سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کا زوال اور ماحولیاتی المیہ

زاہدہ حنا

مجھے بچپن سے کتابوں سے عشق ہے۔ میں نے زندگی بھر کتاب، کاغذ اور قلم سے رشتہ جوڑے رکھا۔ زندگی میں جو بھی عزت یا نام مجھے ملا، وہ کتابوں سے عشق کے صدقے میں ملا۔ میں نے ساری عمر ہیرے جواہرات یا زمین جائیداد نہیں بنائی بلکہ کتابیں خریدیں۔ رات میں جب سوتے سے میری آنکھ کھل جاتی تو میں سرہانے رکھی کتاب اٹھا کر پڑھنے لگتی یا کلپ بورڈ پہ لگے کاغذ پہ کچھ لکھنے لگتی۔۔ یا تو کچھ دیر بعد نیند آ جاتی اور میں سو جاتی یا پھر لکھنے کا سلسلہ صبح تک جاری رہتا تو غرض یہ کہ کتابوں کا اور میرا ساتھ ہوش سنبھالنے کے ساتھ کا ہے۔

ہر قوم کی شناخت اس کے تاریخی ورثے، ادب اور علم کے مراکز سے وابستہ ہوتی ہے۔ کراچی کے علاقے ملیر میں قائم سید ہاشمی ریفرنس لائبریری اس سلسلے کی ایک زندہ مثال ہے۔ یہ صرف کتابوں کا ذخیرہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں علم، ثقافت اور تاریخ کی گہرائی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کا نام معروف بلوچ مصنف، شاعر اور عالم سید ظہور شاہ ہاشمی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ سید ظہور شاہ کو پہلی بلوچی لغت مرتب کرنے اور بلوچی زبان کا پہلا ناول لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔یہ لائبریری جو صبا دشتیاری نے قائم کی تھی، رضا کارانہ بنیادوں پر چلتی ہے۔ لائبریری سے وابستہ لوگ انتہائی جاں فشانی سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، لیکن آج اس لائبریری کو وہی قوتیں تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں جو ترقی کے نام پر ہر چیزکو روندنے میں مصروف ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے ملیر ایکسپریس وے منصوبہ جس نے جہاں کراچی کے کئی ہزار درختوں کوکاٹا، وہاں اب سید ہاشمی ریفرنس لائبریری بھی اس کا نشانہ بننے جا رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف لائبریری کی زمین کو قبضے میں لیا جا رہا ہے بلکہ یہ خطہ جو پہلے ہی قدرتی ماحول کے لیے اہم ہے، ماحولیاتی تباہی کا شکار ہو رہا ہے۔

سید ہاشمی ریفرنس لائبریری علم و ادب کا وہ خزانہ ہے جو کئی دہائیوں سے ہزاروں طلبہ، محققین اور ادیبوں کی پیاس بجھاتی رہی ہے۔ یہ لائبریری جہاں علم کا سرچشمہ ہے، وہیں بلوچستان کی ثقافت اور تاریخ کی اہمیت کو اجاگرکرتی ہے۔ سید ہاشمی جو بلوچستان کے نامور اسکالر اور ادیب تھے، ان کی علمی وراثت یہاں محفوظ ہے۔اس لائبریری کے خاتمے سے ایک ایسے دانشورانہ ورثے کو نقصان پہنچے گا جس کی تلافی شاید کبھی نہ ہوسکے۔

ملیر ایکسپریس وے کو حکومت نے کراچی کی ٹریفک کو بہتر بنانے کے نام پر متعارف کرایا ہے، مگر اس منصوبے نے پہلے ہی ملیر کے قدرتی وسائل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملیر ندی، جو اس خطے کا ماحولیاتی مرکز ہے، ایکسپریس وے کی تعمیر سے آلودگی اور قدرتی بیلنس کے بگاڑ کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ سڑک جو بظاہر ترقی کا استعارہ بنائی جا رہی ہے، درحقیقت قدرتی ماحول کی بربادی کا ذریعہ بن چکی ہے۔

ملیر ندی جو یہاں کے کسانوں اور عوام کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ ہے، اب آلودگی کا شکار ہے۔ یہ ندی جس نے ہزاروں سال سے اس علاقے کی زراعت کو سینچا، آج تعمیراتی آلودگی اور کیمیائی مواد سے تباہ ہو رہی ہے۔ملیر ایکسپریس وے صرف ایک سڑک نہیں ہے، یہ کراچی کی قدرتی ماحول کو مزید آلودہ کرنے کا سبب بن جائے گی ۔ ملیر ندی جو کبھی صاف و شفاف تھی، اب تعمیراتی کاموں اور آلودگی کی وجہ سے گندے نالے میں بدل رہی ہے۔ اس ندی کی بربادی کا اثر نہ صرف قدرتی وسائل پر پڑے گا، بلکہ یہاں کے مقامی لوگوں کی زندگیوں پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ کراچی کی ترقی کا ضامن ہے، مگر اس ترقی کی قیمت ماحول، ثقافتی ورثے اور عوام کی صحت کے بگاڑ کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ درختوں کی کٹائی، ندی کی آلودگی اور مقامی لوگوں کی بے دخلی اس ترقی کے ناپسندیدہ پہلو ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے ثقافتی ورثے اور قدرتی ماحول کی قدرکرنے سے قاصر ہیں۔ سید ہاشمی ریفرنس لائبریری اور ملیر ندی دونوں ایک ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک طرف لائبریری جہاں علم کے خزانے کو محفوظ رکھتی ہے، وہیں ملیر ندی اس خطے کی زندگی اور ماحولیات کا مرکز ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی کا مطلب صرف سڑکوں اور عمارتوں کا بنانا نہیں ہے، بلکہ اپنی ثقافت، تاریخ اور ماحول کو بچانا بھی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ سید ہاشمی لائبریری کو محفوظ کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے اور ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کا از سر نو جائزہ لے تاکہ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جا سکے۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت ترقی کے نام پر اپنے شہریوں کی ثقافت اور ماحول کو روندنے پر آمادہ ہے۔ ملیر ایکسپریس وے کا منصوبہ حکومت کی اس بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس نے نہ صرف قدرتی ماحول کومزید آلودہ کیا بلکہ علم و ادب کے ایک خزانے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عوامی سطح پر اس منصوبے کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں، مقامی رہائشی، ماہرین ماحولیات اور دانشور آواز اٹھا رہے ہیں، مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

ہمیں ایک ایسے مستقبل کی ضرورت ہے جہاں ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔ سید ہاشمی ریفرنس لائبریری صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ علم، تاریخ اور ثقافت کا مرکز ہے۔ ملیر ندی صرف ایک آبی راستہ نہیں، بلکہ یہاں کے لوگوں کی زندگی کا محور ہے۔ اگر ہم نے اپنی ثقافتی اور قدرتی وراثت کو بچانے کے لیے آج آواز نہ اٹھائی تو کل ہمارے پاس صرف افسوس اور پچھتاوا رہ جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close