شہری علاقوں میں ہر وقت رواں رہنے والی ٹونٹیاں ہماری زندگی میں ہی صرف ایک خواب بننے والی ہیں۔ ان کا ذکر کہانیوں میں ملے گا۔
بلوچستان کے ایک تھکا دینے والے فیلڈ وزٹ کے دوران ویرانے میں موجود ایک کلی (چند گھروں والی آبادی) میں ایک مہربان نے چائے کے لئے روک لیا۔ ہم سرد موسم میں اس کی جھونپڑی میں لگی فرشی نشتوں پر کچھ دیر سکون لینے کے لئے دراز ہو گئے، جب کہ وہ مہربان ہمارے لئے چائے کا انتظام کرنے لگ گیا۔ کچھ دیر بعد چائے اور ساتھ دیگر لوازمات آنے پر ہمارے ایک ساتھی نے ہاتھ دھونے کی خواہش ظاہر کی تو میزبان پہلے کچھ سوچ میں پڑا، پھر ہمارے ساتھی سے کہا کہ آپ بیٹھو میں پانی لاتا ہوں۔
چند منٹ کے بعد ہمارا میزبان ایک چھوٹے سے برتن میں پانی لے کر دوبارہ اندر آیا۔ اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا، جس نے ایک چھوٹا پرات نما برتن پکڑا ہوا تھا۔ انہوں نے ادھر نشست پر بیٹھے بیٹھے ہی ہمارے ساتھی کے ہاتھ اس طرح دھلوائے کہ سارا استعمال شدہ پانی نیچے پرات میں اکٹھا کر لیا اور اس کا ایک قطرہ بھی نیچے نہ گرنے دیا۔ میں یہ سارا عمل انتہائی غور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے میزبان سے پوچھا کہ وہ اس پرات والے گندے پانی کا کیا کرے گا۔ اس نے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ گندا تھوڑی ہے، یہ تو اللہ کی رحمت ہے، اسے جانوروں کو پلائیں گے۔ یہ بات سن کر مجھے پنجاب کے ہوٹلوں کے واش بیسنوں اور پبلک باتھ روموں پر ہر وقت لیک کرتی یا کھلی ہوئی ٹوٹیاں بہت یاد آئیں۔
اسی طرح جب مغربی دارفور کے فیلڈ وزٹ میں ریاستی دارلحکومت الجنینا کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے تو وہاں ہر بندے کے لئے پانی کی راشننگ تھی۔ پانی ایک ڈرم میں اسٹور ہوتا، جس سے ہر ایک کو روزانہ ایک بالٹی پانی ملتا، جس سے آپ نے پورا دن گزارنا ہوتا۔ وہاں ہم آدھا بالٹی پانی سے نہاتے تھے اور باقی آدھی بالٹی وضو اور دن کے دیگر لوازمات کے لئے استعمال کرتے۔ وہاں یہ پتہ چلا کہ آدھی بالٹی سے بھی غسل ممکن ہے اور شاور کھول کر غسل کرنا کتنی بڑی عیاشی ہے۔
کوئٹہ شہر میں چند سال پہلے اپنی ٹیم کے لئے ہاسٹل بنایا تو چند دن بعد ہی مالکِ مکان نے عمارت خالی کرنے کی دھمکی اس بات پر لگائی کہ آپ کے لوگ پانی بہت ضائع کرتے ہیں۔ اس نے آ کر باقاعدہ ہمارے آفس مینیجر کے ساتھ لڑائی کی کہ آپ کے لڑکے روز ایک ٹینکر پانی گٹر میں بہا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ٹینکر ہم خود خرید رہے تھے لیکن وہ رحمانی بندہ پانی کے ضائع ہونے کو برداشت نہیں کر پایا تھا، کیونکہ وہ پانی کی کمی کے اثرات کو بھگت رہا تھا۔
ہمارے لڑکے نئے تھے اور لاہور سے گئے ہوئے تھے، لہٰذا یہاں والی پانی کے استعمال کی عیاشیاں وہاں بھی جاری تھیں۔ اگرچہ ہم خود پانی کی بچت کے لئے کام کر رہے تھے لیکن اس مالک مکان نے ہماری توجہ مائیکرو مینیجمنٹ کی طرف مبذول کروائی، جس کے بعد لڑکوں کا پانی کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل گیا۔ مالکِ مکان کی طرف سے ہمارے لڑکوں پر لگائی گئی فردِ جرم ملاحظہ فرمائیں:
1- یہ لوگ چھوٹی بالٹی میں پانی بھر کر مَگ سے نہانے کی بجائے لمبے شاور لیتے ہیں
2- دن میں ایک سے زیادہ دفعہ نہاتے ہیں۔
3۔ باتھ روموں کا فلش ٹینک بار بار استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ چھوٹی کاروائی کے بعد بھی۔
4۔ واش بیسن پر وضو کرنے کی بجائے ٹونٹی سے وضو کیوں نہیں کرتے تاکہ نیچے بالٹی رکھ لیں اور یہ استعمال شدہ پانی فلش کرنے کے لئے استعمال کریں۔
5۔ ایک وضو سے دو یا اس سے زیادہ نمازیوں پڑھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔
6۔ کچن میں سبزی اور چاول دھونے والا پانی بھی بچا کر فلش یا فرش دھونے میں استعمال کیوں نہیں کرتے۔
پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں عام سے عام جگہ پر یا ہوٹل میں چلے جائیں، گلاس صاف بھی ہوگا تو کہیں گے کہ یار اسے پانی مار کر لاؤ۔۔ اور آدھا گلاس پانی اسی میں ضائع ہوجائے گا۔
لان میں بچے پانی کے پائپ سے کھیلتے کھیلتے ٹینکی بھر پانی گٹر میں بہا دیں گے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں صبح سویرے ڈرائیور حضرات موٹر چلا کر پائپ سے گاڑیاں دھونے میں مشغول ہوں گے اور اندر صاحب شاور کھول بالٹیوں کے حساب سے پانی ضائع کر رہے ہوں گے۔
کام والی ماسیاں موٹر چلا کر پائپ سے فرش دھو رہی ہوں گی، جس سے گھر کے باہر ساری سڑک پر پانی کھڑا ہوگا۔ سردیوں میں ہم ٹونٹی کھول کر گیزر کے گرم پانی کے انتظار میں کئی لٹر صاف پانی واش بیسن کے ذریعے گٹر میں منتقل کر رہے ہوں گے۔
ان باتوں پر سوچنے کی ضرورت ہےہمارے پاس اب مزید وقت نہیں رہا۔۔ اگر ہم اسی طرح پانی ضائع کرتے رہے تو شہری علاقوں میں بہنے والی ٹونٹیاں ہماری زندگی میں ہی ایک خواب بننے والی ہیں۔