برصغیر ہندوستان میں کتاب کی تاریخ

ڈاکٹر مبارک علی

جب انسانی تہذیب میں رسم الخط ایجاد ہوا، تو اس کے ساتھ ہی کتابیں بھی وجود میں آنا شروع ہو گئیں۔ میسوپوٹامیہ کی تہذیب میں کتابیں مٹی کی تختیوں پر بھی لکھی گئیں جبکہ مصر میں پائرس پر کتابیں لکھی جانے لگیں۔

دوسری تہذیبوں میں پارچمنٹ یا بھیڑ کی کھالوں پر بھی کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ ہندوستان میں palm کے پتوں پر کتابیں وجود میں آنا شروع ہو گئیں۔ لبنان کے شہر ببلو سے بائبل کا لفظ نکلا، جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ اسی سے bibliography یعنی کتابیات اور bibleothek یعنی لائبریری جیسے الفاظ نے جنم لیا۔ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ابتدا میں جو کتابیں لکھی گئیں، ان کا تعلق زیادہ تر مذہبی عقائد سے تھا۔ ان کو خوبصورت بنانے کے لیے نقش و نگار بنائے جاتے تھے اور انہیں دیوی دیوتاؤں کی تصاویر سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ قدیم ہندوستان میں ہندو، جین اور بدھ مذاہب پر کتابیں لکھی گئیں۔ کتاب کو مقدس سمجھا جاتا تھا اور احتیاط کی جاتی تھی کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو۔

تیرہویں صدی میں ترک ہندوستان میں کاغذ کی صنعت لے کر آئے۔ اس عمل نے کتابوں کی صنعت میں انقلاب پیدا کر دیا۔ کتابوں کے ساتھ ہی فن خطاطی میں بھی بے حد ترقی ہوئی۔ ایک ہی تحریر کو کئی طریقوں سے بہت خوبصورت انداز میں لکھا جانے لگا۔ کاتبوں کا طبقہ وجود میں آیا، جو مخطوطات کو نقل کر کے عالموں تک پہنچاتا تھا۔ بادشاہوں اور امراء کے درباروں میں کتب خانوں کا قیام عمل میں آیا۔ مغل دربار میں کتب خانے کا عملہ کافی زیادہ ہوا کرتا تھا، جن میں کاتب، مصور اور جلد ساز سبھی ہوا کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کو تصویری کتابیں پسند تھیں۔ خاص طور سے اس نے داستان امیر حمزہ کو مشہور مصوروں سے تصاویر کے ذریعے خوبصورت بنوایا تھا۔

برصغیر میں کتابوں کے فروغ میں اضافہ اس وقت ہوا، جب یورپی مسیحی مبلغین ہندوستان میں چھاپہ خانہ لے کر آئے۔ سب سے پہلا چھاپہ خانہ تامل ناڈو میں قائم کیا گیا تھا، جہاں کرسچن مشنریوں نے تامل زبان میں بائبل کا ترجمہ شائع کیا تھا۔ یہ مسیحی کیتھولک مشنری تھے۔ دوسری جانب پروٹسٹنٹ مشنریوں نے سیرام پور بنگال میں بائبل کے ترجمے شائع کیے تھے۔

ہندوستان میں چھاپے خانوں کا پھیلاؤ اس وقت ہوا، جب وہاں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ حکومت کا چھاپہ خانہ قوانین، اعلانات، احکامات اور اپنی پالیسی کے بارے میں کتابیں، پمفلٹ اور اشتہار چھاپہ کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نجی چھاپہ خانے مختلف شہروں میں قائم ہونا شروع ہوئے، جہاں مذہبی کتابیں، داستانیں، کہانیاں اور شاعروں کے دیوان چھپنے لگے۔ انہیں ہی میں سے ایک پبلشر منشی نول کشور نے 1858ء میں لکھنؤ میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کیا، جہاں فارسی، عربی، اردو، سنسکرت اور ہندی زبانوں میں کتابیں شائع ہوا کرتی تھیں۔

منشی نول کشور بڑے بااصول اور تنظیمی معاملات میں قاعدے اور قوانین کے پابند تھے۔ کتابت کے لیے انہوں نے بہترین خطاطوں کی خدمات حاصل کیں۔ کتابوں کی پروف ریڈنگ بہت احتیاط سے ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ان کی شائع کردہ کتابوں میں کتابت کی غلطیاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ہندوستانی زبانوں کے ماہرین کو ملازم رکھا تھا۔ قرآن کی کتابت میں وہ بہت احتیاط برتتے تھے۔ تخت پر سفید چاندنی بچھائی جاتی تھی اور کاتب باوضو ہو کر کتابت کرتے تھے۔ چھپائی کے دوران اگر صفحات میں کوئی خرابی آ جاتی تھی، تو ان صفحات کو جلانے کے بجائے دفن کر دیتے تھے۔ یہی رویہ ان کا دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں کے حوالے سے بھی تھا، جن میں وید اور گرنتھ صاحب شامل تھیں۔

نول کشور پریس سے داستانیں، ناول، شاعروں کے دیوان اور ان کی کلیات شائع ہوتے تھے۔ مصنفوں کے لیے یہ باعث فخر بات ہوتی تھی کہ ان کی کتاب Nawal Kishore پریس سے شائع ہو۔ ان میں غالب، ڈپٹی نذیر احمد اور مرزا رسوا اہم ادبی شخصیات تھے۔ رتن ناتھ سرشاد کے مشہور مضامین آزاد کی داستان، جوکئی جلدوں میں ہے، یہی سے شائع ہوئی تھی۔

کتابوں کے پھیلاؤ کے لیے منشی صاحب نے پبلسٹی کے کئی طریقوں کو استعمال کیا۔ انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں دکانداروں سے روابط قائم کر کے انہیں اپنی کتابیں فراہم کرنا شروع کیں۔ ہاکروں کو استعمال کیا، جو یہ کتابیں لے کر شائقین کے پاس جاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی شائع کردہ کتابیں ہر جگہ دستیاب ہونے لگیں اور ان کی کتابوں کی قیمت بھی مناسب ہوتی تھی۔

منشی صاحب بڑے مہم جو انسان تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ انگلستان سے برآمد ہونے والا کاغذ مہنگا ہوتا ہے، تو انہوں نے کاغذ بنانے کا کارخانہ قائم کر لیا، جس کی وجہ سے انہیں زیادہ کتابیں شائع کرنے کی سہولت ہو گئی۔ پبلشنگ ہاؤس کی وجہ سے منشی صاحب بڑے سرمایہ دار بن گئے۔ اسی سرمائے سے انہوں نے زمینیں خریدیں اور کتابوں کی تجارت کو فروغ دیا۔

کتابوں کی اشاعت نے ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بڑی ذہنی تبدیلی پیدا کی۔ شہر شہر کتابوں کی دکانیں کھل گئیں، جہاں اہل علم کی نشستیں ہونے لگیں۔ کتب خانے جو تب تک بادشاہوں اور امراء کے محلات میں ہی ہوتے تھے، اب ریاست کی جانب سے پبلک کتب خانے بھی قائم ہونے لگے، جہاں سے قارئین باآسانی کتابیں لے کر پڑھتے تھے۔ کچھ اہل علم نے اپنے نجی کتب خانے بھی قائم کیے۔

برطانوی حکومت کی جانب سے شائع شدہ کتابوں پر نظر بھی رکھی جاتی تھی کہ ان میں حکومت کے خلاف کوئی مواد نہ ہو۔ خاص طور سے نصابی کتابوں کی اشاعت کا کام ریاست کے ذمے تھا۔ ان کتابوں میں وہ انگلستان کی حکومت کی اچھائیاں لکھوایا کرتے تھے، تاکہ طالب علموں میں وفاداری کے جذبات پیدا ہوں۔

خاص طور سے اخباروں اور رسالوں پر کڑی سنسر شپ ہوا کرتی تھی۔ ان پابندیوں کی وجہ سے مصنفین اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جدوجہد آزادی میں ان دانشوروں کا بڑا حصہ ہے، جنہوں نے پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔ ان کی کتابیں ضبط ہوئیں، انہیں جرمانے دینا پڑے اور بعض حالات میں تو انہوں نے قید کی سزائیں بھی کاٹیں۔

برصغیر میں کتابوں کی اشاعت نے جہاں ایک طرف مذہبی کتابوں کی وجہ سے فرقہ واریت اور تعصبات کو بھی جنم دیا، وہیں دوسری جانب ترقی پسند اور روشن خیال مصنفین نے روا داری اور ہم آہنگی کا پیغام بھی دیا۔ تقسیم سے پہلے اور بعد میں ان دونوں رجحانات میں جو تصادم تھا، وہ آج بھی جاری ہے۔

(مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، Francesca Orsini کی کتاب The History of the Book in South Asia جو 2020ء میں شائع ہوئی تھی۔)

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close