گلوبل وارمنگ سے بارشوں کے پیٹرن میں کیسے اور کیا تبدیلی آئی ہے؟

ویب ڈیسک

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے مشین لرننگ ماڈل کی مدد سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے اخراج اور گلوبل وارمنگ کے باعث سن 2015 کے بعد دنیا کے مختلف خِطوں میں بارشوں کی سالانہ اور ماہانہ اوسط کے ساتھ مقدار پر بھی گہرا اثر پڑا ہے

یہ تحقیق نیچر سائنس جرنل کے آن لائن جریدے میں شائع ہوئی ہے، جس کی سرکردگی چونم نیشنل یونیورسٹی آف چائنہ سے وابستہ یوجیون ہام اور پوہانگ یونیورسٹی کے پروفیسر سیونگ کیمن نے کی ہے۔ جبکہ یونیورسٹی آف ہوائی کے دو محققین نے بھی اس تحقیق میں معاونت کی ہے

پروفیسر یو جیون ہام کا کہنا ہے کہ روزانہ بارش کے تغیّر میں شدت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں شدید بارش کے واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے

وہ بتاتے ہیں ”اس کے ساتھ ہی موسمِ گرما کے دوران ہیٹ ویوز کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے، جس سے بہت سے خطے خشک سالی کا شکار ہیں۔ جس تیزی سے عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے موسم گرما میں ہیٹ ویوز، شدید بارشوں اور طوفانوں کی شرح مزید بڑھے گی۔“

پروفیسر یو جیون ہام کے مطابق ان کی ٹیم نے تحقیق کے لیے ایک بڑے کلائیمیٹ ماڈل کو ڈیپ لرننگ الگورتھم کے ساتھ منسلک کیا، تاکہ روزانہ بارش میں تغیّرات کا گلوبل وارمنگ سے تعلق معلوم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سن 2015 کے بعد دنیا بھر میں ہونے والی بارشوں سے متعلق سٹیلائٹ ڈیٹا حاصل کیا

پروفیسرجیون ہام بتاتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق سن 2015ع سے سال کے پچاس فی صد دنوں (یعنی 185 دن) میں روزانہ ہونے والی بارشوں میں واضح تغیّرات آئے ہیں۔ ان تغیّرات کا تعلق انسانی سرگرمیوں سے ہے، جن میں کاربن کا بڑھتا ہوا اخراج سرِ فہرست ہے

جیون ہام کے مطابق، عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سےخطِ استوا کے قریب واقع علاقوں اور ٹراپیکل ریجن میں شدید بارشیں اب معمول بن گئی ہیں۔ یہاں بہت کم دن ایسے ہوتے ہیں، جب بارش نہ ہو۔ موسم میں اس بڑے تغیّر سے ان علاقوں میں طوفانی بارشیں اور سیلاب کی شرح بڑھ گئی ہے اور ایکو سسٹمز میں غیر معمولی تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح جنوب مشرقی پیسیفک ریجن میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم شدید خشک ہوتا جا رہا ہے، جس سے ہیٹ ویوز، جنگلات کی آگ اور خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے

پروفیسر جیون ہام کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کاربن کے اخراج کو فوری طور پر کم کرنے کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر بارشوں سے متعلق علاقائی ڈیٹا مانیٹر کیا جانا چاہیے

ان کے مطابق، اس طرح مزید تحقیق کے لیے مقامی ڈیٹا باآسانی دستیاب ہوگا، جس سے پتا لگایا جا سکے گا کہ کسی مخصوص علاقے میں بارشوں کی کمی یا زیادتی کا تعلق گلوبل وارمنگ سے ہے یا اس کی دیگر اینتھروپولوجیکل وجوہات ہیں

یہ نئی تحقیق اپنے پس منظر اور نوعیت کی وجہ سے کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے

ارضیاتی اور موسمیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا بھر میں کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کی اوسط میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف جہاں، بہت سے خِطوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں، تو وہیں دوسری جانب بارشوں کی قلت سے بہت سے علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہیں

نیچر جرنل میں شائع ہونے والے حالیہ ریسرچ پیپر سے پہلے بھی اس موضوع پر کافی تحقیق کی گئی ہے، لیکن ان شماریاتی ماڈلز میں محض سالانہ اور ماہانہ بارشوں کی اوسط سے متعلق اعداد و شمار بیان کیے گئے تھے، جن میں علاقائی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق معلومات کی کمی تھی

حالیہ تحقیق میں معاونت کرنے والے یونیورسٹی آف ہوائی کے سائنسدانوں کے مطابق اس سے پہلے روزانہ بارشوں میں ہونے والے تغیّرات کو جانچنے کے لیے تحقیق میں دو مسائل رکاوٹ بنتے تھے

پہلا مسئلہ یہ تھا کہ روزانہ کی بارشوں میں بہت سے مقامی عوامل کا دخل بھی ہوتا ہے، جیسے ہوا میں نمی یا ہوا کا دباؤ وغیرہ۔ ان عوامل سے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا ان پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ جبکہ مزید تحقیق میں دوسرا امر یہ کہ روایتی تحقیقی ماڈلز بارشوں میں ہونے والے بڑے تغیّرات سے متعلق مکمل اعداد و شمار فراہم کرنے سے قاصر تھے

محققین کا کہنا ہے کہ ان مسائل کو نئی تحقیق میں ڈیپ لرننگ ماڈل کی مدد سے دور کیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close