واٹس ایپ، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی میسجنگ ایپلیکیشن ہے، نے 2009 میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس کے بانیوں، جان کوم اور برائن ایکٹن، نے ایک ایسی ایپلیکیشن کی تخلیق کی، جس نے عالمی سطح پر لوگوں کے باہمی رابطے کے طریقے کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اس فیچر میں ہم واٹس ایپ کے پندرہ سالہ شاندار سفر، اس کی کامیابیوں، اور اس کے مستقبل کے بارے میں بات کریں گے۔
کہتے ہیں کہ خواب وہ نہیں جو نیند میں دیکھے جائیں، بلکہ خواب وہ ہوتے ہیں، جنہیں پورا کرنے کی لگن نیند اچاٹ کر دیتی ہے۔۔ کچھ لوگ
خواب پورے نہ ہونے کے ڈر سے خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں، لیکن یہ ایسا ہی ہے، جیسے موت کے خوف سے جینا چھوڑ دیا جائے
لیکن کبھی کبھی عجیب اتفاقات ہوتے ہیں۔۔ خواب کا پورا نہ ہونا بھی انسان کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیتا ہے، جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا
جین کوم اور برائن ایکٹن نے بھی اپنی آنکھوں میں ایک ایسا خواب سجایا تھا، جس کا پورا نہ ہونا ان کی زندگی کی سہانی تعبیر میں ڈھل گیا۔۔ یہ خواب تھا فیس بک میں ملازمت حاصل کرنا۔۔۔ انہوں نے فیسبک میں ملازمت کے حصول کے لیے درخواست دی لیکن ان کی درخواست رَد کر دی گئی
جین کوم سولہ سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ سوویت سوشلسٹ ریپبلک یوکرین سے امریکہ آئے، اور کیلیفورنیا میں ایک سوشل سکیورٹی پروگرام کے تحت ان کو دو کمروں کا ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ الاٹ ہوا
پروگرام کے مطابق ان کے والد کو بھی جلد امریکہ آ جانا تھا، لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔ ان کے والد یوکرین میں ہی چل بسے۔
امریکہ آ کر جین کوم کی ماں بے بی سٹر اور پھر ایک گروسری اسٹور میں کلینر کا کام کرتی رہیں۔ لیکن وہ بھی چند ہی سال بعد سنہ 2000 میں کینسر کے موذی مرض کا شکار ہو کر دارِ فانی سے کوچ کر گئیں
اب جین کوم کے لیے زندگی آسان نہیں رہی لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ارنسٹ اینڈ ینگ لمیٹڈ میں انفراسٹرکچر انجینیئر کے طور پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، یہیں ان کی ملاقات برائن ایکٹن سے ہوئی۔
ان دونوں نے ایک ساتھ ’یاہو‘ میں ملازمت اختیار کی اور اگلے نو برس تک اس ادارے سے منسلک رہے۔ ستمبر 2007 میں دونوں نے اس ملازمت کو ایک ساتھ خیرباد کہا اور ایک سال تک جنوبی امریکہ کی سیاحت اور فرسبی کے کھیل میں اپنی مہارت دکھاتے رہے۔
طویل چھٹیوں سے واپس لوٹے تو فیسبک میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔ جیڈا کہ ہم ابتدا میں بتا چکے ہیں کہ فیس بک میں کام کرنا سن خواب تھا، مگر پورا نہیں ہوا۔ اس وقت برائن ایکٹن اور جین کوم نے اپنی اپنی راہ لی۔
یہ وہ وقت تھا، جب اسٹیو جابز آئی فون بنا چکے تھے۔ جین کوم نے بھی جنوری 2009 میں جب اپنے لیے ایک آئی فون خریدا تو انہیں معلوم ہوا کہ سات ماہ قبل لانچ کیے گئے ایپ اسٹور کے باعث ایپ تخلیق کرنا مکمل طور پر ایک نئی صنعت بن چکا ہے۔
تبھی جین کوم نے ایک ایپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نام ’واٹس ایپ‘ رکھا جو بہت حد تک ’واٹس اَپ‘ کی طرح سنائی دیتا ہے، اگر اُردو میں اس کا مطلب نکالا جائے، تو یہ بنتا ہے: ’کیا ہو رہا ہے؟‘
جین نے ایک ہفتے بعد ہی اپنی تینتیسویں سالگرہ کے موقع پر 24 فروری 2009 کو واٹس ایپ کے نام سے کیلیفورنیا میں کمپنی رجسٹرڈ کروا لی اور یہ ایپ اِسی برس اگست میں ’آئی فون‘ کے ایپ اسٹور پر جاری کر دی گئی۔
اگرچہ ابتدا میں واٹس ایپ کو کامیابی نہیں ملی مگر کوم نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اس وقت بھی خواب دیکھنا نہیں چھوڑے تھے، جب فیس بک میں ملازمت نہیں ملی تھی اور وہ اب بھی پرامید تھے۔۔
ابتدائی طور پر، واٹس ایپ ایک سادہ میسجنگ ایپ تھی جو صارفین کو انٹرنیٹ کے ذریعے پیغامات بھیجنے کی اجازت دیتی تھی۔ تاہم، اس کی سادگی، تیز رفتار، اور بغیر اشتہارات کے تجربے نے اسے بہت جلد مشہور بنا دیا۔ یوں جلد ہی جین کوم کے علاقے میں لوگ ایس ایم ایس کی جگہ واٹس ایپ کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنے لگے۔
جین کوم کے دوست ایکٹن اس وقت تک بے روزگار تھے، کوم کے اصرار پر انہوں نے نئی کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی اور کمپنی کے شریک بانی بن گئے، کیوںکہ انہوں نے کمپنی کے لیے اڑھائی لاکھ ڈالر کی ابتدائی فنڈنگ کا بندوبست کیا تھا اور یہ کچھ آسان نہیں تھا مگر ایکٹن ’یاہو‘ کے زمانے کے اپنے پانچ دوستوں کو یہ سرمایہ کاری کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے جین کوم کی اس ایپ نے کمیونیکیشن کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا، جس نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیا۔
دوسری جانب واٹس ایپ کے آغاز کے دو سال بعد چین کی پیغام رسانی کی مقبول ایپ ’ووئی چیٹ‘ بھی لانچ ہو گئی۔
سنہ 2013 تک واٹس ایپ کے صارفین کی تعداد بیس کروڑ سے تجاوز کر چکی تھی اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔
اس دوران واٹس ایپ نے بہت سی تبدیلیاں دیکھیں، جیسے تصویریں بھیجنا ممکن ہوا جبکہ وائس مسیجنگ کا آغاز ایک انقلابی پیش رفت تھی۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ واٹس ایپ کے پہلے ایک سال کے دوران اس کو سبسکرائب کرنے کی سالانہ ایک ڈالر فیس ختم کر دی گئی اور اس کی تمام خدمات بلامعاوضہ ہو گئیں۔
یوں واٹس ایپ کی مقبولیت میں اضافہ ہونے کے ساتھ، اس نے نئے فیچرز متعارف کرائے۔ 2010 میں، اس میں گروپ چیٹس کی سہولت شامل کی گئی، جس نے اسے مزید مفید بنا دیا۔ 2013 میں، واٹس ایپ نے وائس میسجز کی سہولت متعارف کرائی، جس سے صارفین اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو صوتی پیغامات (وائس میسیجز) بھیج سکتے تھے۔
واٹس ایپ نے 2015 میں وائس کالنگ فیچر متعارف کرایا، جس سے صارفین مفت انٹرنیٹ کالز کر سکتے تھے۔ 2016 میں، وڈیو کالنگ فیچر بھی شامل کیا گیا، جو کہ خاص طور پر ان ممالک میں بہت مشہور ہوا، جہاں بین الاقوامی کالز مہنگی تھیں۔
وہ جین کوم، جنہیں کبھی فیسبک نے ملازمت دینے سے انکار کر دیا تھا، اسی فیسبک کے مالک مارک زکربرگ نے ایک روز انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا اور واٹس ایپ خریدنے کی پیشکش کی۔
یوں دس روز بعد فیسبک کی جانب سے واٹس ایپ کو انیس ارب ڈالر میں خریدنے کا معاہدہ طے پا گیا، جو فیسبک کی اب تک کی سب سے بڑی کاروباری ڈیل قرار دی جاتی ہے۔
ساتھ ہی جین کوم فیسبک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل ہو گئے اور آنے والے برسوں میں واٹس ایپ کی حیران کن ترقی کا مشاہدہ کرتے رہے۔
فیس بک کے ساتھ اس اشتراک نے واٹس ایپ کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ فیس بک کے وسائل اور انفراسٹرکچر نے واٹس ایپ کو مزید مستحکم اور محفوظ بنایا، جبکہ اس کی آزادی اور سادگی کو برقرار رکھا گیا۔
یاہو نیوز پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں مصنف پرانوو ڈکشت لکھتے ہیں ”سنہ 2014 میں ٹیکسٹ میسیجنگ ان چند چیزوں میں سے ایک تھی، جو آپ واٹس ایپ پر کر سکتے تھے۔ اس پر کوئی ایموجی نہیں تھی، جس کے ذریعے آپ اپنا ردعمل ظاہر کر سکتے، نہ ہی آپ ایچ ڈی وڈیوز، جی آئی ایف یا اسٹیکرز بھیج سکتے تھے، اس سال کے اختتام تک آپ کو اپنا میسیج پڑھے جانے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا اور وائس یا وڈیو کالنگ کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں پچاس کروڑ سے زیادہ لوگ واٹس ایپ استعمال کر رہے تھے، وہ موبائل کمپنیوں کو ایک ایک میسیج پر رقم ادا کرنے کے بجائے دوستوں اور رشتہ داروں کو کوئی رقم ادا کیے بغیر لاتعداد میسیجز کر رہے تھے۔“
رواں برس واٹس ایپ کو لانچ ہوئے پندرہ برس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ اب صرف عام لوگوں کی زندگی کا ہی اہم ترین حصہ ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں سیاسی جماعتوں کی پروپیگنڈا مشینری کا اہم ترین جزو بن چکی ہے۔
علاوہ ازیں 2018 میں، واٹس ایپ نے چھوٹے اور بڑے کاروباری اداروں کے لئے واٹس ایپ بزنس ایپ متعارف کرائی۔ دنیا بھر میں کروڑوں کاروبار واٹس ایپ کے ذریعے صارفین تک رسائی حاصل کر رہے ہیں، یہ لوگوں اور کاروباری اداروں کو رقم ارسال کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے اور اشاعتی ادارے، برانڈز اور انفلوئنسرز اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ اب دو مختلف دنیائوں میں رہنے والوں کے لیے رابطے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔
2024 تک، واٹس ایپ نے دنیا بھر میں دو بلین سے زائد صارفین کا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ یہ ایپ روزانہ کی بنیاد پر پیغامات، کالز، اور میڈیا شیئرنگ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مستقبل میں، واٹس ایپ مزید جدید فیچرز متعارف کرانے کا ارادہ رکھتا ہے، جیسے کہ مزید بہتر انٹرپرائز سروسز اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی فیچرز۔
ہفنگٹن پوسٹ کے برطانوی ایڈیشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ”حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں پچیس ممالک ہی ایسے ہیں، جہاں واٹس ایپ میسیجنگ ایپس میں سب سے آگے نہیں ہے۔ برطانیہ کی 58 فی صد آبادی اپنے فون پر واٹس ایپ استعمال کرتی ہے، یوں یہ ملک میں فیسبک مسینجر سے بھی زیادہ مقبول چیٹ سروس ہے۔ دوسری سروسز جیسا کہ وائبر نے مارکیٹ میں اسی طرح اثرانداز ہونے کی کوشش کی، مگر وہ زیادہ دیر اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکی۔“
یوں تو واٹس ایپ ایک شخص کے خواب کی تعبیر تھی لیکن اب یہ دنیا بھر کے لوگوں کی اہم ضرورت بن چکی ہے، اس نے دنیا کو گلوبل ولیج بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
واٹس ایپ کا پندرہ سالہ سفر ایک مثال ہے کہ کیسے ایک سادہ اور مستحکم آئیڈیا عالمی سطح پر انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ جان کوم اور برائن ایکٹن کا وژن، اور فیس بک کے ساتھ اشتراک نے واٹس ایپ کو دنیا کی سب سے مقبول میسجنگ ایپ بنا دیا ہے۔ اس سفر کے دوران، واٹس ایپ نے کئی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔