صنعتی انقلاب اور انسانی مداخلت نے فطرت کے نظام کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے، جس کے اثرات جا بہ جا دیکھے جا سکتے ہیں
ان اثرات سے دریا اور جھیلیں بھی محفوظ نہیں رہ سکیں، ان میں موجود میٹھے پانی کی مچھلیوں کی اقسام تیزی سے روبہ زوال ہیں
اس سلسلے میں ایک بہت وسیع تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر کے نصف دریاؤں میں مچھلیوں کی حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں
فرانس کے شہر تولوز میں واقع پال سباتیئر یونیورسٹی کے سباسٹیئن بروس اور ان کے ساتھیوں نے پوری دنیا میں 2456 دریا اور ان کے طاس کا ڈیٹا جمع کیا ہے۔ اس ضمن میں دس برس تک دریاؤں کے اعداد و شمار جمع کئے گئے ہیں
ان دریاؤں میں 14 ہزار اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، جو میٹھے پانی میں موجود مچھلیوں کی 80 فیصد اقسام کو ظاہر کرتی ہیں
سباسٹیئن اور ان کے ساتھیوں نے انسانی سرگرمیوں سے مچھلیوں کے اقسام میں سکڑاؤ کو صفر سے 12 نمبر دیئے ہیں، یعنی اسکور جتنا زیادہ ہوگا تو جھیل میں مچھلیوں کی کمی اتنی ہی زیادہ ہوگی
نتائج سے ظاہر ہوا کہ 53 فیصد دریائی طاس کا اسکور 6 سے اوپر رہا، جس کا واضح مطلب ہے کہ انسانی مداخلت نے یہاں مچھلیوں کی اقسام کو شدید متاثر کیا ہے۔ متاثر ہونے والے اکثر دریا امیر ممالک میں شامل ہیں، جن میں یورپ اور شمالی امریکی اقوام سرِ فہرست ہیں۔ سروے کے مطابق یہاں کے دریاؤں کو انسانی سرگرمیوں سے شدید خطرہ ہے
جب کہ 14 فیصد دریا ایسے بھی ہیں جہاں انسانوں کی مداخلت سے قدرے کم تباہی ہوئی ہے، لیکن وہاں مچھلیوں کی صرف 20 فیصد تعداد ہی پائی جاتی ہے۔ ایسے دریا آسٹریلیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افریقہ میں صنعتی ترقی کی رفتار قدرے سست ہے، جبکہ آسٹریلوی دریاؤں کی اطراف بہت کم آبادی پائی جاتی ہے
جن جن دریاؤں کے کنارے معاشی سرگرمیاں شروع کی گئیں، وہ زیادہ متاثر ہوئے، ان میں دریائے مسی سِپی سرِ فہرست ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے
دوسری جانب مچھلیوں کے اندھا دھند شکار، زرعی ادویہ کے استعمال اور آب ہوا میں تبدیلی سے بھی دریا میں غذائی اجزا کا بہاؤ متاثر ہوا ہے
اس طرح انسان نے اپنی مداخلت سے نہ صرف فطرت کے اہم مظاہر دریاؤں، جھیلوں اور ان میں پائی جانے والی مچھلیوں کو تباہی سے دوچار کیا ہے، بلکہ اپنی خوراک کے اہم ذریعے کو بھی متاثر کیا ہے.