔ کھانے پینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ جہاز کا کپتان کوئی تھا ہی نہیں۔ پیشاب آتا تو کھڑے ہو کر سمندر میں ہی کر دیتے تھے۔ وہ ہمیں اٹھنے، بولنے بھی نہیں دیتے تھے“
اس دوران اسمگلروں نے تارکین وطن کو کئی بار یہ کہہ کر تسلی دی کہ اٹلی سے مدد بس پہنچنے ہی والی ہے۔ ’وہ (عملہ) بول رہا تھا کہ میں نے انہیں اسی جگہ کی لوکیشن بھیجی ہے۔ ابھی سب صحیح ہوجائے گا۔ نظام ایسے ہی چل رہا تھا۔‘
وہ یاد کرتے ہیں ”آخری دن، رات کو حادثے کے آدھے گھنٹے پہلے انجن بند ہوگیا تھا۔ ہماری کشتی ڈوبی تو وہاں چار سے پانچ بڑے جہاز آگئے۔ وہ کچھ فاصلے پر رہے۔ میرے ہاتھ میں ڈیڑھ لیٹر کی خالی بوتل آ گئی میں اس کے سہارے آگے جا رہا تھا۔ آگے شامی اور مصری تھے، ان کے پاس چھوٹی ٹیوب تھی“
حمزہ کی جان اس وقت بچی جب انھوں نے بھی اس ٹیوب کو پکڑ لیا۔ ”ہم سمندر میں آدھے گھنٹے سے چالیس منٹ تک تیرتے رہے۔ پھر انہوں (ریسکیو ٹیم) نے پکڑ کر ہمیں اسپیڈ بوٹ میں ڈالا“
اس کے بعد انہیں ایک امدادی کیمپ منتقل کر دیا گیا جہاں سے وہ گزشتہ روز رہا ہوئے ہیں۔