یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے جب پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں ایک شام پولیس نے معمول کی کارروائی کے لیے ناکے لگا رکھے تھے۔ انہی ناکوں میں سے ایک پر مامور دو سپاہیوں نے موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے ایک شخص کو روکا، جس نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا
پولیس اہلکاروں نے جب اس شخص کی تلاشی لینا شروع کی تو انہیں ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا
موٹر سائیکل سوار شخص کے پاس بڑے بڑے چار تھیلے تھے اور ان تھیلوں میں چھوٹے چھوٹے کرنسی نوٹ اور ریزگاری بھری پڑی تھی
پولیس اہلکاروں کے مطابق جب انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ یہ پیسے کہاں سے آئے اور وہ انہیں لے کر کہاں جا رہے ہیں۔ تو وہ اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ جس پر اس کو حراست میں لے کر پیسوں سمیت تھانے منتقل کر دیا گیا
اس شخص کا نام مظفر حسین ہے اور وہ تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں چک نمبر 103 گ ب کا رہائشی ہے
مظفر حسین کا کہنا ہے ”جن پیسوں کے بارے میں پولیس اہلکاروں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی وہ میری ذاتی ملکیت ہیں اور میں نے بھیک مانگ کر کمائے ہیں۔“
مظفر کے مطابق، وہ گزشتہ پچاس سال سے بھیک مانگ کر پیسے اکھٹے کر رہا ہے
اس نے بتایا ”13 مارچ کی رات مجھے دو پولیس اہکاروں محمد عمران اور محمد صدیق نے جب روکا تھا تو میرے پاس پیسوں سے بھرے تھیلے تھے، جن میں اس وقت سات لاکھ دس ہزار روپے تھے۔ وہ پیسے میں نے ایک پراپرٹی ڈیلر کو دینے تھے، جس سے میں ایک پلاٹ خرید رہا تھا“
لیکن پولیس اس کی دونوں باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھی
مظفر بتاتا ہے ”نہ تو انہیں یہ یقین آرہا تھا کہ میں بھکاری ہوں اور نہ اس بات پر یقین تھا کہ میں پلاٹ کی رقم ادا کرنے جا رہا ہوں۔ وہ مجھے پیسوں سمیت تھانے لے گئے۔ کئی گھنٹے تک میں ان سے الجھتا رہا، لیکن مجھے کہا گیا کہ اس بات کا ثبوت لاؤ کہ یہ پیسے تمہارے ہیں تو پیسے تب واپس ملیں گے“
مظفر حسین نے رات گئے اپنے کچھ جاننے والے اور اس پراپرٹی ڈیلر، جس کو وہ پیسے دینے جا رہا تھا، کو تھانے بلایا اور گواہی دلوائی۔ تاہم یہ سب ناکافی تھا
مظفر حسین کے بقول ”اتنی تگ دو کے بعد پولیس نے مجھے پانچ لاکھ روپے واپس کر دیے جبکہ باقی دو لاکھ دس ہزار روپے اپنے پاس رکھ لیے“
لیکن یہ دو لاکھ روپے پولیس والوں کو مہنگے پڑے، کیونکہ مظفر بھی ہار ماننے والا نہیں تھا
اگلے دن مظفر نے اسی تھانہ سٹی جڑانوالہ میں درخواست دی کہ پولیس اہلکاروں محمد عمران اور محمد صدیق کے خلاف کارروائی کی جائے، تاہم ان کے مطابق ان کی درخواست وصول نہیں کی گئی
جس کے بعد مظفر نے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمے کا اندراج نہ ہونے پر سیشن کورٹ جڑانوالہ میں درخواست دائر کر دی۔ اور اپنے لیے ایک وکیل کی خدمات بھی حاصل کر لیں
بھکاری مظفر حسین نے عدالت میں پولیس اہلکاروں کے خلاف جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ میں اپنے خریدے ہوئے پلاٹ کی رقم 7 لاکھ روپے جمع کرانے جا رہا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے وہ رقم مجھ سے چھین لی
عدالت کے استفسار پر پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ مظفر حسین بھکاری ہے اور اس کے پاس سات لاکھ روپے کدھر سے آئے؟
بھکاری نے بتایا ”میں گزشتہ پچیس سال سے بھیک مانگ رہا ہوں، میرا نجی بینک میں اکاؤنٹ ہے اور رقم بینک میں جمع کرواتا ہوں۔“ بھکاری نے بینک اسٹیٹمینٹ عدالت کو دکھائی تو عدالت بھی حیران رہ گئی کہ فقیر کے اکاؤنٹ میں تین کروڑ روپے موجود تھے
مئی کے مہینے میں ایڈیشنل سیشن جج جڑانوالہ شوکت جاوید کی عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ”درخواست گزار بظاہر ایک بھکاری معلوم ہوتا ہے۔ اور جن پیسوں کا جھگڑا ہے، وہ بھی چھوٹے نوٹ اور ریزگاری تھی، جس کی تصدیق پراپرٹی ڈیلر اویس نے بھی کی۔ کوئی پولیس آفیسر یا عام آدمی کسی دوسرے شخص کی ملکیت کو چھین نہیں سکتا اگر کوئی پولیس والا کرے تو یہ اور بھی سنگین جرم ہے“
عدالت نے دونوں پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی
اگرچہ ہر شہر میں پولیس ان بھکاریوں کے خلاف وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی تعداد کم نہیں ہوتی، بلکہ بسا اوقات پولیس پر ان بھکاریوں سے ملی بھگت کا الزام لگتا ہے، لیکن جڑانوالہ کے اس لکھ پتی بھکاری مظفر حسین نے کھیل پولیس پر پلٹ دیا ہے اور بھرپور قانونی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے
مظفر حسین کے مطابق 6 مئی کو عدالت نے پرچہ درج کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابھی تک پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا
مظفر حسین کے مطابق ”میرے دو بینک اکاؤنٹس بھی ہیں۔ ایک نیشنل بینک میں ہے اور دوسرا یونائیٹڈ بینک میں ہے۔ میں نے پچاس سال میں جتنے پیسے مانگ کر اکھٹے کیے وہ یا تو بینکوں میں رکھے یا اپنے گھر پر۔ یہ پیسے وہ تھے جو میرے گھر پر ہی تھے“
تاہم مظفر نے یہ نہیں بتایا کہ پچاس سالوں میں اس کے بینک اکاؤنٹس میں کتنا پیسہ جمع ہو چکا ہے
پراپرٹی ڈیلر اویس شاہ، جن سے مظفر حسین پلاٹ خرید رہا تھا، کا کہنا ہے ”یہ میرے پاس تھیلوں میں پیسے بھر کر آیا تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا کہ بڑے نوٹ لے کر آؤ اس میں پانچ روپے کے بھی نوٹ تھے اور ریزگاری بھی تھی۔ میں چار تھیلے کہاں رکھتا اور دوسرا ان کو گننے کے لیے بھی کافی وقت درکار تھا۔ تو میرا اور اس کا یہی طے پایا کہ صبح بینک سے تبدیل کروا کر بڑے نوٹ لانا تو پلاٹ کی رجسٹری ہوگی“
تحصیل جڑانوالہ پولیس کے ڈپٹی سپرینٹینڈنٹ خالد جاوید کے مطابق ”اس رات مظفر نامی بھکاری کو پولیس نے تلاشی کے لیے روکا تھا اور تھانے بھی اسی لیے لے کر گئے تھے کہ چھان بین کی جا سکے۔ پولیس نے پیسے واپس کر دیے تھے۔ تاہم اس کا الزام ہے کہ ان میں سے دو لاکھ روپے کم تھے تو اس کی محکمانہ انکوائری کی جا رہی ہے۔ اور اگر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اہلکاروں نے پیسے رکھے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی“
خالد جاوید کے مطابق مظفر حسین جیسے بھکاری ملک کے اصل ضرورت مند اور حاجت مند افراد کی حق تلفی کر رہے ہیں اور اس عمل پر آواز اٹھانی چاہیے، کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ مستحقین کو بھی خیرات دینے سے ہچکچانے لگے ہیں
یہ واحد بھکاری نہیں ہے، جس نے پاکستان میں پولیس کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ بلکہ ملک کے کونے کونے میں بالعموم اور صوبہ پنجاب میں بالخصوص انفرادی بھکاریوں اور بھکاری گروہوں نے پولیس اور انتظامیہ کی ناک میں دم کر رکھا ہے
حکام کے مطابق پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں گذشتہ چھ مہینوں میں دس ایسے بھکاری گینگز کا نیٹ ورک توڑا گیا، جو بڑے پیمانے پر شہریوں کو بے وقوف بنا کر پیسے اکٹھے کر رہے تھے
لاہور کے سنٹرل پولیس چیف بلال صدیق کمیانہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ چھ ماہ میں بھکاریوں کے خلاف تقریباً تین ہزار مقدمات درج کیے گئے ہیں
انہوں نے کہا ”بھکاری اس وقت بڑے بڑے گینگز میں کام کر رہے ہیں اور انہوں نے شہر کے علاقے بانٹے ہوئے ہیں۔ جب ان کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو اس میں ہوشربا چیزیں سامنے آئیں۔ ہم نے دس ایسے افراد کو پکڑا جو پیچھے بیٹھ کر ایک پورا سسٹم چلا رہے تھے“
بلال کمیانہ نے بتایا کہ بھکاریوں کے خلاف موثر قوانین نہ ہونے کے سبب ان کو رہائی مل جاتی ہے۔ اس لیے ان کے خلاف مسلسل کام کرنا پڑتا ہے
واضح رہے کہ پاکستان میں اس وقت نافذ 1958 کے قوانین کے تحت کسی بھی شخص کو اپنے زخم دکھا کر پیسے مانگنے پر پابندی ہے، البتہ خلاف ورزی پر سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم اسلام آباد کی حدود میں انسداد بھکاری ایکٹ 2009 کا اجرا کیا گیا، جس کی سزا تین سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ ہے
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی سال 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچاس لاکھ سے اڑھائی کروڑ تک بھکاری ہیں۔ یعنی پوری آبادی کا اڑھائی سے گیارہ فی صد تک بھکاریوں پر مشتمل ہے۔