تاریخ کے صفحات پر کچھ کہانیاں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں، جیسے وہ ہوائیں جو پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرا کر ان پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ جیسے چٹان پر مسلسل قطرہ قطرہ ٹپکتا وہ پانی، جو اس پر اپنا نشان ثبت کرتا ہے۔ یہ بھی ایک اہسی ہی کہانی ہے۔۔ ایک قبیلے کی کہانی، جو صدیوں تک آسمان کی چھاؤں اور زمین کی وسعتوں کے درمیان خانہ بدوشی کرتا رہا۔ ان کے گیت، ان کے مال مویشی، اور ان کی آزاد روحیں، سب کچھ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ تھا، لیکن جب سرحدوں کی لکیریں کھینچیں گئیں اور طاقتور قوموں کی سیاست نے آزادی کو پابند کیا، تو یہ خانہ بدوش قبیلہ بھی جبر کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ یہ داستان صرف ایک ہجرت کی نہیں، بلکہ عزم، قربانی، اور بقا کے اس سفر کی ہے، جو ان کے عظیم رہنما عبد الرحمان قُل کے ہاتھوں منزل تک پہنچا۔
وسطی ایشیا کے وسیع پہاڑوں کی ہوائیں، جو کبھی کرغیز خانہ بدوشوں کے مدھر گیتوں اور ان کے جانوروں کی گھنٹیوں کی لے سے گونجتی تھیں، آج تاریخ کی گمشدہ صداؤں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ خانہ بدوش، جن کا طرزِ زندگی زمین، آسمان اور موسموں کے ساتھ گہری ہم آہنگی پر مبنی تھا، صدیوں سے اپنے مال مویشیوں کے ساتھ مناسب موسم اور چراگاہوں کی تلاش میں سفر کرتے رہے۔ لیکن وقت کے پہیے نے ان کے روایتی انداز کو ایک اجنبی طرزِ زندگی میں بدل دیا۔ جدید دور میں قومی ریاستوں کے قیام عمل میں آیا، لکیریں کھینچ کر سرحدیں متعین کر دی گئیں۔ یوں قومی ریاستوں کی سرحدوں، سیاسی انقلابات اور طاقتور حکمرانوں نے ان کی آزاد فطرت کو پابند کر دیا۔
سب سے بڑا دھچکا 1917 میں لگا، جب روس میں کمیونسٹ انقلاب نے دنیا کے اس خطے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ سوویت حکومت نے نہ صرف کرغیزوں کی زمینوں پر قبضہ کیا بلکہ ان کی آزاد نقل و حرکت پر بھی سخت پابندیاں لگا دیں۔ ان کا طرزِ زندگی، جو فطری ہم آہنگی کی مثال تھا، سوویت سماجی نظریات سے متصادم قرار پایا۔ خانہ بدوشی کو ’پسماندگی‘ اور ’غیر پیداواری‘ سمجھ کر جدید صنعتی معاشرت کے پردے میں ان کی ثقافت کو مٹانے کی کوششیں کی گئیں۔
سوویت روس کی اس پالیسی، کمیونٹیز کے ثقافتی انداز میں دخل اندازی اور بارڈرز کو بند کرنے سے خانہ بدوشوں کے لیے نقل مکانی تقریباً ناممکن ہو گئی۔ جب نقل مکانی کے راستے بند ہوئے اور زمین تنگ ہونے لگی تو کرغیزوں نے اپنے روایتی خانہ بدوش طرزِ زندگی کو بچانے کے لیے ’واخان کوریڈور‘ کی طرف رخ کیا، جو ایک دور افتادہ اور مشکل گزار علاقہ تھا۔ افغانستان، چین، تاجکستان اور پاکستان کے درمیان واقع یہ وادی، جسے 19ویں صدی کے برطانوی حکام نے گریٹ گیم کے دوران برطانوی ہندوستان اور زارِ روس کے بیچ ایک بفر زون قرار دیا تھا، کرغیزوں کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ بن گئی۔ پامیر کے پہاڑوں کے دامن میں بسے اس علاقے میں انہیں اپنی روایات کے سائے میں جینے کا موقع ملا، جہاں کرغیزوں کے پاس اپنے مال مویشیوں کی پرورش کے لیے قدرتی وسائل دستیاب تھے۔
لیکن تاریخ کا جبر یہاں بھی ان کا پیچھا کرتا رہا۔ 1946 میں سوویت حملوں نے انہیں واخان سے چین کے سنکیانگ کی طرف دھکیل دیا، مگر چین بھی ان کے لیے ایک محفوظ مسکن ثابت نہ ہوا۔ چین میں 1949 کے کمیونسٹ انقلاب نے ان کے دلوں میں خوف و ہراس کے نئے بیج بو دیے، اور وہ دوبارہ واخان کی جانب پلٹ آئے۔ یہ واپسی ایک تلخ حقیقت کے ساتھ تھی: وہ اپنی جڑوں سے کٹ چکے تھے، اپنی زمینوں سے محروم ہو چکے تھے، اور سوویت وسطی ایشیا اور چین میں موجود دیگر کرغیزوں سے عملاً منقطع ہو چکے تھے۔
1970 کی دہائی میں معروف ماہرِ بشریات محمد نازف شہرانی نے ان کرغیزوں کی زندگی پر تحقیق کی اور ان کی کہانی کو دنیا کے سامنے لائے۔ وہ اپنی کتاب ’دی کرغیز اینڈ واخی آف افغانستان‘ میں لکھتے ہیں کہ سرحدوں کی بندش اور تنہائی نے ان خانہ بدوشوں کو اپنے مزاج کے برعکس ایک مضبوط رہنما کے گرد اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیا۔ عبد الرحمٰن قُل، وہ رہنما تھے، جنہوں نے ان بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ حالانکہ کرغیزوں کی کہاوت تھی، ’تین کرغیزوں کو ایک خیمے میں رکھیں، اور پانچ سردار مل جائیں گے۔‘ بہرحال کرغیز، جو عموماً کسی اتھارٹی کے تابع ہونا پسند نہیں کرتے تھے، وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں اس کرشماتی شخصیت کی قیادت تسلیم کرنا پڑی۔
1913ء میں مرغاب (موجودہ تاجکستان) کی سخت گیر وادیوں میں جنم لینے والے رحمان قُل میں قیادت کا ہنر گویا فطرت نے ہی ودیعت کر رکھا تھا۔ ان کی شخصیت میں ایک ایسی کشش تھی جو بکھرے ہوئے قبیلے کو ایک مضبوط دھاگے میں پرو سکتی تھی۔ یوں عبد الرحمٰن قل کی قیادت کٹھن اور کسمپرسی کے حالات میں کرغیزوں کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ سوویت قید میں گزارے گئے وقت نے رحمان قل کی حکمت اور مزاحمت کو مزید نکھارا، اور جب وہ واخان کی طرف فرار ہوئے، تو ان کے ساتھ ان کا عزم اور قبیلے کی حفاظت کا جنون بھی تھا۔
رحمان قُل ایک غیر معمولی رہنما تھے، جو نہ صرف ترک، اردو، فارسی، پشتو، روسی اور تھوڑی بہت چینی زبان جانتے تھے، بلکہ اپنے دور کے پیچیدہ سیاسی حالات کو بھی گہرائی سے سمجھتے تھے۔ ان کی قیادت میں قبیلہ افغان حکام سے نہ صرف تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب رہا بلکہ اپنی خودداری کو بھی قائم رکھا۔ ماہر بشریات محمد نازف شہرانی انہیں ایک کامیاب سردار قرار دیتے ہیں، جو مشکلات کے ہجوم میں اپنے قبیلے کے لیے روشنی کا مینار بنے رہے۔
تاہم، تاریخ کا دھارا کرغیزوں کے لیے ہمیشہ پرسکون نہیں رہا۔ 1978ء میں کابل میں روسی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد افغانستان ایک بار پھر عدم استحکام کی زد میں آ گیا۔ 1979ء میں سوویت افواج کے افغانستان پر حملے نے کرغیزوں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ رحمان قُل نے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے ایک اور جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ جولائی 1978ء میں انہوں نے اپنے 1300 افراد اور ان کے جانوروں کے ساتھ واخان کو خیرباد کہا اور پاکستان کا رخ کیا۔
ڈیورنڈ لائن کے اس پار، یہ قبیلہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ نے خود رحمان قُل کی قیادت میں گلگت بلتستان کے علاقے اشکومن میں سکونت اختیار کی، جبکہ دوسرا ان کے بیٹے عبدالوکیل کے ساتھ چترال کی بروغیل وادی میں جا بسا۔ مگر پاکستان کی ان وادیوں کا نیا ماحول، بیماریوں کا حملہ، اور چراگاہوں کی قلت ان کے لیے کسی نئے امتحان سے کم نہ تھا۔ ایک سال کے اندر اندر، 100 سے زائد کرغیز اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور سینکڑوں مویشی بھی مر گئے۔
سوویت-افغان جنگ کے بھنور میں پھنسے کرغیز خانہ بدوشوں کے لیے پاکستان بھی مکمل پناہ گاہ ثابت نہ ہو سکا۔ حکومتِ پاکستان کو ان کی سیاسی وفاداری پر شک تھا، اور یہ عدم اعتماد ان کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا گیا۔ مایوسی کے عالم میں، کچھ کرغیز دوبارہ واخان کی جانب پلٹ گئے، جہاں افغان حکومت نے ان کے خدشات کے برخلاف خوش آمدید کہا۔ مگر جو لوگ پاکستان میں مقیم رہے، ان کے لیے ایک اور ہجرت ناگزیر ہو چکی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب رحمان قُل، اپنی غیر معمولی قیادت اور بصیرت کے ساتھ، ایک بار پھر امید کی کرن بن کر ابھرے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کے قبیلے کا اگلا ٹھکانہ کسی قریبی خطے میں نہیں، بلکہ ایک دنیا کے پار، ایک نئی سرزمین میں ہوگا۔۔ جب انہوں نے شمالی امریکا کے سرد علاقے الاسکا کا نام لیا تو قبیلے کے لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ کئی لوگوں نے اسے دیوانے کا خواب کہا، لیکن رحمان قُل کا ارادہ غیر متزلزل تھا۔ ان کے نزدیک الاسکا کا سخت موسم کرغیزوں کی فطرت سے ہم آہنگ تھا، اور وہاں وہ سیاسی کشمکش سے دور، سکون کی زندگی گزار سکتے تھے۔
یہ خواب جلد ہی اخبارات کے ذریعے دنیا تک پہنچا اور امریکا میں انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے حلقوں نے رحمان قُل کی حمایت شروع کر دی۔ اس دوران اپنے دشمن روس کی وجہ سے امریکا، افغانستان سے ہجرت کرنے والوں کی مدد میں بھی پیش پیش تھا۔ رحمان قُل نے سفارتی ذرائع کا سہارا لے کر امریکی حکام تک اپنی اپیل پہنچائی، لیکن بدقسمتی سے ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
مگر قبیلے کے بوڑھے سردار رحمان قُل نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا۔ الاسکا کے دروازے بند ہونے کے بعد، انہوں نے ترکی کو اپنی منزل کے طور پر چنا۔ کرغیز، ترکوں کو اپنی ثقافت اور تاریخ کے لحاظ سے قریب سمجھتے تھے، اور رحمان قُل کو یقین تھا کہ ترکی انہیں ضرور قبول کرے گا۔ اس بار قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔ 1981 میں ترک صدر جنرل کنعان ایورن پاکستان کے دورے پر آئے۔ رحمان قُل نے اشکومن کی تنہائی میں بیٹھ کر ایک اور سفارتی مہم شروع کی اور ترکی کے سفارت خانے کے ذریعے اپنی اپیل صدر تک پہنچائی۔
ترک صدر نے نہ صرف ان کی درخواست سنی بلکہ فوری طور پر کرغیزوں کو ترکی منتقل کرنے کا حکم بھی دیا۔ یوں، رحمان قُل کے خواب کو نئی تعبیر ملی، اور ان کا قبیلہ آخرکار اپنی طویل اور کٹھن ہجرت کے بعد ایک ایسی سرزمین پر پہنچا، جہاں ان کے لیے نہ صرف امن بلکہ ثقافتی ہم آہنگی کے مواقع بھی موجود تھے۔
اگست 1982 کا وہ لمحہ کرغیز خانہ بدوشوں کی صدیوں پر محیط خانہ بدوشی کے اختتام کا اعلان تھا۔ پشاور اور راولپنڈی کی منڈیوں میں اپنے قیمتی ریوڑ فروخت کرنے کے بعد، یہ قبیلہ چارٹر طیاروں میں سوار ہوا، جو انہیں ایک نئی دنیا کی طرف لے جا رہے تھے۔ یہ طیارے انہیں ترکی لے جانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔۔ ایک ایسی منزل، جہاں ان کے خوابوں کو حقیقت کی زمین ملنے والی تھی۔
ترکی میں ابتدائی طور پر یہ قبیلہ کورگن کے قریب آباد ہوا، لیکن جلد ہی انہیں وان کے اولو پامیر علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں، ان پہاڑیوں اور میدانوں میں، ان خانہ بدوشوں نے اپنی جڑیں گاڑھ لیں اور خانہ بدوشی کے عہد کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔
عشروں پر پھیلے سیاسی بحرانوں، خطے کے بدلتے حالات کی ستم ظریفیوں کے درمیان اپنے قبیلے کی حفاظت کرنے اور طویل جدوجہد سے بالآخر انہیں ایک مستقل گھر دینے کے بعد 1990 میں رحمان قُل نے دنیا سے رخصت لی۔
یہ سفر آسان نہ تھا۔ یہ کہانی ان مشکلات، قربانیوں، اور امید کی ہے جو اس قبیلے کے افراد نے اپنی شناخت اور بقا کے لیے دی۔ ان کے رہنما، رحمان قُل، وہ شخص تھے جن کی بصیرت اور عزم نے ان کے لیے ممکن بنایا کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ کرغیز نسل کے لوگ انہیں ایک عظیم رہنما اور نجات دہندہ کے طور پر یاد کرتے ہیں، جس نے اپنی قوم کو بھٹکتی ہوئی حالت سے نکال کر ایک مستقل ٹھکانے تک پہنچایا۔
واخان کی چراگاہوں سے لے کر چترال اور گلگت کی وادیوں تک، اور وہاں سے ترکی کی جدید زندگی تک کا یہ سفر محض ایک ہجرت نہیں بلکہ انسانی عزم، ثقافت، اور شناخت کے تحفظ کی داستان ہے۔ یہ کہانی آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بدلتی دنیا میں مقامی کمیونٹیز کے وجود اور روایتی طرزِ زندگی کو محفوظ رکھنا کتنا ضروری ہے۔