اسرائیل کے ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور پولیس کے کئی یونٹس فون ہیکنگ کے لیے اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات استعمال کر رہے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہیکنگ سے متعلق ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق ایسی ٹیکنالوجی دنیا میں کہیں بھی حاصل کر سکتا ہے
جمعرات کو اسرائیلی اخبار ’ہاآرٹس‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایف آئی اے 2012 سے اسرائیل کی سائبر ٹیکنالوجی ’سلیبرائٹ‘ کی مصنوعات استعمال کر رہی ہے
یہ ٹیکنالوجی موبائل فون کے پاس ورڈ کو ہیک کرنے اور اس میں محفوظ مطلوبہ معلومات، تصاویر، ٹیکسٹ میسجز، رابطوں کا ڈیٹا، کالنگ ہسٹری وغیرہ کا ریکارڈ کاپی کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں
اسرائیلی کمپنی کے مطابق وہ اپنے ٹولز اور مصنوعات صرف پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو فروخت کرتی ہے۔ تاہم اسرائیلی اخبار کے مطابق گزشتہ برسوں میں سلیبرائٹ کے ہیکنگ ٹولز کا استعمال انسانی حقوق اور اقلیتوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے خلاف استعمال ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں
سیلیبرٹ کمپنی نے پاکستان کو براہ راست یا بالواسطہ اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی تردید کی ہے
اسرائیلی اخبار نے اپنے پاس دستیاب دستاویز کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس یو ایف ای ڈی کے ساتھ ایف آئی اے، پنجاب اور پشاور کی پولیس کے درمیان رابطوں کے شواہد موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں سیلیبرٹ یو ایف ای ڈی کے نام سے کام کرتی ہے
واضح رہے کہ ہاآرٹس اخبار کئی مواقع پر سلیبرائٹ سے متعلق خبریں شائع کرتا رہا ہے جن کے مطابق اس کمپنی کے خریداروں میں بیلاروس، چین، یوگنڈا، وینزویلا، انڈونیشیا، فلپائن، روس ایتھوپیا اور بنگلہ دیش کی ریپڈ ایکشن بٹالین شامل ہیں
تاہم
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی و تجارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 2012 میں ہاآرٹس اخبار ہی کی ایک رپورٹ میں برطانیہ ڈیپارٹمنٹ آف بزنس کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کو دفاعی ساز و سامان برآمد کر رہا ہے، جس میں الیکٹرک وار فیئر سسٹم بھی شامل ہے
اخبار ہاآرٹس نے پاکستانی اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر اور تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2012 میں سندھ پولیس نے یو ایف ای ڈی ٹچ الٹی میٹ ڈیوائسز خریدی تھیں، جو اسرائیلی کمپنی سیلیبرٹ کی تیار کردہ تھیں
اسرائیل میں سائبر ٹیکنالوجی سے متعلق پراڈکٹس کی برآمدات وزارتِ دفاع کے تحت آتی ہے۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع نے اس خبر پر کوئی بیان نہیں دیا ہے
اسرائیل کے ایک بڑے اخبار ہاریٹز میں شائع ہونے والی اس خبر پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہیکنگ سے متعلق ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، اور پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق ایسی ٹیکنالوجی دنیا میں کہیں بھی حاصل کر سکتا ہے
خواجہ آصف نے کہا ’اس قسم کی ٹیکنالوجی بین الاقوامی مارکیٹ دستیاب ہے۔ یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی ٹیکنالوجی ہے تو پاکستان کو کہیں دور جا کر لینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی یا انگلینڈ یا چین کی، یہ ساری ٹیکنالوجیز دستیاب ہیں۔‘
وزیر دفاع نے کہا ”یہ کہنا کہ اسرائیل کی ٹیکنالوجی ہم نے لی ہے، جو بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہوگا یا جو بھی بہترین پروڈکٹ دستیاب ہے، وہ ہماری سکیورٹی ایجنسیاں لے رہی ہیں، اور یہ کسی ایک ملک یا ایک سورس سے نہیں لی جا رہی ہے۔ جو بھی ٹیکنالوجی بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہے وہ ہم وہاں سے لیتے ہیں اور اس کا اویجن کوئی بھی ہوسکتا ہے“
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ سے اس بارے میں ردعمل جاننے جمعرات کو متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن تاحال ادارے کی جانب سے کوئی جواب یا ردعمل موصول نہیں ہوا
اگرچہ ’ایف آئی اے‘ اسرائیلی اخبار میں سامنے آنے والی معلومات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی لیکن خود ’ایف آئی اے‘ کی ویب سائٹ پر جدید آلات خریدنے سے متعلق 26 اگست 2021 میں جو ٹینڈر نوٹس جاری کیا اس میں اسرائیلی کمپنی کے سیلیبرائیٹ کے ایک سافٹ ویئر کی مانگ بھی کی گئی تھی۔
سیلیبرائٹ کے سافٹ ویئر کے پاکستان میں استعمال کے بارے میں پاکستانی ایف آئی اے کے سابق چیف سائبر سکیورٹی آفیسر ڈاکٹر فاتح الدین کا کہنا ہے ”سیلیبرائٹ کا سافٹ ویئر پاکستان بھر کے سکیورٹی ادارے عام استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کی کوئی انٹیلیجنس ایجنسی، پاکستان کا کوئی لا انفورسمنٹ ادارہ، پاکستان کا کوئی ملٹری ادارہ، آپ نام لے لیں، میں آپ کو بتا دوں گا کہ ان کے پاس سیلیبرائٹ موجود ہے“
ڈاکٹر فاتح کی بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دفاعی ساز و سامان کی نمائش آئیڈیاز 2020 کے تحت نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کی جانب سے شائع کردہ بروشر میں سیلیبرائٹ کی ایک پراڈکٹ کا بھی ذکر ہے
اس بروشر کے صفحہ 17 پر سیلیبرائٹ یو ایف ای ڈی ٹچ 2 کا اشتہار موجود ہے، جس کی ذیل میں لکھا ہے کہ یہ ففتھ جنریشن موبائل فورینزک ڈیوائس ہے، جو ایجنسیوں کو جرائم کے جلد حل میں مدد دے سکتی ہے
ڈاکٹر فاتح نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں موبائل فورینزک کے جو دو سافٹ ویئر سب سے مقبول ہیں، ان میں سے ایک سیلیبرائٹ کا تیار کردہ ہے، جب کہ دوسرا سویڈن کی کمپنی ’ایکس وائی زیڈ‘ بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا، جہاں یہ ٹولز استعمال نہ ہو رہی ہوں
دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا کہ نگرانی کے لیے کسی بھی طرح کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی نا صرف کڑی جانچ ضرورت ہے بلکہ اس بارے میں عوامی سطح پر مباحثے پر ایک لائح عمل بنانے کی بھی ضرورت ہے
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کی ترجمان ماہین پراچہ کہتی ہیں ”ایچ آر سی پی کے پاس ایسی رپورٹس کی تصدیق کا تو کوئی ذریعہ نہیں کہ پاکستان کسی غیر ملکی حکومت سے نگرانی یا ہیکنگ کا کوئی ٹول حاصل کر رہا ہے“
ترجمان کا کہنا تھا کہ نگرانی یا ہیکنگ کی ایسی کارروائیاں چاہے مجرمانہ تحقیقات ہی کے لیے استعمال کیوں نہ ہوں، وہ لوگوں کی پرائیوسی اور ان کے ڈجیٹل رائٹس کے لیے سنگین خطرے کی عکاسی کرتی ہیں
انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں کے دائرِ کار اور ان کے مضمرات کی کڑی نگرانی کے طریقہ کار سے متعلق عوامی سطح پر بحث کی ضرورت ہے
سائبر قوانین کے ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق کا کہنا ہے کہ قانون میں اجازت دی گئی ہے کہ ’ریاست کے دشمن‘ کا فون ہیک بھی کیا جا سکتا ہے اور ٹیپ بھی کیا جا سکتا ہے
سائبر قوانین کے ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر شعیب رزاق سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس کی تشریح کیسے کی جائے گی کہ ’ریاست کا دشمن کون ہے اور کس کس کو اس کی اجازت کی اجازت حاصل ہے‘ تو انہوں نے اس جواب میں کہا ”قانون میں یہی تو سقم ہے کہ اس کی وضاحت موجود نہیں ہے کہ ریاست کا دشمن کون ہے، اور حکومت کے ذیلی ادارے بھی اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔“
سیلیبرائٹ کیا ہے اور کام کیسے کرتا ہے؟
اس بارے میں فاتح الدین کے مطابق سیلیبرائٹ پرائیویٹ اسرائیلی کمپنی ہے، جس کا سافٹ ویئر بنیادی طور پر موبائل فورینزک یا موبائل سے ڈیٹا نکالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی اور ادارے کے پاس کوئی ایسا موبائل فون آتا ہے جو پاس ورڈ کے ذریعے لاک ہے تو وہ ادارہ سیلیبرائٹ کی مدد سے اسے بڑی آسانی سے کھول سکتا ہے
فاتح الدین نے کہا کہ ادارہ لاکڈ فون کو یو ایس بی کیبل کی مدد سے کمپیوٹر سے کنیکٹ کرتا ہے اور پھر فون کے اندر موجود تمام ڈیٹا، بشمول کال ریکارڈ، میسجز، تصاویر وغیرہ تک سافٹ ویئر کی رسائی ہو جاتی ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیلیبرائٹ کی اپنی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق سیلیبرائٹ کی پاکستان سمیت ایران، عراق، صومالیہ، شام، شمالی کوریا، اور وینزویلا وغیرہ کو فروخت منع ہے
پاکستان میں سیلیبرائٹ کی ویب سائٹ تک بھی رسائی نہیں ہے، تو پھر سیلیبرائٹ پاکستان میں کیسے عام استعمال ہو رہا ہے؟
اس کے جواب میں فاتح الدین نے وضاحت کی کہ سیلیبرائٹ سافٹ ویئر دوسرے ملکوں میں تھرڈ پارٹیز اور ڈسٹری بیوٹرز کو فروخت کرتا ہے، اور وہاں سے کسی بھی ملک کے ادارے اسے خرید سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سافٹ ویئر کی قیمت پانچ سے دس ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سارے ادارے جب منافعے کی خاطر کام کرتے ہیں تو یہ سارے ادارے کوئی زیادہ قانونی کارروائیاں نہیں کرتے اور بہت زیادہ تصدیق نہیں کی جاتی۔ ’اگر وہ ویری فیکیشن کے چکر میں پڑ جائیں تو پھر تو ان کا دھندا ہو گیا۔‘
خبررساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلیبرائٹ کمپنی کی مالیت 2.4 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
پیگاسس کیا چیز ہے؟
پیگاسس بھی اسرائیل ہی کی ایک کمپنی این ایس او بناتی ہے۔ فاتح الدین کے مطابق پیگاسس سیلیبرائٹ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ سیلیبرائٹ کے لیے کسی کا فون موجود ہونا ضروری ہے، مگر پیگاسس ہیکنگ ٹول ہے اور یہ ’زیرو کلک‘ کے ذریعے فون میں انسٹال کر کے اس فون کو ہیک کر لیتا ہے اور اس کے اندر موجود معلومات فون کے مالک کے علم کے بغیر ہیکر کو خفیہ طریقے سے بھیج دیتا ہے۔
دو سال قبل سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا فون پیگاسس سافٹ ویئر کی مدد سے ہیک ہونے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ جولائی 2021 میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کروائے کہ انڈیا نے عمران خان کا فون ہیک کیا ہے۔
اس سے قبل 20 جولائی 2021 کو انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پیگاسس کی مدد سے متعدد سمارٹ فون ہیک کیے گئے ہیں جن میں عمران خان کے زیرِ استعمال ایک نمبر بھی شامل تھا۔
ڈاکٹر فاتح نے کہا کہ ’پیگاسس کی خوبصورتی یا خطرناکی یہ ہے کہ یہ ’زیرو کلک‘ ہے، یعنی باقی جتنے بھی ٹولز ہیں ان میں یوزر کو کوئی لنک بھیجا یا کوئی فائل بھیجی اور اس یوزر نے اسے کھولنا ہے، اور یوزر کے کھولنے پروہ ایکٹی ویٹ اور انسٹال ہو گا اور اس کے بعد وہ کام کرے گا۔
فاتح الدین کے مطابق ”پیگاسس انتہائی مہنگا سافٹ ویئر ہے سیلیبرائٹ سے کئی گنا مہنگا۔ ’ہم ملینز آف ڈالرز کی بات کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ پیگاسس آپ کو پورا سافٹ ویئر نہیں دیتا بلکہ اس کی ریموٹ ایکسس دیتا ہے“