سیتاپور میں تحصیل سدھولی اپنی جھیلوں اور شکاریوں کے لیے مشہور تھی۔ اب جھیلوں میں دھان بویا جاتا ہے۔ بندوقیں بیچ کر چکیّاں لگائی گئی ہیں، اور لائسنس پر ملے ہوئے کارتوس ’بلیک‘ کر کے شیروانیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبوں کا زنجیرا پھیلا ہوا تھا، جن میں شیوخ آباد تھے، جو اپنے مفرور ماضی کی یاد میں ناموں کے آگے خان لگاتے تھے اور ہر قسم کے شکار کے لیے غنڈے، کتے اور شکرے پالتے تھے۔ ان میں سارن پور کے بڑے بھیا، رکھو چچا اور چھوٹے بھیا، پاچو چچا بہت ممتاز تھے۔
میں نے رکھو چچا کا بڑھاپا دیکھا ہے۔ ان کے سفید ابروؤں کے نیچے ٹرنتی آنکھوں سے چنگاریاں اور آواز سے لپٹیں نکلتی تھیں۔ رضو باجی انہی رکھو چچا کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ میں نے لڑکپن میں رضو باجی کے حسن اور اس جہیز کے افسانے سنے تھے، جسے ان کی دو سوتیلی صاحب جائداد مائیں جوڑ جوڑ کر مر گئی تھیں۔ شادی بیاہ کی محفلوں میں میراثنیں اتنے لقلقے سے ان کا ذکر کرتیں کہ ٹیڑھے بینچے لوگ بھی ان کی ڈیوڑھی پر منڈلانے لگتے۔ جب رضو باجی کی ماں مر گئیں اور رکھو چچا پر فالج گرا تو انہوں نے مجبور ہو کر ایک رشتہ قبول کر لیا۔۔ مگر رضو باجی پر عین منگنی کے دن جنات آ گئے اور رضو باجی کی ڈیوڑھی سے رشتے کے ’کاگا‘ ہمیشہ کے لیے اڑ گئے۔ جب رکھو چچا مر گئے تو پاچو چچا ان کے ساتھ تمام ہندستان کی درگاہوں کا پیکرمہ کرتے رہے لیکن جناتوں کو نہ جانا تھا، نہ گئے۔ پھر رضو باجی کی عمر ایسا پیمانہ بن گئی، جس کے قریب پہنچنے کے خوف سے سوکھی ہوئی کنواریاں لرز اٹھتیں۔
جب بھی رضو باجی کا ذکر ہوتا، میرے وجود میں ایک ٹوٹا ہوا کانٹا کھٹکنے لگتا اور میں اپنے یادوں کے کارواں کو کسی فرضی مصروفیت کے صحرا میں دھکیل دیتا۔ رضو باجی کا جب رجسٹری لفافہ مجھے ملا تو میں ایسا بد حواس ہوا کہ خط پھاڑ دیا۔ لکھا تھا کہ وہ حج کرنے جا رہی ہیں اور میں فوراً سارنگ پور پہنچ جاؤں، لیکن اس طرح کہ گویا میں ان سے نہیں پاچو چچا سے ملنے آیا ہوں، اور یہ بھی کہ میں خط پڑھنے کے بعد فوراً جلا دوں۔ میں نے رضو باجی کے ایک حکم کی فوری تعمیل کر دی۔ خط کے شعلوں کے اس پار ایک دن چمک رہا تھا۔ پندرہ سال پہلے کا ایک دن، جب میں بی اے میں پڑھتا تھا اور محرّم کرنے گھر آیا ہوا تھا۔
محرّم کی کوئی تاریخ تھی اور سارنگ پور کا سپاہی خبر لایا تھا کہ دوسرے دن مسرکھ اسٹیشن پر شام کی گاڑی سے سواریاں اتریں گی۔ ہماری بستی کے محرّم سارے ضلع میں مشہور تھے۔ یہ مشہور محرّم ہمارے گھر سے وابستہ تھے اور دور دور سے عزیز واقارب محرّم دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ہمارا گھر شادی کے گھروں کی طرح گھم گھمانے لگتا تھا۔ اس خبر نے میرے وجود میں قمقمے جلا دیے۔ میں رضو باجی کو، جن کی کہانیوں سے میرا تخیل آباد تھا، پہلی بار دیکھنے والا تھا۔ عید کی چاند رات کے مانند وہ رات بڑی مشکل سے گزری اور صبح ہوتے ہی میں انتظامات میں مصروف ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے ادھے، جن کو پھرک اور لہڑو بھی کہتے ہیں، سنوارے گئے۔ بیل صابن سے نہلائے گئے۔ ان کو نئی اندھیریاں، سنگوٹیاں اور ہمیلیں پہنائی گئیں۔ دھراؤ جھولیں اور پردے نکالے گئے۔ گھوڑے کے ایال تراشے گئے۔ زین پر پالش کی گئی اور سیاہ اطلس کا پھٹّا باندھا گیا، جو اس کے سفید جسم پر پھوٹ نکلا۔ ساتھ جانے والے آدمیوں میں اپنی نئی قمیصیں بانٹ دیں اور جیب خرچ سے دھوتیاں خرید دیں اور دوپہر ہی سے کلف لگی برجس پر لانگ بوٹ پہن کر تیار ہو گیا، اور دو بجتے بجتے سوار ہو گیا، جب کہ چھ میل کا راستہ میرے گھوڑے کے لیے چالیس منٹ سے کسی طرح زیادہ نہ تھا۔
اسٹیشن ماسٹر کو، جو ہمارے تحائف سے زیر بار رہتا تھا، اطلاع دی کہ ہمارے خاص مہمان آنے والے ہیں اور مسافر خانے کے پورے کمرے پر قبضہ جما لیا۔ گاڑی وقت پر آئی، لیکن ایسی خوشی ہوئی جیسے کئی دن کے انتظار کے بعد آئی ہو۔ فرسٹ کلاس کے دروازے میں سارنگ پور کا مونو گرام لگائے ایک بوڑھا سپاہی کھڑا تھا۔ ڈبّے سے مسافر خانہ تک قناتیں لگادی گئیں، آگے آگے پھوپھی جان تھیں۔ ایک رشتے سے رکھو چچا ہمارے چچا تھے اور دوسرے رشتے سے ان کی بیوی ہماری پھوپھی تھیں، ان کے پیچھے رضو باجی، پھر عورتیں تھرماس اور پان دان اور صندوقچے اٹھائے ہوئے آ رہی تھیں۔ چائے کا انتظام تھا، لیکن پھوپھی جان نے میری بلائیں لے کر انکار کر دیا اور فوراً اس ادھے پر سوار ہوگئیں جو تابوت کی طرح پردوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
رضو باجی بھی اسی میں غروب ہو گئیں، جن کے ہاتھ سیاہ برقعوں پر شعلوں کی طرح تڑپ رہے تھے۔ دوسرے ادھوں پر عورتوں کو سامان کے ساتھ چڑھا دیا گیا۔
کٹھنا دیس کے پھڑکتے ہوئے سیاہ بیلوں پر میرا چھوٹا سا ادھا خالی اڑ رہا تھا اور میں پھوپھی جان کے ادّھے کے پہلو میں چھل بل دکھاتے ہوئے گھوڑے پر بھاگ رہا تھا۔ میں، جو کبھی ہوائی بندوق ہاتھ میں لے کر نہ چلا تھا، آج بارہ بور کی پنج فیری اس امید پر لادے ہوئے تھا کہ اگر اڑتا ہوا طاؤس گرا لیا تو رضو باجی ضرور متاثر ہو جائیں گی۔ کچی سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے دھندہاری کے جنگل پر میری نگاہیں منڈلا رہی تھیں اور میں دعا مانگ رہا تھا کہ دور کسی جھاڑی سے کوئی طاؤس اٹھے اور اتنے قریب سے گزرے کہ میں شکار کر لوں کہ پھوپھی جان کا ادھا رک گیا۔ میں گھوڑا چمکا کر قریب پہنچا۔ آج سے زیادہ کسی جانور کے نخرے بھلے نہ لگے تھے۔
’’میرا تو اس تابوت میں دم گھٹا جا رہا ہے۔‘‘ رضو باجی کی آواز تھی۔ جاڑوں کی صبح کی طرح صاف اور چمک دار!
’’تو آپ میرے ادّھے پر آ جایئے۔‘‘
’’مگر اس پر پردہ کہاں ہے؟‘‘
’’میں ابھی بندھواتا ہوں۔‘‘
پردہ بندھ رہا تھا کہ پھوپھی جان نے حکم دیا، ’’کسی بوڑھے آدمی سے کہو ان کا ادّھا ہانکے اور کسی عورت کو بٹھال دو۔‘‘
’’ادّھا تو میں خود ہانکوں گا۔‘‘
’’ارے تُو! ادّھا ہانکے گا؟‘‘
انہوں نے چھوٹا سا قہقہہ لگایا اور میں گھوڑے سے پھاند پڑا۔ ساتھ ہی کسی سپاہی نے میری تائید کی، ’’ایسا ویسا ہانکت ہیں بھیا! بیلن کی جان نکال لیت ہیں۔‘‘
چاروں اور صافوں کا پردہ باندھ دیا گیا۔ رضو باجی سوار ہوئیں اور بولیں، ’’اس پر اتنی جگہ کہاں ہے کہ بُوا بھی دھانس لی جائیں۔‘‘
قبل اس کے کہ بوا اپنے ادّھے سے اتریں میں نے بیل جڑوا دیے اور پینٹھ لے کر جور پر بیٹھ گیا اور بڑھنے کا اشارہ کر دیا۔ پھوپھی جان نے کچھ کہا لیکن پانچ جوڑ بیلوں کے گھنے گھنگھروؤں کی تند جھنکار میں ان کی بات ڈوب گئی۔ جب حواس کچھ درست ہوئے اور دماغ کچھ سوچنے پر رضا مند ہوا تو جیسے رضو باجی نے اپنے آپ سے کہا، ’’امی کے ادّھے کی ساری دھول ہمیں کو پھانکنا ہے۔‘‘
میں نے فوراً لیکھ بدلی۔ آدمی نے راسیں کھینچ کر مجھے نکل جانے دیا۔ ظالم بیلوں کو دوبارہ لیکھ پر لانے کے لیے میں نے ایک کے پینٹھ اور دوسرے کے ٹھوکر ماردی اور میری مہمیز اس کی ران میں چبھ گئی۔ وہ تڑپا اور قابو سے نکل گیا، اور اچانک رضو باجی کے ہاتھ میری کمر کے گرد آگئے اور میرا بایاں شانہ ان کے چہرے کے لمس سے سلگ رہا تھا اور اعصاب میں پھل جھڑیاں چھوٹ رہی تھیں۔
’’روکو۔‘‘ انہوں نے پہلی بار مجھے حکم دیا۔ میں نے سینے تک راسیں کھینچ لیں۔ بیل دلکی چلنے لگے۔ میں نے جھانک کر دیکھا۔ سانپ کی طرح رینگتی ہوئی سڑک پر دور تک درختوں کے سنتری کھڑے تھے اور ایک سپاہی میرے گھوڑے پر سوار سائے کے مانند میرے پیچھے لگا تھا۔ رضو باجی نے برقع کا اوپری حصہ اتار دیا تھا، اور وہ سرخ بال جن پر ان کے حسن کی شہرت کا دار و مدار تھا، چہرے کے گرد پڑے دہک رہے تھے اور وہ ایک طرف کا پردہ جھکا کر جنگل کی بہار دیکھ رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں کی قاتل گرفت نے ایک بار پھر میرے چٹکی لی اور میں نے بیلوں کو چھیڑ دیا، اور ایک بار پھر ان کے سفید ریشمی ہاتھ میری کمر کو نصیب ہو گئے لیکن اب وہ مجھے ڈانٹ رہی تھیں اور میں بیلوں کو پھٹکار رہا تھا۔ ان کا سر میری پشت پر رکھا تھا، اور میں اڑتی ہوئی ریشمی لپٹوں کو دیکھ سکتا تھا۔
پھر وہ باغ نظر آنے لگا، جن کے سائے سے آبادی شروع ہو جاتی ہے۔ مسرکھ سے میرے گھر کا راستہ کبھی اتنی جلدی نہیں ختم ہوا، اتنا دل کش نہیں معلوم ہوا۔ میں نے ادّھا روکا، پردہ برابر کیا۔ سپاہی کو جور پر بٹھا کر خود گھوڑے پر سوار ہوا۔ بستی میں بیل ہانکتے ہوئے داخل ہونا شایانِ شان نہ تھا۔ رضو باجی مجھے دیکھ رہی تھیں اور مسکرا رہی تھیں۔ جب وہ اتر کر ڈیوڑھی میں داخل ہوئیں تو میں نے پہلی بار ان کا سراپا دیکھا اور ان کے سامنے مراثنوں کی تمام کہانیاں ہیچ معلوم ہوئیں۔ وہ مجھ سے تھوڑے دنوں بڑی تھیں، لیکن جب انہوں نے میری پیٹھ پر سر رکھا اور ٹھنک کر کہا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنی بھابی جان اور میری اماں سے مرمت کرائیں گی تو وہ مجھے بہت چھوٹی سی معلوم ہوئیں۔ جیسے میں نے ان کی گڑیاں نوچ کر پھینک دی ہوں اور وہ مجھے دھمکیاں دے رہی ہوں۔
میں جو محرّم میں سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات باہر گزارا کرتا تھا، اس سال باہر جانے کا نام نہ لیتا تھا اور بہانے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اندر منڈلایا کرتا تھا۔ نویں کی رات سال بھر میں واحد رات ہوتی تھی، جب ہمارے گھر کی بیبیاں بستی میں زیارت کو نکلتی تھیں۔ پورا اہتمام کیا جاتا تھا کہ وہ پہچانی نہ جائیں۔ برقعوں کے بجائے وہ موٹی موٹی چادر اوڑھ کر نکلتی تھیں، لیکن دور چلتے سپاہیوں کو دیکھ کر لوگ جان جاتے تھے اور عورتیں تک راستہ چھوڑ دیتی تھیں۔ جب رات ڈھلنے لگی اور سب لوگ سوتی چادریں اوڑھ کر یعنی بھیس بدل کر جانے کو تیار ہوئے تو پتا چلا کہ رضو باجی سوگئی ہیں۔ کسی نے جگایا تو پتا چلا کہ سر میں درد ہے اور میں اٹھ کر باہر چلا آیا۔ جب بیبیوں کے پیچھے چلتے ہوئے سپاہیوں کی لاٹھیاں اور لالٹینیں پھاٹک سے نکلنے والی سڑک پر کھو گئیں تب میں اندر آیا۔ وہ دالان میں سیاہ کامدانی کے دپٹے کا پلو سر پر ڈالے سو رہی تھیں۔ ایک عورت پنکھا جھل رہی تھی دوسری ان کی پائنتی پڑے کھٹولے پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ میں نے ان کی سفید گداز کلائی پر میٹھی سی چٹکی لی۔ انھوں نے منہ کھول دیا۔
’’چلیے آپ کو تعزیے دکھا لائیں۔‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا جسے انھوں نے عورتوں کو دیکھ کر جلدی سے چھڑا لیا اور کھڑی ہوگئیں۔
’’میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘
’’زیارت کی برکت سے دور ہو جائے گا۔‘‘ میں نے بڑے جذبے سے کہا، انھوں نے کپڑوں پر نگاہ ڈالی۔
’’اگر ان سے خراب کپڑے آپ کے پاس ہوں تو پہن لیجیے۔‘‘ اور میں نے ان کے پلنگ سے چکن کی چادر اٹھا کر ان کے شانوں پر ڈال دی۔
اپنے تعزیے کے پاس بیٹھی ہوئی بھیڑ سے چند پاسی منتخب کیے۔ ان کو بندوق اور ٹارچ لینے کی ہدایت کی اور رضو باجی کو لیے ہوئے سڑک پر آ گیا۔ مجھے بیبیوں کے راستے معلوم تھے جو محرّم کے جلوس کی طرح مقرر تھے اور میں مخالف سمت میں چل رہا تھا۔ کٹا ہوا چاند تہائی آسمان پر روشن تھا اور ہم بستی کے باہر نکل آئے تھے اور میں خود اپنے منصوبے سے لرز رہا تھا۔ پھر وہ تالاب آ گیا جس کے پاس ٹیلے پر مندر کھڑا تھا اور سامنے املیوں کے دائرے میں لکھوری اینٹوں کا کنواں تھا، میں نے اپنے رومال سے پختہ جگت صاف کی۔ نو خیز پاسیوں کو حکم دیا کہ وہ مندر کے اندر جا کر بیٹھ جائیں۔ اب حدِ نگاہ تک دمکتے پانی اور آبادی کے دھندلے خطوط کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ہمارے چاروں طرف املی کے درختوں کا گھنا سایہ پہرہ دے رہا تھا۔ میں نے اپنا گلا صاف کیا۔ ان کے پاس بیٹھ کر پہلی بار ان کو مخاطب کیا۔
’’یہ کنواں دیکھ رہی ہیں آپ؟‘‘ مجھے خود اپنی آواز بھیانک معلوم ہوئی، ’’یہ جناتوں کا کنواں ہے۔‘‘ انہوں نے پوری شربتی آنکھوں کو کانوں تک کھول دیا اور میری طرف ذرا سا سرک آئیں۔
’’اس میں جنّات رہتے ہیں۔‘‘
وہ میرے اور قریب آ گئیں۔ ان کا زانو میرے جسم سے مس کرنے لگا، میں بھاٹوں کی طرح لاتعلق لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’یہ جنات میرے ایک دادا کے شاگرد تھے۔ جب دادا میاں اس کنویں میں ڈوب کر مر گئے تو جناتوں نے یہاں اپنا بسیرا کر لیا۔‘‘
انہوں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، چادر ان کے شانوں سے ڈھلک گئی۔ گھٹی گھٹی آواز میں بڑے کرب سے بولیں، ’’چلو! یہاں سے بھاگ چلو۔‘‘
اور ان کا سر میرے شانے پر ڈھلک آیا اور میں نے سرخ بالوں کی ریشمی لپٹوں میں اپنے ہاتھ جلا لیے، جن کے داغ آج بھی جلد کے نیچے محفوظ ہیں۔
”محرّم کی اس رات کے آخری حصے میں جو شخص اس کنویں سے اپنے دل کی ایک مراد مانگتا ہے، وہ پوری ہوتی ہے۔ “
وہ مجھ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیں، اور میں اس دنیا میں تھا، جو پہلی بار میرے حواس نے دریافت کی تھی۔
’’آپ ذرا دیر کے لیے چھوڑ دیجیے میں ایک دعا مانگ لوں۔۔۔ آج کے بعد پھر کبھی اس کنویں میں کوئی دعا نہ مانگوں گا۔‘‘
وہ تڑپ کر اٹھیں اور مجھ کو تقریباً گھسیٹتی ہوئی چلیں۔ جب پاسی کھڑے ہو گئے تب وہ مجھ سے الگ ہوئیں۔ سڑک پر آ کر مچل گئیں کہ گھر جاؤں گی مگر میں ان کو بہلاتا ہوا امام باڑے کی طرف چلا۔ یہ امام باڑہ نواب نقی علی کی اس بہن نے بنوایا تھا، جو واجد علی شاہ کی محل تھی۔ آج بھی اس کی اولاد موجود ہے جو امام باڑے والیوں کے نام سے مشہور ہے اور یہ عمارت انہی کے عمل میں ہے۔
یہاں کربلائے معلّیٰ سے لائی ہوئی ضریح رکھی ہے۔ عورتیں اپنے بالوں کی ایک لٹ باندھ کر مراد مانگتی ہیں جب پوری ہو جاتی ہے، تو اپنی لٹ کھول لے جاتی ہیں۔ ایک پاسی نے دوڑ کر امام باڑہ مردوں سے خالی کرا دیا۔ پھاٹک میں عورتوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ بستی کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ میرے گھر کا کوئی فرد کسی عورت کے ساتھ محرّم دیکھنے نکلا ہو۔ زیارت کرنے نکلا ہو۔ دالان کے پاس ایک گدبدی سی لڑکی میرے جوتے کھولنے آئی۔ میں نے رضو باجی کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ ان کے سینڈل کھولنے لگی۔ جب میں اس ہال میں داخل ہونے لگا، جس میں سونے کے پانی کی ضریح رکھی تھی تو وہی لڑکی بھاگتی ہوئی آئی اور بولی، ’’بٹیا صاحب کہہ رہی ہیں کہ آپ باہر ہی رہیں۔‘‘ میں باہر ہی کھڑا رہا۔ جب میں ان کے ساتھ امام باڑے سے نکل رہا تھا، ان گنت مرد مجھے کنکھیوں سے گھور رہے تھے۔ عورتیں گھونگھٹ سے جھانک رہی تھیں اور میرے اعصاب کی کمان کھنچی ہوئی تھی کہ ایک عورت نے دوسری عورت سے پوچھا۔
’’کون ہیں؟‘‘
’’بڑے بھیا کی دلھن ہیں۔‘‘
اور میں لڑکھڑا گیا۔ رضو باجی کے سرسے چادر کا جھونپا ڈھلک گیا۔ جب سڑک ویران ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ رضو باجی کا چہرہ لمبی چوڑی مسکراہٹ سے روشن ہے۔ میں ان کے بالکل قریب ہو گیا۔
’’آپ بہت خوش ہیں۔‘‘
’’اوں۔۔۔ ہاں! نہ مانگتے دیر، نہ ملتے دیر۔‘‘ اور میں اس جملے کے معانی سوچتا رہا۔
پھر ہمارے مقدر میں کوئی ایسی رات نہ لکھی گئی، جو ان کے قرب سے مہک سکتی۔ ایک آدھ بار ان کی صورت دیکھنے کو ملی بھی تو اس طرح جیسے کوئی چاند دیکھ لے اور جب میں سارنگ پور کی ڈیوڑھی پر یکے سے اترا تو دیر تک کسی آدمی کی تلاش میں کھڑا رہا، دن دہاڑے وہاں ایسا سنّاٹا تھا، جیسے اس شان دار بوسیدہ عمارت میں آدمیوں کے بجائے، روحیں آباد ہوں۔ میں دہری ڈیوڑھی کے اندرونی دروازے پر جا کر کھڑا ہوگیا اور آوازدی، ’’میں اندر آجاؤں۔‘‘
ایک بوڑھی پھٹی ہوئی آوازنے پوچھا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’میں چترہٹہ کا اجنّ ہوں۔‘‘
’’ارے۔۔۔ آئیے۔۔۔ بھیا آ جائیے۔‘‘
بھاری پختہ صحن پر میرے جوتے گونج رہے تھے۔ بارہ دروں کے دہرے دالان کی اسپینی محرابوں کے پیچھے لانبے کمروں کے اونچے اونچے دروازے کھلے تھے اور دوسری طرف کی عمارت نظر آ رہی تھی۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی میں چونک پڑا، یا ڈر گیا۔ دور تک پھیلے ہوئے سفید چوکے پر سفید کپڑے پہنے ہوئے بھاری بھر کم رضو باجی کھڑی تھیں، چنا ہوا سفید دوپٹا ان کے شانوں پر پڑا تھا اور سرخ و سفید بال ان کی پیٹھ پر ڈھیر تھے۔ وہ گردن گھمائے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ اترتی ہوئی شام کی مدھم روشنی میں ان کے زرد چہرے کی سیاہ شکنیں صاف نظر آ رہی تھیں، وہ کانوں میں بیلے کے پھول اور ہاتھوں میں صرف گجرے پہنے تھیں۔ میں ان کی نگاہ کی ویرانی سے کانپ اٹھا۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ دیکھتے رہے۔ صدیاں گزر گئیں۔ کسی میں نہ پلک جھپکنے کی طاقت تھی، نہ زبان کھولنے کا حوصلہ۔۔ پھر جیسے وہ اپنی آواز کا سہارا لے کر تخت پر ڈھے گئیں۔
’’تم ایسے ہو گئے! اجّن؟ بیٹھ جاؤ۔‘‘
میں چوکے کے کونے پر ٹک گیا۔
’’مجھے اس طرح کیا دیکھ رہے ہو؟ مجھ پر جو گزری وہ اگر پتھروں پر گزرتی تو چور چور ہو جاتے۔۔ لیکن تم کو کیا ہو گیا؟ کیسے کالے دبلے کھپٹا سے ہو گئے ہو۔ نوکر ہو نا۔۔۔ اچھی بھلی تن خواہ پاتے ہو۔ زاہدہ جیسی بیوی ہے، پھول ایسے بچے ہیں، نہ قرض ہے نہ مقدمے بازی، تم بولتے کیوں نہیں؟ کیا چپ کا روزہ رکھ لیا۔‘‘
میں نے دل میں سوچا جناتوں کا سایہ ہے نا ان پر۔۔
’’آپ نے پندرہ برس بعد روزہ توڑنے کو کہا بھی تو اس وقت، کہ زبان ذائقہ بھول چکی اور معدہ قبول کرنے کی صلاحیت کھو چکا۔‘‘ انہوں نے مجھے اس طرح دیکھا، جیسے میرے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔ وہ بوڑھی عورت میرے سوٹ کیس کو نیچے سے لیے ہوئے چلی آ رہی تھی، پھر پاچو چچا آ گئے۔
دبلے پتلے سے پاچو چچا، جن کے شکار کی ایک زمانے میں دھوم تھی۔ رات کا کھانا کھا کر دیر تک باتیں ہوتی رہیں، جب رضو باجی اٹھ گئیں تو چچی جان نے سرگوشی میں کہا ’’آج نوچندی جمعرات ہے۔ بٹیا پر جن کا سایہ ہے۔ وہ آنے والے ہیں۔ تمھارا بستر اپنی طرف لگوایا تھا، لیکن بٹیا نے اٹھوا لیا، اگر ڈرنا تو آواز دے لینا یا چلے آنا، بیچ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔‘‘
جمعرات کا نام سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے مگر خاموش رہا۔ ان کے ہاتھ سے گلوریاں لے کر منہ میں دبائیں اور کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بچے کو تھپکتی رہیں۔ پاچو چچا مجھے بھیجنے آئے۔ دالان میں دو بستر لگے تھے۔ ان کے درمیان ایک کھٹولا پڑا تھا، جس پر رضو باجی کی بوا ڈھیر تھیں۔ پاچو چچا مجھے صحن میں چھوڑ کر لالٹین لیے ہوئے رخصت ہو گئے۔ ایک کالا جھبرا کتا ایک طرف سے نکلا اور مجھے سونگھتا ہوا چلا گیا۔ پھر ایک دروازے سے رضو باجی نکلیں اور سارے میں مشک کی خوش بو پھیل گئی۔ ان کے کپڑے نئے اور پھول تازے تھے۔ صحن میں اکتوبر کی چاندنی کا فرش بچھا ہوا تھا۔ برساتی میں کرسیوں پر ہم بیٹھے ٹھنڈی سفید گاڑھی کافی پی رہے تھے، گفتگو کے لیے الفاظ پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’یہ جناتوں کا کیا قصہ ہے رضو باجی؟‘‘ مجھے اپنی آواز پر حیرت ہوئی۔ میں نے یہ گولی کس طرح داغ دی تھی۔ انھوں نے پیالی رکھ دی مسکرائیں۔ وہ پہلی مسکراہٹ عمر بھر کے غموں سے زیادہ غم زدہ تھی۔
’’میں نے تم کو اسی لیے بلایا ہے۔‘‘
’’کاش آپ نے اس سے پہلے بلایا ہوتا۔‘‘
’’بیاہ کی طرح بے حیائی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اجّن! دس برس پہلے کیا یہ ممکن تھا کہ تم اس طرح کھلے خزانے آدھی رات کو مجھ سے باتیں کر رہے ہوتے؟ آج تم گھر بار والے ہو۔ میں کھوسٹ ہوگئی ہوں اور چچی جان کا باورچی خانہ میری جائیداد سے روشن ہے۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو۔۔ میں حج کرنے جارہی ہوں اور حج کرنے والے ہر اس شخص سے معافی مانگتے ہیں، جس کے ساتھ انھوں نے کوئی زیادتی کی ہو۔ تم کو معلوم ہے مجھ پر جنات کب آئے؟ آج سے دس سال پہلے اور تم کو معلوم ہے تمہاری شادی کو کتنے برس ہوئے؟ دس سال! تم کو ان دونوں باتوں میں کوئی رشتہ نہیں معلوم ہوتا؟
تم نے چتر ہٹہ کے سفر میں کیا کیا؟ تم محرّم کی نویں تاریخ مجھے کہاں کہاں گھسیٹتے پھرے؟ تم اس بھیانک کنویں سے میرے سامنے کیا مانگنا چاہتے تھے۔ تم نے عباس علم کو بوسہ دے کر مجھے کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کسے پانے کی آرزو کی تھی؟ جاؤ اپنے امام باڑے کی ضریح کو غور سے دیکھو۔ میرے بالوں کی سرخ لٹ آج بھی بندھی نظر آئے گی۔ اگر کھچڑی نہ ہو گئی ہو۔ کیا میں نے امام حسین سے صرف ایک عدد شوہر مانگنے کے لیے یہ جتن کیے تھے؟ سارنگ پور کی نائنوں اور میراثنوں سے پوچھو کہ وہ رشتے لاتے لاتے تھک گئیں، لیکن میں انکار کرتے نہ تھکتی۔ کیا مجھ سے تم یہ چاہتے تھے کہ میں سارنگ پور سے ستو باندھ کر چلوں اور چترہٹہ کی ڈیوڑھی پر دھونی رما کر بیٹھ جاؤں اور جب تم برآمد ہو تو اپنا آنچل پھیلا کر کہوں کہ حضور مجھ کو اپنے نکاح میں قبول کرلیں کہ زندگی سوارت ہو جائے۔ تم نے رکھو میاں کی بیٹی سے وہ بات چاہی جو رکھو میاں کی طوائفوں سے بھی ممکن نہ تھی۔‘‘
’’لیکن رضو باجی۔‘‘
’’مجھ پر جنات نہیں آتے ہیں اجّن میاں! میں جناتوں کو خود بلا لاتی ہوں۔ اگر جنات نہ آتے تو کوئی دولھا آ چکا ہوتا اور تب اگر جناتوں کا کنواں، عباسی علم اور ضریح مبارک تینوں میرے دامن کو ایک مراد سے بھر دینے کی خواہش کرتے تو میں کیا کرتی؟ کس منہ سے کیا کہتی۔ اس لیے میں نے یہ کھیل کھیلا تھا۔ اسی طرح جس طرح چترہٹے میں تم مجھ سے کھیل رہے تھے۔ نہ اس میں تمہارے لیے کوئی حقیقت تھی اور نہ اس میں رضو کے لیے کوئی سچائی ہے۔ یہ حج میں اپنے باپ کے لیے کرنے جا رہی ہوں، جو میرے بوجھ سے کچل کر مر گئے۔۔ جنہوں نے مرتے وقت بھی اپنی عقبیٰ کے لیے نہیں، میری دنیا کے لیے دعا کی۔ اس لئے میں نے تم کو معاف کیا۔ اگر تم زاہدہ کو مجھ پر سوت بنا کر لے آتے تو بھی معاف کر دیتی۔‘‘
وہ نرکل کے درخت کی طرح لرز رہی تھیں۔ ان کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا ہوا تھا۔ دو رنگی شال شانوں سے ڈھلک گئی تھی۔ سرخ بالوں میں برابر سے پروئے ہوئے چاندی کے تار جگمگا رہے تھے، اور مجھے محسوس ہو رہا تھا، جیسے زندگی رائگاں چلی گئی۔۔ جیسے میری بیوی نے مجھے اطلاع دی ہو کہ میرے بچے، میرے بچے نہیں ہیں۔