بھابھی کا فون یا دوستوں سے ضروری ملاقات؟

حسنین جمال

پینتالیس پچاس کی عمر میں دوست جب ملتے ہیں تو سارے اپنی اپنی جیبوں سے موبائل نکال کے بچوں کی فوٹو دکھا رہے ہوتے ہیں۔

’یہ بڑے والا ہے، بارہویں میں ہے، بڑا نکما ہے۔‘

’یہ بیٹی ہے، ایم بی بی ایس فرسٹ ایئر میں ہے، دن رات پڑھتی ہے۔‘

’یہ چھوٹا جوان ہے، دو سال کا ہے، ایویں یار دل کرتا تھا گھر میں کوئی بچہ ہو۔۔۔‘

چل سو چل، دو گھنٹے گزر جاتے ہیں اور دوست اٹھ کے بکھر جاتے ہیں۔

میں نے اپنے دوستوں کو خود کے لیے کبھی کچھ کرتے نہیں دیکھا۔ جس سے بھی ملتا ہوں وہ کہتا ہے ’پلاٹ خرید لیا ہے، بس انشاءللہ سال دو سال میں گھر تیار ہو ہی جائے گا، یار بچوں کی چھت تو اپنی ہوگی، نالے وڈا گھر ہوئے گا تے شادیاں دے بعد وی جگہ بہتیری (گھر بڑا ہو جائے گا تو بچوں کی شادی کے بعد بھی جگہ کا مسئلہ نہیں ہوگا۔)

جنہوں نے پلاٹ نہیں لیا ہوگا، وہ فائلوں کے گیڑے میں ہوں، دن رات لگاتار نوکری، پلاٹ، گھر، بچوں کی تعلیم اور حرام توبیاں، اس میں ان کی زندگی تیزی سے گزر رہی ہو گی۔

ان کا خرچہ دیکھتا ہوں میں، پیٹرول، جس سواری پہ دفتر جاتے آتے ہیں اس کا، سگریٹ، پان یا چائے جیسا اگر کوئی شوق ہے تو وہ، ایک ٹائم جب گھر سے باہر ہیں تو کوئی سستا سا کھانا، فنش!

کپڑے، وہی صدیوں پرانے ہوں گے۔ جوتے، کوئی پروا نئیں کیسے ہیں۔ صبح اٹھے، نہائے دھوئے، ناشتہ کیا اور جو نکلے ہیں تو شام گئے واپس آئے۔ کس لیے بھاگ رہے ہیں؟ کیونکہ مرد کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ’پرووائیڈر‘ ہے۔ روزی روٹی والی دوڑیں اسی نے لگانی ہیں۔

حق بات ہے، کرو بابا لیکن اتنا کماتے ہو تو خود پہ خرچ کیوں نہیں کرتے؟ روز ایک ہی رنگ والے کپڑے پہن کے باہر کیوں گھومتے ہو؟ آرام دہ جوتے کیوں نہیں لیتے؟ پیسے ہیں تو سواری کیوں نہیں بدلتے؟ کھانے کا وقت آتا ہے تو اچھا کھانا کیوں نہیں کھاتے؟

یہ سب سوال جب میں اپنے دوستوں سے پوچھتا ہوں تو ان کا واحد جواب معذرت خواہانہ رویہ ہوتا ہے ۔۔۔ یار، یہی پیسے بیوی بچوں پہ لگا لیں گے، کچھ بن جائے گا، بچ جائیں گے تو ان کے کام آئیں گے، بچت کے فائدے ہوتے ہیں، و علیٰ ھذا القیاس۔

یہ سب ٹھیک باتیں ہیں لیکن مرد یہاں اپنے فوت ہونے کا آغاز کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا داری ہے تو زندگی ہے، شوق ہے تو جستجو ہے، لگن ہے تو چال ہے، یہ سب نہیں ہے تو کام آہستہ آہستہ ڈپریشن میں بدل جاتا ہے اور زندگی تو خیر بہر صورت وبال ہی لگتی ہے۔

دھرتی کا بوجھ، بیل کو لگتا تھا کہ اس کے سینگوں پر ہے، وہ سینگ بھی بدلتا تھا تو زلزلہ آ جاتا تھا، پھر بیل مر گیا اور زمین ٹکی رہی، کسی کا کیا گیا؟ بیل بے چارہ ایک ہی جگہ سینگ بدلتا بدلتا ختم ہو گیا، کون کرے گا اس سے تعزیت؟

یار تنخواہ بہت تھوڑی ہے، تب بھی اپنے جینے کا ایک راستہ ہونا چاہیے۔ ایسا راستہ جس کے آخر میں پلاٹ، فائلیں، گھر، دفتر اور ’بھابھی کا فون‘ نہ آتا ہو۔ آپ دوستوں سے نہیں ملیں گے تو جلدی مر جائیں گے، یہ تحقیق ہے باقاعدہ، تب کہاں جائیں گے بیوی بچے، تب گھر کہاں جائے گا؟ تب اس پلاٹ کا، ان فائلوں کا باقی پیسہ کون بھرے گا؟

جسے گھر میں اعتراض ہے آپ کے اکیلے باہر جانے پر، اسے بتائیں کہ بابا زندگی پہ تھوڑا حق میرا اپنا بھی ہے، چوبیس میں سے تین گھنٹے روزانہ میرے کیوں نہیں ہو سکتے؟ اور اگر وہ نہ مانے تو پیار محبت سے ترلا منت کریں، دوسرا کوئی راستہ کہاں ہو سکتا ہے؟

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فطرتاً گھر گُھسنے ہوتے ہیں، انہیں باہر سکون نہیں آتا لیکن گھر میں سکون دستیاب نہیں ہو پاتا۔ بڑے ارمانوں سے واپس آئیں گے لیکن آتے ساتھ ایسے مسائل تصوف ہوں گے کہ سب کچھ تیل ہو جائے گا۔ ان کے لیے ہدایت یہ ہے کہ چھ ضرب آٹھ فٹ کا سہی، اپنا گوشہ عافیت بنانے کی ہمت کریں۔

قبر میں سکون کس لیے ملتا ہے چونکہ آپ اکیلے ہوتے ہیں، جیتے جی بھی روزانہ ایک دو گھنٹے کا سکون آپ کا حق ہے لیکن اس کے لیے آپ اپنا جہان پیدا کرنا پڑے گا۔

اعتراض والی پارٹی کو جواب وہی کہ بابا سکون میں رہوں گا، تبھی تو یہ سب کچھ چلا سکوں گا، اس کے لیے بھی ریسرچ حاضر ہے۔

باقی ایک چیز ذہن میں رکھیے، اپنے لیے جگہ خود بنانا پڑتی ہے، تھالی میں رکھ کے کوئی نہیں دیتا۔۔ زندگی تو کبھی بھی سر نہیں مارنے دے گی، آج بھی نہیں، کل بھی نہیں اور پرسوں تو کم بخت بالکل بھی نہیں۔

اور یہ ’جگہ‘ جو ہے، گھر والوں کا، سب کا، برابر حق ہے، سکون سے لڑے جھگڑے بغیر ایک دوسرے کو دیں گے تو زیادہ دن تعلق کی خوشگواری قائم رہے گی، نہیں دیں گے تو جس نے لینی ہے اس نے ویسے بھی لے ہی لینی ہے، ہنس کے دے دیں، میں یہی سیکھ پایا ہوں۔

اور میرے پیارے ہم عمر دوستو، تم وہی لوگ تھے جن کے موبائلوں میں تھری جی پی کلپ بھرے ہوتے تھے اور تم دیوانہ وار ایک دوسرے کو بھیجتے تھے ۔۔۔ ابھی کون سا بخار چڑھ گیا ہے جو پھولوں سے میری گڈ مارننگ کراتے ہو اور جلتی ہوئی قندیل کے فوٹو سے مجھے شب بخیروا دیتے ہو؟

زندگی کو ہاتھ میں رکھو اور اس کے سہارے آگے بڑھو بابا ۔۔۔ اب کیچڑ شروع ہے ۔۔۔ یہ پھسلے، یہ گئے۔

چنگے بھلے سن راتی ابا جی، خورے کی ہویا سویرے بس اکی دم ۔۔۔ آہو ۔۔۔ اس کے بعد سب ختم! کُل خلاص! (رات ابا جی اچھے بھلے تھے، پتہ نہیں صبح کیا ہوا، بس ایک ہی دم فوت ہو گئے۔)

دوستوں کو وقت دیں یا اکیلے وقت نکالیں، ہمت والا کام ہے لیکن موت سے بھاگنا ہے تو مشورہ مان لیں!

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close