سیارچے کا زمین سے ممکنہ ٹکراؤ: سیارچے سے مٹی کا سب سے بڑا سیمپل لے کر ناسا کے خلائی کیپسول کی زمین پر واپسی

ویب ڈیسک

ناسا کا ایک خلائی کیپسول روبوٹک اسپیس کرافٹ OSIRIS-Rex خلا سے ایک سیارچے کی مٹی کا اب تک کا سب سے بڑا سیمپل لے کر واپس زمین پر پہنچ گیا ہے۔ اس خلائی کیپسول نے اتوار کو امریکی ریاست یوٹاہ کے صحرا میں اتر کر سائنسدانوں تک سیارے کی مٹی کا سیمپل پہنچایا

واضح رہے کہ اس سیارچے کے بارے میں خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بائیس ایٹم بموں جتنا طاقت ور ہے اور یہ یہ ہماری زمین سے اگلی صدی میں ٹکرا سکتا ہے۔ سائنسدانوں کی جانب سے اس شہابیے کو ’نظام شمسی کی سب سے خطرناک چٹان‘ قرار دیا جارہا ہے

زمین پر لینڈ کرنے کے بعد اسے ڈگ وے فوجی اڈے پر پہنچا دیا گیا، جہاں اس کے مواد کا جائزہ لیا جائے گا اور پھر یہ نمونے آج ہیوسٹن میں ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر کی ایک نئی لیب میں بھیجے جائیں گے

روبوٹک اسپیس کرافٹ OSIRIS-REx نے اپنا نمونہ تین برس قبل بینو سے اکٹھا کیا تھا۔ بینو ایک چھوٹا اور کاربن سے بھرپور سیارہ ہے، جو 1999 میں دریافت ہوا تھا

اس خلائی چٹان کی ’زمین کے قریب ترین چیز‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے کیونکہ یہ ہر چھ سال بعد ہمارے سیارے کے نسبتاً قریب سے گزرتا ہے

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بینو سے جمع ہونے والا نمونے سے یہ معلوم کرنا آسان ہوگا کہ ہماری دنیا میں زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔

سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اس کیپسول میں ایک کپ جتنا نمونہ ہو سکتا ہے جو ناسا کی ٹیسٹ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس سے قبل جاپان وہ پہلا ملک تھا جس نے شہابیے سے نمونہ جمع کیا تھا جو تقریباً ایک چمچ کے برابر تھا

سائنسدان یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان نمونوں سے 4.5 ارب سال پہلے سیاروں کی تشکیل کے بارے میں نئی معلومات ملیں گی۔

سائنسدانوں کو بینو میں اس لیے دلچسپی ہے کیونکہ سال 2060 میں اس کے زمین کے نزدیک سے گزرنے کا امکان ہے جس سے سائنسدانوں کو مزید رازوں کو جاننے کا موقع مل سکے گا۔

سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بینو سے جمع ہونے والا نمونے سے یہ معلوم کرنا آسان ہوگا کہ ہماری دنیا میں زندگی کا آغاز کیسے ہوا

سیارے کا نمونہ زمین پر پہنچنے کے بعد وہ مشن مکمل ہے جس میں سات سال لگ گئے۔ خلائی جہاز نے سیارے تک پہنچنے کے لیے چار ارب میل کا سفر کیا۔ اس خلائی مشن پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی

سیارچے کے ان ٹکڑوں سے پتہ چل سکتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے۔ سائنسدان اس مواد کا تجزیہ کرنے کے لیے کام شروع کریں گے، اس امید میں کہ پتہ لگایا جا سکے کہ سیارے کیسے بنتے ہیں اور اپنے ماضی بعید میں ہمارا نظام شمسی کیسا تھا

ناسا نے 2016ع میں اپنا اوسائرس ریکس خلائی جہاز بینو پر بھیجا۔ وہ 2020 میں دور افتادہ سیارچے پر اترا اور اس کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ حاصل کیا

یہ امریکی خلائی ایجنسی کا کسی سیارچے سے نمونہ جمع کرنے کا پہلا مشن ہے۔ یہ زمین پر پہنچنے والا کسی سیارچے کا اب تک کا سب سے بڑا نمونہ ہے

ایک اندازے کے مطابق نمونے لانے والے کیپسول میں سیارچے کی سطح سے لی گئی تقریباً ڈھائی سو گرام چٹانیں اور دھول موجود ہے

ناسا 35 سے زیادہ عالمی اداروں کے دو سو سے زیادہ افراد کے ایک گروپ کو نمونے کا ایک چوتھائی حصہ فراہم کرے گا۔ ان لوگوں میں مانچسٹر یونیورسٹی اور نیچرل ہسٹری میوزیم کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم بھی شامل ہے

سیارچہ بینو ہمارے ابتدائی نظام شمسی کی ساڑھے چار ارب سال پرانی باقیات ہیں۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ سیاروں کی تشکیل اور ارتقا پر روشنی ڈالنے میں مدد دے سکتا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن سے مالا مال اور زمین کے قریب موجود سیارچہ نظام شمسی کی ابتدائی ترین تاریخ کے لیے ٹائم کیپسول کا کام کرتا ہے

توقع کی جاتی ہے کہ یہ نمونہ اہم سراغ فراہم کرے گا جو ہمیں اس نامیاتی مادوں اور پانی کے اصل کو سمجھنے میں مدد دے سکتا، جو ہو سکتا ہے کہ زمین پر زندگی کا سبب بنے ہوں

چوں کہ نمونہ براہ راست سیارچے سے لیا گیا ہے اس لیے اس میں تقریباً صفر آلودگی ہوگی

زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب ہماری فضا میں داخل ہونے کے بعد ایک لمحے میں آلودہ ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بینو ہمیں ماضی کی صاف جھلک فراہم کر سکتا ہے

نیچرل ہسٹری میوزیم میں یو کے آر آئی کے فیوچر لیڈرز فیلو ایشلی کنگ کا کہنا ہے کہ اوسائرس ریکس نے دو سال سے زیادہ عرصے تک سیارچے بینو کا مطالعہ کیا اور پانی کی وجہ سے کیمیائی طور پر تبدیل ہونے والے نامیاتی مادوں اور معدنیات کے شواہد تلاش کیے

انہوں نے کہا ”یہ زمین جیسے سیاروں کی تشکیل کو سمجھنے کے لیے اہم اجزا ہیں۔ اس لیے ہم بینو سے آنے والے نمونوں کا مطالعہ کرنے والے پہلے محققین میں شامل ہونے پر خوش ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بینو کے نمونے حال ہی میں ونچ کم میں گرنے والے شہاب ثاقب سے ملتے جلتے ہوسکتے ہیں لیکن وہ زمینی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی سے زیادہ تر پاک اور زیادہ قدیم ہوں گے“

یونیورسٹی آف مانچسٹر کے شعبہ ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کی ریسرچ فیلو ڈاکٹر سارہ کروتھر کا کہنا تھا ”دنیا بھر کے چند بہترین سائنس دانوں کے ساتھ کام کرنے والی اوسائرس ریکس سیمپل اینالسس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے منتخب ہونا اعزاز کی بات ہے۔ ہم آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں نمونے حاصل کرنے، ان کا تجزیہ شروع کرنے اور یہ دیکھنے کے لیے پرجوش ہیں کہ سیارچہ بینو میں کیا راز پوشیدہ ہیں۔ ہماری بہت ساری تحقیق شہاب ثاقب پر مرکوز ہے اور ہم اس سے نظام شمسی کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں“

لیکن شہاب ثاقب زمین کی فضا سے گزرتے ہوئے گرم ہو جاتے ہیں۔ وہ کئی سال تک زمین پر موجود ہو سکتے ہیں۔ اس لیے مقامی ماحول اور موسم ان کی ساخت اور تاریخ کے بارے میں اہم معلومات کو بدل بلکہ مٹا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا ”اوسائرس ریکس جیسے نمونے ارسال کرنے والے مشن انتہائی اہم ہیں کیوں کہ ان کے بھیجے گئے نمونے قدیم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ کس سیارچے سے آئے ہیں اور اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ وہ کبھی (زمین کی) فضا میں نہیں آئے ہوں گے اس لیے اہم معلومات محفوظ ہیں“

خلائی جہاز آٹھ ستمبر 2016 کو خلا میں بھیجا گیا اور وہ دسمبر 2018 میں بینو پر پہنچا۔

تقریبا دو سال تک سیارچے کے نقشے تیار کرنے کے بعد اس نے 20 اکتوبر 2020 کو اس کی سطح سے ایک نمونہ حاصل کیا۔

یونیورسٹی آف واروک کے شعبہ طبیعیات کے ماہر فلکیات پروفیسر بورس گینسک کے مطابق: ’ہمارے نظام شمسی میں موجود سیارچوں میں وہ خام بلڈنگ بلاکس موجود ہیں جن سے زمین بنی۔ لہٰذا ان کی ساخت پر کام کرنے سے ہمیں بہت کچھ معلوم ہوگا کہ ہمارا سیارہ کیسے وجود میں آیا

انہوں نے کہا ”بہت سے کھلے سوالات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر زمین پر ہمارے پاس جو پانی ہے وہ کہاں سے آیا؟ اور وہ اجزا جنہوں نے زندگی کا ارتقا ممکن بنایا وہ کہاں سے آئے؟ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے یعنی کسی سیارچے کی ساخت کا تجزیہ کرنے کی خاطر آپ کو انہیں ’ہاتھ‘ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وہ کامیابی ہے جو اوسائرس ریکس نے حاصل کی ہے۔ مختصریہ کہ یہ کام رات کے لذیز کھانے کے سامنے بیٹھنے اور اس کے اجزا کی فہرست حاصل کرنے کی خواہش کرنے کے مترادف ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close