اگلے روز ایک دانشور دوست ملنے آئے۔ انہیں چائے پیش کی، گپ شپ ہوتی رہی۔ اچانک کہنے لگے کہ اس پر غور ہونا چاہیے کہ ہم جس جال میں پھنس چکے ہیں، اس سے کیسے نکلیں؟ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید سیاسی حوالے سے بات کہی یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں وغیرہ کا ذکر ہے۔ ان سے وضاحت چاہی۔ انہوں نے برجستہ جواب دیا، میری مراد سوشل میڈیا سے ہے۔
پھر وہ دوست کہنے لگے کہ ’میری بہت اچھی شارپ میموری تھی، جو کچھ پڑھتا، سنتا یاد ہو جاتا۔ اب چار پانچ برسوں سے یہ حال ہے کہ کچھ ذہن میں نہیں رہتا۔ جہاں اتنا کچھ پہلے کا پڑھا یاد ہے، وہاں یہ حال ہو جائے کہ تین چار سطروں پر مبنی کوئی دعا بھی یاد نہ کر پاؤں۔ تشویش تو بنتی ہے۔ مجھے لگا کہ شاید یاداشت کم ہونے کا عارضہ (ڈیمنشیا) لاحق ہو گیا ہے۔ پریشانی سے بھاگا بھاگا ایک سینیئر نیورالوجسٹ کے پاس گیا کہ میرا تفصیلی چیک اپ کریں، دماغ کا سی ٹی اسکین یا ایم آر آئی جو مرضی کرانا ہے کرائیں، مگر مجھے اس کا علاج بتائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری یاداشت مکمل ختم ہو جائے۔‘
’نیورالوجسٹ نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پوچھا خیریت ہے، ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟ اسے تفصیل بتائی تو وہ ٹھٹھا مار کر ہنسا اور بولا پروفیسر صاحب یہ تو ہم سب کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس طرح تو پھر میں بھی ڈیمنشیا کا مریض ہوں، کوئی اور بھی نہیں بچے گا پھر۔
اس کے بعد کچھ اس ڈاکٹر نے بتایا اور کچھ میں نے خود سرچ کی تو معلوم ہوا کہ اس کی بڑی وجہ ہمارا روزانہ کئی گھنٹے سوشل میڈیا استعمال کرنا ہے جس کے باعث ہر کوئی شارٹ ٹرم میموری کا شکار ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کچھ پڑھتے یا سنتے ہیں تو دماغ اس پر غور کرنے کا پراسیس شروع کرتا ہے۔ وہ اس معلومات کو اپنے اندر جذب کرتا اور اپنے علم کے حساب سے اس کا تجزیہ کرتا ہے۔
یہ سوچ بچار کا عمل بڑا ضروری ہے۔ اس سے اہم اور قابل ذکر باتیں ہمیں یاد رہ جاتی ہیں جبکہ بہت سا کچرا اور بیکار باتیں ذہن ڈیلیٹ کر دیتا ہے۔ اب سوشل میڈیا خاص کر فیس بک، ایکس اور واٹس ایپ گروپس میں آنے والی پوسٹس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سب انتہائی مختلف موضوعات پر ہوتی ہیں۔ آپ اگر ایک گھنٹہ فیس بک دیکھیں، دس بارہ تحریریں پڑھیں تو دماغ میں بھونچال آ جائے گا۔ وہ چکرا جائے گا کہ کس پر غور کرے، کون سی معلومات اپنے پاس رکھے، کس سے جان چھڑائے؟
ہوتا یہ ہے کہ ایک پوسٹ ہم سیاسی پڑھتے ہیں جس میں پورے نظام کے بوسیدہ اور گلے سڑے ہونے کا نوحہ ہوتا ہے، اگلی پوسٹ میں کوئی سفرنامہ نگار اپنے سفر کی دلچسپ روداد سنا رہا ہوتا ہے مع خوبصورت تصویروں کے، ہم مجبوراً وہ دیکھتے اور پڑھ ڈالتے ہیں۔ اگلی پوسٹ میں کوئی خاتون اپنے کسی کھانے کی ریسیپی اور ساتھ خوش نظر کھانے کی ڈشز کی تصویر شیئر کر رہی ہے۔ اگلی دو پوسٹوں میں کوئی مذہبی مسئلہ یا بحث درپیش ہوگی۔ پھر کوئی اٹھے گا اور خاندانی نظام پر سوال اٹھا دے گا، کمنٹ میں نئی بحث چھڑ جائے گی۔ اور پھر کسی ایک پوسٹ میں شعروسخن کی باتیں ہوں گی۔ کسی جگہ ایک فلم بین اپنی کسی تازہ دیکھی فلم یا سیزن پر ریویو دے گا تو ساتھ ہی کہیں پر کوئی باذوق اپنے پسندیدہ گانے کو شیئر کر دے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اور ایسی ورائٹی کے ساتھ تحریریں اور تصاویر ہم کسی ڈائجسٹ یا میگزین میں بھی نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ان میں بھی اتنا زبردست تنوع نہیں ہوتا تھا کہ ہر صفحے پر نیا جہاں کھلا ہے، نئی دنیا، نئی کہانی، نیا نگر۔ یہ سب کچھ ایک لحاظ سے تو دلچسپ ہے، بہت کچھ قابل غور اور مفید بھی مل جاتا ہے۔ پرابلم وہی ہے کہ ہمارا دماغ اس سے چکرا جاتا ہے، پنجابی میں اس کے لیے زیادہ مناسب لفظ ہے، بھونتر جانا۔ دماغ جب منظم انداز سے انفارمیشن کو پراسیس نہیں کرے گا تو پھر شارٹ ٹرم میموری ہو جائے گی۔ کچھ یاد نہیں رہے گا۔ گھنٹوں سوشل میڈیا پر گزارنے کے بعد اٹھیں گے تو ایسا لگے گا جیسے کسی تیز رفتار ٹرین کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ کر باہر کے مناظر دیکھ رہے ہیں، سب کچھ مگر ادھورا ادھورا، کٹا کٹا، نامکمل ہی دیکھا جا رہا ہے۔‘
میں اپنے دوست کی باتیں دلچسپی سے سنتا رہا اور پھر مکمل اتفاق کرتے ہوئے اپنا شکوہ بیان کیا کہ میرے ساتھ ایک اور معاملہ بھی ہو گیا ہے کہ میرے پاس نیٹ فلیکس، ایمازون کی سبسکرپشن ہے، ایک ایسے پلیٹ فارم کی سالانہ سبسکرپشن بھی ہے جس پر بیسیوں ویب اسٹریمنگ چینل اور ہزاروں فلمیں موجود ہیں۔ چند واٹس ایپ اور ٹیلی گرام چینلز میں بھی شامل ہوں، جہاں نئی پرانی فلمیں، ڈرامے فری مل جاتے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود عملی طور پر میں کئی کئی ہفتے کچھ بھی نہیں دیکھ پاتا۔ اتنی زیادہ آپشنز اور اس قدر افراط سے میرا دماغ بھی بولایا پھرتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ بیسیوں ایسے سیزن اور فلمیں ہیں جنہیں میں نے دیکھنا شروع کیا، چند منٹ کے بعد یا آدھے پون گھنٹے میں اسے چھوڑ کر دوسری طرف چل پڑا۔ یوں ایک طویل فہرست ان فلموں، ڈراموں اور سیزنز کی ہے جسے میں نے مکمل کرنا ہے۔
ایک اور مصیبت فیس بک ریلز اور یوٹیوب شارٹس ہیں۔ اتنے زیادہ موضوعات پر ایسی ایسی دلچسپ ریلز آتی رہتی ہیں کہ کوشش کے باوجود اس سے نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ مجھے اسپورٹس سے دلچسپی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا دلچسپ یادگار کرکٹ کلپ سامنے آ جاتا ہے کہ دیکھے بغیر رہ نہیں پاتا۔ ڈینس للی کی یادگار باولنگ، تھامس کا کوئی طوفانی اسپیل، ویوین رچرڈ کی جارحانہ بیٹنگ، پاکستان کا کوئی بہت پھنسا ہوا یادگار میچ۔ عمران خان اور جاوید میانداد جیسے کھلاڑیوں کے کھیل کے یادگار لمحات۔ ایک دو بار وسیم اکرم کے انٹرویو کا کلپ سنا تو تب سے وسیم اکرم کی یادگار باولنگ کے درجنوں کلپس دیکھ چکا ہوں۔
میرے لیے یہ سب انٹرٹین کرنے والی چیزیں ہیں، مزا آتا ہے، مگر بات وہی ہے کہ جیسے طوفانی رفتار میں چلنے والی کسی ٹرین کی کھڑکی میں بیٹھے شخص کا باہر منظر دیکھنا۔ منزل پر پہنچ کر اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ ایسی کوئی بھی چیز ذہن میں نہیں رہتی جو اپنا امپیکٹ چھوڑ سکے۔ میرا بھی یہی حال ہو چکا ہے۔ کئی بار گھر والوں سے کہا کہ مجھے دو تین گھنٹوں کے لیے ’می ٹائم‘ چاہیے۔ مطلوبہ تنہائی اور اسپیس مل جاتی ہے، مگر وہ تین گھنٹے کسی اچھی یادگار فلم یا ڈرامہ دیکھنے کے بجائے رینڈم قسم کی ریلز، شارٹس پر صرف ہو جاتے ہیں اور بعد میں شدید پچھتاوا ہی رہتا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟
اس موضوع پر ہم پھر خاصی دیر بات کرتے رہے، سوچ بچار ہوتی رہی کہ کیا کرنا چاہیے۔ بعد میں انٹرنیٹ پر سرچ کیا، کئی اچھے آرٹیکلز بھی پڑھے۔ معلوم ہوا کہ یہ صرف ہمارا ایشو نہیں، دنیا بھر کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ماہرین اس پر غور کر کے تجاویز دیتے رہتے ہیں۔ مختلف حل تجویز کیے گئے۔ ان میں سے ایک دلچسپ حل ڈیجیٹل ڈی ٹاکس کرنا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل خود کو ڈی ٹاکس کرنے کا فیشن چل نکلا ہے۔ جسے دیکھو ہاتھ میں پانی کی بوتل لیے پھر رہا ہے، اس میں ادرک کا چھوٹا ٹکڑا، زیرہ یا کھیرا وغیرہ پڑا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی پینے سے جسم کے اندر کی تیزابیت، ایسڈ وغیرہ صاف ہو جائیں گے۔ اس نام سے گولیاں بھی ملتی ہیں، رات سوتے وقت پھانک لی جائے۔ کچھ اثر پڑتا ہی ہوگا۔
اب یار لوگ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل ڈی ٹاکس کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس کے لیے سوشل میڈیا سے کچھ وقفہ لیتے رہنا چاہیے۔ ہفتے میں ایک آدھ دن سوشل میڈیا ویب سائٹس بند رکھیں۔ اپنی مرضی کا کچھ الگ سے دیکھیں، سنیں۔ بے شک نیوز ویب سائٹس خود کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے دیکھ لیں مگر فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر ایکس، انسٹا وغیرہ سے وقفہ لیں۔
بعض لوگ جن میں حوصلہ اور ہمت ہوتی ہے، وہ تو اپنی ضروری اسائنمنٹس کے تحت کئی کئی دن بلکہ چند ہفتے تک یہ سوشل میڈیا سائٹس بند کر کے اپنا فوکس کام پر رکھتے ہیں۔ جب کام نمٹا لیا تب واپسی ہو گئی۔ یہ اور بات ہے کہ واپسی پر انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے بغیر بھی یہ ڈیجیٹل دنیا ویسے کی ویسے ہی چل رہی ہے، اس میں ذرا بھر بھی فرق نہیں پڑا۔ کوئی کر سکتا ہے تو ضرور یہ آپشن بھی ٹرائی کرے۔
میرے مسئلے کے حل کے لیے ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر کچھ دیکھنا ہے تو پلان کر کے دیکھیں اور ریلز، شارٹس وغیرہ میں نہ الجھیں۔ ایک لسٹ بنا لیں ان شاندار، شاہکار یا مسٹ واچ فلموں کی جو آپ کو دیکھنی چاہیے تھیں، مگر نہیں دیکھ پائے۔ ایک ایک کر کے انہیں نمٹا لیں۔ اپنی مرضی کا یانرا یعنی شعبہ منتخب کر لیں۔ وہ کریں جو اچھا لگے، دل کو بھائے، مگر اس کا کچھ امپیکٹ بھی ہو۔ جو آپ کے دل کی ڈوریوں کو ہلائے، دماغ پر گہرا اثر ڈالے اور اسے آپ بعد میں یاد بھی رکھ سکیں۔
یہی معاملہ کتاب پڑھنے کا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ پوسٹوں نے کتاب پڑھنے کے لیے وقت کم کر دیا ہے۔ یہ وقت واپس لینا بلکہ چھیننا پڑے گا۔ کوشش کر کے خود کو پھر سے کتاب کی طرف لائیں۔ کتاب ہی آدمی کو اندر سے میچور کرتی ہے، ہم کتابیں پڑھنے ہی سے گرو (Grow) کرتے ہیں۔ ہمارا ارتقائی سفر فوکس کے بغیر ممکن نہیں۔
اسی فوکس کو واپس لینا ہی اصل کہانی، اصل مرحلہ، اصل جدوجہد ہے۔ اسے کسی نہ کسی طرح کر گزریں۔ زندگی بدل جائے گی۔ یہ میں اپنے حالیہ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ آزما کر دیکھ لیں۔
بشکریہ اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)