مبارک قاضی: ایک منفرد شاعر کے سفرِ حیات کی مختصر روداد

ویب ڈیسک

بلوچستان کے منفرد اور معروف رومانی و مزاحمتی شاعر مبارک قاضی اڑسٹھ سال کی عمر میں 16 ستمبر کو تربت میں انتقال کر گئے۔ انہیں ان کے آبائی علاقے پسنی میں سپرد خاک کیا گیا

تربت کے ادیب اور لکھاری مقبول ناصر کہتے ہیں ”مبارک قاضی نے بلوچی زبان کو اپنی شاعری کے ذریعے گھر گھر تک پہنچایا۔ شاید کسی اور شاعر نے ایسا کام نہیں کیا۔ انہوں نے نئی نسل کو بلوچی زبان، بلوچ ثقافت اور سیاست کے ساتھ شاعری کے ذریعے جوڑے رکھا۔ ان کی شاعری کو بلوچ قومی تحریک کا ترجمان بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں بلوچستان کی سیاسی صورت حال، ہر قسم اور ہر رنگ موضوعات ملتے ہیں۔“

انہوں نے کہا ”مبارک کی شاعری عام فہم اور ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ ان کی شاعری اور مصرعے گھروں اور محافل میں بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں“

مقبول ناصر بتاتے ہیں ”مبارک قاضی کو 1980 کی دہائی میں سیاسی بنیادوں پر گرفتار کر کے مچھ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ وہ متواتر ادبی اور سیاسی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔‘

مبارک قاضی جنہیں بلوچی ادب میں محبت سے ابا قاضی کا لقب دیا گیا تھا، بلوچی شاعری کی دنیا میں ایک الگ شناخت رکھتے تھے

مبارک قاضی کے بارے میں بلوچی زبان کے رسالے سچکان میں اکرم صاحب خان ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مبارک 24 دسمبر، 1955 کو پسنی کے ایک مذہبی گھرانے میں (کہدہ امان اللہ کے گھر)؛پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم پسنی ہائی اسکول میں مکمل کی ہے۔ 1972ء میں میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سندھ مسلم کالج (ایس ایم کالج) کراچی چلے گئے۔ لیکن مالی مسائل نے ان کی تعلیم کو متاثر کیا۔ لہٰذا انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور اپنے خاندانی کاروبار میں شامل ہونے کے لئے اپنے علاقے میں واپس آ گئے۔

اکرم صاحب خان کے مطابق ”وہ چھ مہینے تک محکمہ ماہی گیری میں لیبارٹری اسسٹنٹ رہے۔ 1978 میں مبارک نے دوبارہ پڑھنے کا ارادہ کیا اور کراچی چلے گئے۔ وہاں سے انٹر کرنے کے بعد بی اے کرنے کے لیے اردو آرٹس کالج میں داخلہ لیا

”1983 میں بی اے کرنے کے بعد 1984 میں کوئٹہ کا رخ کیا اور بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یوں 1986 میں ایم اے آئی آر کیا“

اب تک مبارک قاضی کی دس کے قریب بلوچی شاعری کی کتابیں شائع ہوئی ہیں، جبکہ کچھ اشاعت کے مرحلے میں ہیں، جن میں درج ذیل کتب شامل ہیں: زرنوشت ، شاگ ماں سبزیں ساوڈء ، منی عہدءِ غمءِ قصہ ، حانی منی ماتیں وطن ، چولاں دریا یل داتگ ، مرگ پہ کدوہاں رپتگاں ، جنگل چنچو زیبا اِنت ، آپ سماکءَ جتگ ، گسءَ واتر کنگ لوٹاں ، شکلیں جورانی برورد

انہیں انقلابی شاعری کرنے پر قید کا سامنا رہا۔ جبکہ ان پر اور ان کے گھر پر قاتلانہ حملے اور بم دھماکے بھی ہوئے تھے

مبارک قاضی کی شاعری کو بلوچستان کے بلوچی زبان کے اکثر گلوکاروں نے بھی گایا ہے، جن میں مشہور گلوکار نورخان بزنجو، نصیراحمد، عارف جان اور استاد رسول بخش فرید شامل ہیں

مقبول ناصر نے بتایا کہ مبارک کی زندگی میں ایک اہم موڑ وہ تھا، جب ان کے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر کمبر قاضی کی پراسرار موت ہوئی۔ ”پہلے یہ خبر آئی کہ کمبر حادثاتی طور پر گولی لگنے سے چل بسے، پھر کہا گیا کہ انہیں اپنے ہی ساتھیوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اس خبر اور بیٹے کی موت نے مبارک کو بہت زیادہ متاثر کیا“

مقبول کے مطابق ”کمبر کی موت کے بعد لگتا تھا کہ مبارک قاضی ٹوٹ چکے ہیں۔ کبھی لگتا کہ وہ اپنے شعور کے دائروں سے ہٹ رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس واقعے نے قاضی اور ان کی خاندان کو بہت صدمہ پہنچایا“

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ براہوی کے پروفیسر اور شاعر منظور بلوچ کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں بلوچی زبان میں شاعری کرنے والے مبارک قاضی کو جتنی عزت اور پذیرائی ملی شاید ہی کسی کو ملی ہو، بے باک اور دھڑلے سے شاعری کرنے والے ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔

منظور بلوچ کہتے ہیں ”وہ نہ صرف شاعری کے ذریعے مزاحمت کرتے تھے، بلکہ عملی زندگی میں بھی شامل رہتے تھے، جو ہم نے بہت کم شاعروں میں دیکھا۔ وہ جس حالت میں رہتے تھے، وہی دکھاتے تھے اور اشرافیہ کے طرز عمل کو چیلنج کرتے تھے“

منظور بلوچ کے مطابق، ان کی شہرت کی ایک وجہ ان کی عام فہم شاعری اور آسان الفاظ کا استعمال بھی ہے۔

انہوں نے کہا ”مکران میں حالات کو تبدیل کرنے میں مبارک قاضی کی شاعری کا کردار بہت مختلف ہے، یہ وہ شاعر تھے، جن کو اپنی پہچان نہیں کرانی پڑتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ محفل میں آتے تھے اور ان کو جتنی پذیرائی ملتی تھی، وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی“

منظور بلوچ نے بتایا ”حالیہ دنوں میں بلوچستان اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کونسل سیشن کے دوران میں نے دیکھا کہ پورا حال مبارک کے استقبال میں کھڑا ہو گیا، جس کی وجہ نوجوانوں سے ان کی محبت بھی تھی“

منظور بلوچ کہتے ہیں ”مبارک ایسے شاعر تھے، جو ہر جگہ بیٹھ جاتے تھے، جس حالت میں ہوتے تھے اس کی پروا نہیں کرتے تھے، ملنگ آدمی تھے۔ جو کچھ کرتے تھے سرِ عام کرتے تھے، یہی چیز ان کو دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتی ہے“

ذیل میں ہم قارئین کے لیے مبارک قاضی کی ایک غزل پیش کر رہے ہیں:

پھول پرندے بادل خوشبو کچھ بھی نہیں،
کچھ بھی نہیں سیلاب نہ آنسو کچھ بھی نہیں

جس کا جو بھی جی چاہے قانون وہی،
نہ پیمانہ کوئی ترازو کچھ بھی نہیں

میں اک ایسے پریم نگر آ پہنچا ہوں،
بوجھل پلکیں بکھرے گیسو کچھ بھی نہیں

میں نے اپنے اندر جھانکا تو دیکھا،
چاروں سو سب کچھ ہے ہر سو کچھ بھی نہیں

کوہ قاف سے آئی ہے وہ شہزادی،
اس پہ چلے گا سحر نہ جادو کچھ بھی نہیں

ان بوسیدہ ہڈیوں میں کیا رکھا ہے،
عمر رواں نہ زورِ بازو کچھ بھی نہیں۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close