تصویر میں ایک عام انک جیٹ پرنٹر سے چھاپہ گیا تاش کے پتے کی مانند جو کارڈ نظر آرہا ہے اور فائیوجی ٹاور سے خارج ہونے والی شعاعوں (ریڈی ایشن) سے براہِ راست بجلی بناسکتا ہے۔ یہ کارڈ فائیو جی ٹاور سے 180 میٹر یا 600 فٹ کی دوری پر 6 مائیکروواٹ بجلی تو کھینچ ہی لیتا ہے
اسے جارجیا ٹیک کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور یہ دنیا کا پہلا تھری ڈی، کارڈ نما ریکٹیفائنگ اینٹینا ہے جو فائیوجی ٹاور سے بجلی کشید کرسکتا ہے
نظری طور پر وائرلیس مواصلاتی نظاموں میں بہت توانائی پیدا ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے، کہ مستقبل کے اسمارٹ فون وائرلیس نیٹ ورک سے اپنی تیس فیصد بجلی حاصل کرسکیں گے
جارجیا ٹیک کی ٹیم نے یہ تحقیق سائنٹفک رپورٹس میں شائع کروائی ہے۔ انہوں نے ملی میٹر ریڈیائی امواج پر تحقیق کی ہے اور اس سے بجلی کشید کرنے کی ٹیکنالوجی وضع کی ہے۔ لیکن زیادہ توانائی کے لیے بڑی جسامت والے ریکٹیفائنگ اینٹینا درکار ہوتے ہیں۔ پھر اینٹیاؤں کا رخ بھی اس جانب کرنا ہوتا ہے جہاں سے ریڈی ایشن پھوٹ رہی ہوتی ہیں
تاہم اس ایجاد سے کروڑوں اسمارٹ فون اور چھوٹے آلات میں بیٹریاں نکال کر انہیں اسمارٹ سٹی یا اسمارٹ زراعت میں استعمال کیا جاسکے گا۔ تاہم بہت سے مسائل کو حل کرنے کے لیے کارڈ کے عین درمیان ایک قسم کا پرزہ لگایا گیا ہے جسے روٹمین لینس کا نام دیا گیا ہے۔ لینس ملی میٹر موج کو ہائی گین، وسیع اور تنگ زاویئے والے اشعاع میں تقسیم کردیتا ہے۔ انہی کی بدولت ریڈار کا رخ بدلے بغیر ہرجگہ سے سگنل وصول کئے جاتے ہیں
روٹمین لینس کے ساتھ ساتھ کارڈ کو اتنا لچکدار بنایا گیا ہے کہ اسے موڑا جاسکتا ہے اور پرنٹر سے پورا سرکٹ بھی چھاپہ جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ کارڈ بجلی کی معمولی مقدار ہی بناتا ہے لیکن چھوٹے سینسر، اشیا کے انٹرنیٹ (آئی او ٹی) اور دیگر چھوٹے آلات اس سے چلائے جاسکتے ہیں
جارجیا ٹیک کے ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کی یہ ایجاد آگے چل کر وائرلیس ٹیکنالوجی اور انرجی میں انقلابی تبدیلی کی وجہ بنے گی.