تضاد (ایرانی ادب سے منتخب افسانہ)

جمال میرصادقی (مترجم: ڈاکٹر بصیرہ عنبرین)

جیسے ہی وہ دفتر میں داخل ہوا، سپرنٹنڈنٹ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور ایک کرسی کو ہیٹر کے قریب کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’واہ جناب، حاجی صاحب! کہاں رہ گئے تھے؟“

توے جیسی سیاہ رنگت کا حامل یہ شخص پچاس ساٹھ برس کی عمر کا تھا۔ اس کی صحت اچھی تھی اور وہ کسی قدر فربہ بھی تھا۔ اس نے سیاہ رنگ ہی کی گرم ٹوپی اوڑھ رکھی تھی اور گردن کے گرد مفلر بھی لپیٹے ہوئے تھا۔ وہ برف کے ننھے ننھے گالوں کو اپنے کوٹ پر سے جھاڑتے ہوئے ہیٹر کے نزدیک آن بیٹھا۔ پھر اس نے بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے اطراف میں بیٹھے اساتذہ کی طرف دیکھا اور تعظیماً سر ہلانے لگا۔

اسکول کے دفتر کا یہ کمرہ خاصا کشادہ تھا۔ اس میں دور تک کرسیاں ترتیب دی گئی تھیں۔ تمام استاد ان پر براجمان سگار پینے اور اونچی آواز میں گپ شپ کرنے میں مصروف تھے۔ جب بھی دفتر کا بیرونی دروازہ کھلتا، برامدوں سے اسکول کے بچوں کا شور شرابا سنائی دیتا اور سردی کی شدید لہر سے دفتر کا کمرہ ٹھنڈک سے بھر جاتا۔ نووارد شخص بولا:
’’برف باری نے خاصی خنکی بڑھا دی ہے۔ اس برس سردی پچھلی سردیوں سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘

مارے سردی کے وہ ہاتھ رگڑنے لگا اور پھر چمکتی ہوئی آنکھوں سے کھڑکی کے باہر نظر ڈالی۔ برف باری بدستور جاری تھی۔ برف کے سفید گالوں نے کھڑکی کے سامنے ایک پردہ سا تان دیا تھا۔
’’میں شرطیہ کہتا ہوں کہ برف باری ضرور تھم جائے گی۔ بہرحال اللہ کی رحمت ہوگی، واللہ۔‘‘

وہ سردی کے مارے ہاتھ رگڑنے لگا۔ پھر قدرے خوش ہو کر کھڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے متعلقہ افسر سے پوچھنے لگا، ’’پرنسپل صاحب ابھی تشریف نہیں لائے؟‘‘

سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا، ’’نزدیک ہی کہیں گئے ہیں۔ آتے ہی ہوں گے۔‘‘ پھر ایک کرسی کھینچ کر اس شخص کے قریب بیٹھ گیا اور بات بڑھاتے ہوئے کہنے لگا، ’’حاجی صاحب! کل آپ تشریف ہی نہیں لائے۔ سب لوگ آپ کا انتظار کرتے رہے۔ ہمارے استاد ہوں یا ہمارا اسکول، آپ کے بغیر سب کچھ ادھورا ہے۔‘‘

جواباً اس نے انپے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے احتراماً سر جھکا کر کہا، ’’عنایت ہے آپ کی! بس میری قسمت میں نہ تھا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا___‘‘

افسر نے اپنا سر آگے سرکاتے ہوئے کہا، ’’پرنسپل صاحب نے آپ کے تجارتی مرکز پر بھی فون کیا تھا لیکن آپ وہاں بھی تشریف نہیں رکھتے تھے۔‘‘

’’بس جی! میں نے کہا تھا نا ،کہ قسمت میں نہ تھا۔ سردی کا موسم بے شمار مسائل لے کر آتا ہے۔ گرم کپڑے لا رہے ہیں، بچوں کو پہنا رہے ہیں۔ ان کے سر پر ٹوپی تک خود پہنانی پڑتی ہے۔ لڑکے تو اسے اپنی ذمّے داری ہی نہیں سمجھتے۔‘‘
اس نے اپنا ہاتھ ہیٹر پر سینکتے ہوئے مزید کہا:
’’—–لیکن پھر بھی دیکھ لیجیے حضرت! ہم خود آپ کی خدمت میں پہنچ گئے___‘‘
پھر اس نے اپنا گلا صاف کیا اور قدرے دھیمی آواز میں افسر سے کہنے لگا:
’’میرا بیٹا بتا رہا تھا کہ ابھی تک اسے کلاس میں نہیں بٹھایا گیا—–‘‘

افسر ہنس دیا اور جواباً اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا،
’’حاجی صاحب! عجیب بچہ ہے، خدا اسے نظرِ بد سے بچائے۔ یہ صرف ایک ہی پوری کلاس کو درھم برھم کرنے کے لیے کافی ہے اور اس کی پڑھائی کا بھی کوئی حال نہیں ہے۔ تمام استادوں کو اس نے تنگ کر رکھا ہے۔‘‘

’’انھیں حق حاصل ہے کہ وہ اس سے تنگ پڑیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب۔۔ بلاشبہ انھیں یہ حق ہے۔ یہ بچہ بہت شیطان ہے۔ خدا اسے غارت کرے۔ نہ جانے یہ کب اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرے اور میں سکھ کا سانس لوں گا۔ جناب! مہربانی فرما کر اسے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دے دیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سبق میں بھی پیچھے رہ جائے___‘‘

افسر ہنستے ہوئے دوبارہ کہنے لگا، ’’جی حاجی صاحب! آج میں خود اسے کلاس میں لے جاتا ہوں اور اساتذہ سے ملواتا ہوں۔ خدا کی قسم اگر آپ کا لحاظ نہ ہوتا تو اب تک میں آپ سے معذرت کر چکا ہوتا۔ حاجی صاحب! یہ بچہ بہت چلبلا ہے، سبق بھی ٹھیک طرح سے یاد نہیں کرتا، بس یہ اس کی خوش قسمتی یہی ہے کہ آپ اس کے والد ہیں___‘‘

اس شخص نے حسب سابق اپنے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے سر جھکا کر کہا، ”عنایت ہے آپ کی، مہربانی ہے جناب کی!‘‘

پھر وہ اونچی آواز میں کھنکارا اور اپنی ڈاڑھی کے گرد لپٹے رومال کو کھینچ کر اس سے تھوک صاف کیا۔ بعدازاں بتانے لگا: ’’گھر میں بھی سب اس سے تنگ ہیں۔ جناب! میں تو کہتا ہوں کہ زمانہ ہی خراب ہو گیا ہے۔ آج کل کے بچوں کا کوئی حال نہیں ہے۔ نہ استادوں کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی ماں باپ کی عزّت کرتے ہیں۔ میں جب اس ’بیٹ برابر‘ بچے کی عمر کا تھا تو قسم سے میری جرأت نہیں تھی کہ میں اپنے باپ کے سامنے کھانس بھی سکوں۔ چہ جائے کہ اس کی طرح دروازے پیٹوں یا پھر کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر کہوں کہ آخر میں نے کیا کیا ہے؟ یہ مجھ سے جتنے مرضی پیسے مانگے، کیا میں اسے نہ دوں گا___ جناب! ہمارے گھر کا ایک شیشہ بھی باقی نہیں بچا ہے۔ ان کا زمانہ ہی خراب ہے۔ خدا خوار کرے، یہ بچہ تو سب کے لیے باعث آزار بن چکا ہے۔ میں تو کہتا ہوں جناب عالی! اسے الٹا لٹکا دیں اور الٹا لٹکا کر سب کے سامنے اس کی پیٹھ پر جوتے ماریں۔‘‘

آفس کا دروازہ آہستگی سے کھلا اور ایک بار پھر بچوں کے غل غپاڑے کی صدا سنائی دینے لگی۔ افسر نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک کم زور جسامت کی نادار اور حقیر سی بڑھیا اندر داخل ہو رہی تھی۔ برف کے گالوں نے اس کی سیاہ چادر کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کا چہرہ بھیگ چکا تھا اور سفید بال ’چار قد‘ (معجر) سے جھلک رہے تھے۔ اس نے کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ بالآخر اس کی نگاہ سپرنٹنڈنٹ کے چہرے پر ٹک گئی۔۔۔۔ وہ کپکپاتی اور ملتجیانہ آواز میں گویا ہوئی:
’’سرکار۔۔۔۔۔! صرف اس مرتبہ اسے معاف کر دیں۔ اسے اسکول سے مت نکالیے۔‘‘

افسر نے عینک میں سے جھانکتے ہوئے بوڑھی عورت کی طرف دیکھا اور سرد مہری سے پوچھنے لگا، ’’کسے؟ کس کے بارے میں کہہ رہی ہو؟ امّاں‘‘

اسی اثنا میں اساتذہ میں سے ایک بولا: ’’ماں جی اندر آ جائیں، دروازہ بند کر دیں۔‘‘

اس کے شفیق لہجے نے عورت کی ہمّت بندھائی۔ اس نے دروازہ بند کیا اور چند قدم مزید آگے بڑھی۔ پھر اسی التجائیہ انداز میں کہنے لگی:
’’صفر علی گل باغی۔۔۔۔ کے بارے میں کہہ رہی ہوں، جناب! خدا آپ کی عمر دراز کرے۔ خدا آپ کا سایہ ہم غریبوں پر ہمیشہ سلامت رکھے۔‘‘

افسر نے کچھ دیر کے لیے سوچا اور پھر ناک بھوں چڑھاتے ہوئے بولا، ’’بڑھیا، تُو اس کی ماں ہے؟‘‘

عورت رونے لگی

افسر دوبارہ بدتمیزی سے بولا،
’’میں نے پوچھا ہے کہ تم اس کی ماں ہو؟‘‘

پریشان حال بڑھیا کی بجھی اور بیمار آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کہنے لگی، ’’ماں تم پر صدقے جائے۔ صاحب جی! آپ کو زہراؓ کی عصمت کا واسطہ، اسے سکول سے نہ نکالیں۔ یہ بن ماں کا بچہ ہے۔‘‘

’’تم جانتی ہو امّاں، تمہارے نواسے نے کیا کیا ہے؟ جانتی ہو۔۔۔۔۔۔؟ اس نے چوری کی ہے۔ اپنے ہم جماعتوں کے فائونٹین پن چرائے ہیں۔‘‘

بڑھیا رونے لگی اور آہ بھرتے ہوئے بولی، ’’پھر ایسا نہیں کرے گا۔ اس سے غلطی ہوگئی۔ آپ کے بغیر خاک چاٹتا پھرے گا۔ اسے کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا۔ آپ کو خدا کا واسطہ، اسے اسکول سے مت نکالیں۔ خدا اسے اٹھا لے۔ بھری جوانی میں موت آ جائے۔ ساری زندگی خاک چھانتا پھرے۔۔۔۔ سرکار! صرف اس مرتبہ—–‘‘

افسر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’یاد رکھو! اماں! آج چوری کی ہے، کل ڈاکے ڈالے گا۔ یہ بات جانتی ہو نا؟ اگر اب ہم اسے نہ روکیں گے تو کل یہ لوگوں کی دیواریں پھلانگے گا۔ سمجھ گئی ہو نا؟‘‘

اس کا چہرہ آنسوئوں سے بھیگ گیا، بولی، ’’خدا اسے برباد کرے۔ صاحب جی! اسے معاف کر دیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس نے ادھار لیے تھے، چرائے نہیں۔ ان چند دنوں سے جب سے آپ نے اسے سکول سے نکالا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی اور آواز ٹوٹنے لگی___

’’اللہ جانتا ہے، یہ مجھ سے روزانہ جیب خرچ لیتا ہے۔ شام کو جب گھر آتا ہے، تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ ہائے ہائے اب ہم اسے کہاں سے لا کر دیں۔ اس کا باپ گھر سے دور روزی روٹی کے لیے مارا مارا پھرتا ہے۔ دن رات ایک کرکے میں نے اسے پالا ہے۔ میں لوگوں کے کپڑے دھوتی ہوں تاکہ اس بدبخت کو آپ کے پاس اسکول پڑھنے کے لیے بھیجوں۔۔۔ صاحب جی! یہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔۔۔ صرف اس مرتبہ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

چپراسی دروازہ کھول کر اندر آیا۔ دفتر میں پھر سردی کی شدید لہر دوڑ گئی۔ ’’جناب! گھنٹی بجا دوں؟“ وہ پوچھنے لگا۔

سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا، ’’ہاں بجاؤ! میں آتا ہوں۔‘‘
پھر اساتذہ کی طرف دیکھ کر دوبارہ قدرے تیز لہجے میں بولا: ’’قطاریں بنوانے کی ضرورت نہیں، میرا خیال ہے کہ انہیں کلاسوں کی طرف چلنا چاہیے۔۔۔‘‘
پھر اپنی کرسی سے اٹھا اور میز کے دراز میں سے کچھ کاغذ نکالے اور آہستگی سے اس شخص سے مخاطب ہوا،
’’سب اساتذہ نے دست خط کر دیئے ہیں۔ ہم مطمئن ہیں کہ اس سال ہم نے بچوں کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں۔ ہم نے ان کے لیے اچھا خاصا کھیلوں کا سامان خریدا ہے اور تجرباتی سازوسامان بھی کثیر تعداد میں لے لیا ہے۔‘‘

اس شخص نے کاغذات لیے اور اپنے سامنے رکھ کر اطمینان سے مطالعہ کرنے لگا۔
بُڑھیا بدستور کمرے کے دروازے کے قریب ساکت اور مبہوت کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں نم آلود تھیں۔ وہ افسر کی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔ ایک استاد اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا، ’’ماں جی! آپ وہاں بیٹھ جائیں۔‘‘

پھر اس کے قریب سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔

اس شخص نے اپنا چہرہ فائل سے ہٹایا اور افسر کی طرف قدرے جھک کر دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’سپرنٹنڈنٹ صاحب! آپ نے تو کچھ زیادہ ہی مہنگا سازوسامان خرید لیا ہے، بازار میں یہ سب چیزیں خاصی کم قیمت میں مل جاتی ہیں۔‘‘

’’چھوڑیں جناب، سب نے اس پر دستخط کر دیئے ہیں، صرف آپ کے دستخط چاہیں۔‘‘

وہ شخص ہنس پڑا اور بڑے معنی خیز انداز میں گویا ہوا،
’’دیکھ لیں جناب! یہ سب سازو سامان بازار میں آدھی قیمت پر مل جائے گا۔‘‘
پھر اس نے اجلاس کی کارروائی کے نیچے افسر کے دیئے گئے قلم سے دست خط کیے اور بولا: ’’اچھا یہ تو بتائیے کہ ہمارا بچّہ آج سے دوبارہ کلاس میں بیٹھ سکے گا؟‘‘

افسر نے اثبات میں سر ہلایا،
’’ضرور، حاجی صاحب! میں خود اسے کلاس میں لے جاؤں گا۔ ہم آپ کے نیاز مند ہیں جناب!‘‘

اس نے دستخط شدہ کاغذات اس سے لے لیے اور میز کے دراز میں رکھ دیئے۔ پھر کہنے لگا: ’’آپ آئندہ کے اجلاس میں ضرور تشریف لائیے گا۔ کل بھی سب لوگ آپ ہی کے بارے میں پوچھتے رہے۔‘‘

آدمی ہنس دیا اور کھڑکی سے باہر لگاتار ہوتی ہوئی برف باری کی طرف متوجہ ہوگیا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور سر کو چند بار جھکا کر بولا: ’’مہربانی ہے آپ کی، عنایت ہے جناب کی!‘‘
اس نے اپنی ٹوپی اتاری اور اپنے گنجے سر کو کُھجاتے ہوئے بولا: ’’میں شرطیہ کہتا ہوں کہ برف باری رک جائے گی، اُف کتنی شدید برف باری ہو رہی ہے۔۔۔۔ بہرحال۔۔۔۔ اللہ کی رحمت ہونی چاہیے۔۔۔ خدا کی قسم! بہت سردی ہے۔‘‘

افسر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ دفتر کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ اس کی نظریں بڑھیا عورت پر پڑیں تو بدلحاظی سے کہنے لگا، ’’تم ابھی تک یہاں کھڑی ہو؟ بڑھیا! جانتی ہو تمہارے نواسے نے کیا کیا ہے؟ کچھ پتا ہے؟_‘‘ اور دفتر سے باہر نکل گیا ۔

اصل عنوان: نوۂ پیرزن

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close