سائیں اللہ رکھیو پیشے کے اعتبار سے استاد تھے، بچوں کو پڑھاتے تھے۔ ان کا تعلق سندھ کے ضلع کشمور سے تھا، یہ وہ جگہ ہے جہاں تین صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حدود آپس میں ملتی ہیں۔
تقریباً بیس سال پہلے جب ہم بھی ٹی وی اینکر تھے، اکبر بگٹی کے انٹرویو کے لیے ڈیرہ بگٹی جاتے ہوئے میرا گزر کشمور سے ہوا تھا، کشمور آج کل اخباروں کی شہ سرخیوں میں ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی قتل اور کسی نہ کسی کے اغواء کی خبریں ہیں خصوصاً سندھی ہندو ان وارداتوں کا زیادہ شکار ہیں۔
شیر باز مزاری لکھتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے وقت مقامی مسلمانوں نے کشمور اور ڈیرہ غازی خان سے ہندوؤں ہم وطنوں کو ہجرت کرنے نہیں دیا، انہیں تحفظ دیا گیا، اسی کثیرالمذہبی کلچر ان علاقوں میں پروان چڑھا اور ہندو آج تک اپنے آبائی علاقوں میں بطور پاکستانی شہری آزادی سے زندگی بسرکر رہے ہیں۔ کشمور میں سب سے بڑا قبیلہ مزاریوں کا ہے۔
اس وقت ضلع کشمور ڈاکوؤں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور دہشت پھیلانے اور ڈاکو گردی کی ایک نئی روایت قائم کی ہے، وہ پرامن اور قانون پسند شہریوں کو اغواء کرتے ہیں اور انہیں بے رحمی اور سفاکی سے قتل کرتے ہیں۔ اس دوران ان کی وڈیو ریکارڈ کرتے ہیں اور مقتول کی یہ وڈیوز ورثاء کو بھیجی جاتی ہیں۔
جب ڈاکو سائیں اللہ رکھیو کو مار رہے تھے، ان کی وڈیو فیس بک پر وائرل ہو گئی۔ اس وڈیو سے پہلے کی کئی اور وڈیو بھی وائرل ہوئیں جن میں مغوی رو رو کر التجا کر رہے تھے کہ خدارا! ان کی جان بچائی جائے۔ یہ ڈاکو بلکہ دہشت گرد اب دن دھاڑے مختلف دیہات میں جاکر تھانوں پر حملہ کرتے ہیں، جسے چاہیں اغواء کر کے لے جاتے ہیں۔ شمالی سندھ میں راتوں کو سناٹا چھا جاتا ہے۔ سکھر سے ملتان، موٹر وے شام سات بجے کے بعد بند کر دی جاتی ہے کیونکہ ان راستوں پر اب ڈاکو راج ہے۔
کشمور اور ملحق علاقوں میں کون سا وڈیرہ یا پیر ہے، جس کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں ہے؟ وہ کون سا سردار، وڈیرہ یا پھر پیر ہے، جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈاکوؤں سے تعلق نہیں؟ وڈیروں اور گدی نشین سیاسی خانوادوں کی طاقت کا سرچشمہ رعب داب، قانون شکنی اور دہشت ہے، ڈاکوؤں کے گینگ کا تو دھندا ہی دہشت سے چلتا ہے، لہٰذا دونوں ایک دوسرے کے مددگار بن جاتے ہیں کیونکہ مقصد مشترکہ ہے۔
فاطمہ پھرڑو کی وڈیو بھی اسی طرح وائرل ہوئی تھی، جب وہ پیر آف رانی پور کے کمرے میں جنسی زیادتی کے بعد اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی اور اب سائیں اللہ رکھیو کی۔۔ سائیں اللہ رکھیو کا قتل ڈاکوؤں نے اس لیے کیا کہ ان کے عزیز و اقارب تاوان وقت پر ادا نہیں کر سکے۔ ان کے قتل نے سندھ کے ضمیر کو جھنجوڑ دیا ہے۔ان ڈاکوؤں کا تعلق ان گروہوں سے ہے، جو پنجاب کی سرائیکی بیلٹ میں سرگرم ہیں۔ یہاں پر رینجرز یا پولیس کے ساتھ مقابلے میں ایسے افراد بھی مارے گئے ہیں، جن کا تعلق وزیرستان سے ہے۔
ان لوگوں کو اسلحہ یہاں سے مہیا کیا جاتا ہے یا یوں کہیے کہ ان لوگوں کے لیے یہاں اغواء برائے تاوان کی بہت بڑی صنعت ہے، جن لوگوں کو یہ اغوا کرتے ہیں، ان کا تعلق یا توکسی پڑھے لکھے متوسط گھرانے سے ہوتا ہے یا پھرکاروباری طبقے سے۔ اب تک ان ڈاکوؤں نے کسی وڈیرے، پیر سید یا قبائلی سردار کو اغواء نہیں کیا۔ ان علاقوں میں نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے خصوصاً ہندو برادری، جن کا تعلق کاروباری طبقے سے ہے، جن کا سندھ کے شمالی علاقوں میں رہنا محال ہوچکا ہے۔
یہ ہندو برادری ہندوستان جا رہی ہے کیونکہ ہندوستان میں مودی حکومت نے ایسے لوگوں کی ہجرت اور سیٹلمنٹ کے لیے لچکدار شرائط اور پالیسی بنائی ہے، جن کو بہ آسانی ہندوستان کی شہریت بھی مل جائے گی۔
پندرہ سال سے پیپلز پارٹی سندھ پر حکومت کر رہی ہے۔ پانچ سال مزید مل چکے ہیں، سندھ میں جاگیردارنہ طبقاتی نظام قائم ہے ،نوے فیصد وڈیرے، پیر، گدی نشین اور سردار پیپلز پارٹی کا حصہ ہے لہٰذا پیپلز پارٹی کو اگلے بیس سال تک کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ سندھ کے وہ سیاسی گھرانے جو روایتی جاگیردار ،گدی نشین اور سردا نہیں ہیں، وہ پیپلزپارٹی کی سرپرستی میں جاگیردار بن چکے ہیں۔ سندھ میں جن لوگوں نے سرکاری نوکریوں سے پیسہ کمایا ہے، انہوں نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں جاگیرداری کے مورچے سنبھال لیے ہیں۔
سندھ کی صوفی تحریک کم ازکم پانچ سو سال پرانی ہے۔ اس تحریک نے مذہب کو نفرت کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا۔ سندھ میں سب سندھی تھے، کثیرالمذہبی روایات اورثقافت نے مذہبی منافرت کو جڑ پکڑنے نہیں دی۔ مندر اور مسجد کا وجود آمنے سامنے ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی اور دیگر شہروں میں مذہبی فساد کرائے گئے، کراچی میں جو ہندو تاحال موجود تھے، انہیں بھی ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان کی جائیدادوں پر قبضے کیے گئے۔
یوں سندھ میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف تحریک دم توڑ گئی، نئی شہری ترتیب میں مذہبی سیاست کو فروغ ملا، ماسوائے چند ترقی پسند لوگوں کے علاوہ، جن میں کامریڈ حسن ناصر تھے اور جمال نقوی وغیرہ۔
کراچی سے جن لوگوں نے نقل مکانی کی، وہ ہندو تھے مگر طبقاتی طور پر مڈل کلاس لوگ تھے۔ انہوں نے سندھ کے شہروں کو آباد کیا، شکار پور کی خوبصورت ثقافتی عمارتوں کے وہ آج بھی مکین ہیں، انجینئرنک، میڈیکل، فنانس اور لاء جیسے پروفیشن میں ہندو، پارسی اور اینگلو انڈینز کی قطعی اکثریت تھی، فلم و ڈرامہ اور آرٹ میں بھی یہی تھے، وہ فلاحی و خوبصورت تعمیرات، علم و ادب و ترقی میں ان کا کردار شاندار ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری کو دریافت کرنے والے بھی ہندو تحقیق دان تھے۔ انہوں نے یہاں سے جا کر بھی بڑا نام کمایا۔
کشمور، شکارپور اور اس کے نواحی علاقوں کو اگر آج ہم دیکھیں توکھنڈر بن چکے ہیں، جن کا ذکر کال مارکس نے ہندوستان کے عظیم تجارتی مراکز میں کیا ہے۔ جاگیرداری اور سرداری نظام عروج پر ہے۔ ڈاکوؤں اور ان کی دہشت کا راج ہے۔
آج یہ میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ تمام لوگ جو سندھ سے جانا نہیں چاہتے تھے، سندھ میں ہوتے تو شاید سندھ ایسا نہ ہوتا، جو آج ہے۔۔ مگر اس میں کانگریس کے مفاد اور مرضی بھی شامل تھی۔
میرے والد اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ پھر سندھ ایسا تبدیل ہوا کہ وڈیروں کی دسترس میں آ گیا اور بربادی کا یہ عالم ہے کہ لگ بھگ ایک کروڑ کے قریب بچے پرائمری اسکول اور تعلیم کے زیور سے محروم ہیں، بنیادی صحت کے یونٹ کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
کتنا خوبصورت لفظ ہے ’’سائیں‘‘ یہ لفظ شاہ عبداللطیف نے بھگت کبیر کی شاعری سے لیا ہے اور پھر یہ لفظ آہستہ آہستہ اپنے معنی تبدیل کرتا گیا۔ یہ لفظ سندھی زبان کا انتہائی محترم لفظ ہے۔ اس لفظ کے ساتھ ہم اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
سندھ میں امیروں کے نام مختلف اور غریبوں کے نام بھی مختلف ہیں۔ سائیں اللہ رکھیو کسی امیر، وڈیرے یا جاگیردار یا پھر ان کی اولادوں کا نام نہیں ہے، ایسے نام صرف غریب لوگ ہی رکھتے ہیں۔ سائیں اللہ رکھیو کو ڈاکوؤں نے پہلے اغواء کیا، پھر ان کے ورثاء سے تاوان کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر سائیں اللہ رکھیو کو قتل کر دیا۔ قتل کرتے وقت ان کی وڈیو بنائی اور ان کے ورثاء کو بھیج دی۔ پھر ستم ظریفی کا یہ عالم کہ پولیس نے کئی دنوں تک اس واقعے کی ایف آئی آر نہیں کاٹی۔
سائینم سدائیں کریں متھے سندھ سکار،
دوست مٹھا دلدار، عالم سب آباد کریں۔
’شاہ لطیف‘
ترجمہ : میرے مالک سندھ کو ہمیشہ آباد رکھنا اور پوری دنیا کو خوشحال رکھنا۔
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس