کراچی : چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی پر کینیڈا سے حکمرانی کی جا رہی ہے اور شہر کا سسٹم کینیڈا سے چلایا جارہا ہے ، انہوں نے کہا کہ یونس میمن سندھ کا اصل حکمران ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کراچی رجسٹری میں شارع فیصل پر نسلہ ٹاور تجاوزات کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ لوگوں نے سروس روڈ پر بلڈنگ تعمیر کردی؟۔ بلڈر کے وکیل نے کہا کہ پل کی تعمیر کے وقت سڑک کا سائز کم کیا گیا تھا
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شارع فیصل کا سائز کبھی کم نہیں ہوا، شارع کو وسیع کرنے کے لئے تو فوجیوں نے بھی زمین دے دی تھی، سارے رفاعی پلاٹوں پر پلازے بن گئے، سمجھتے ہیں عدالت کو پتا نہیں چلے گا؟ حکومت کہاں ہے؟ کون ذمہ داری لے گا؟ جو پیسہ دیتا ہے اس کا کام ہوجاتا ہے کتنا ہی غیر قانونی کام ہو ، اب بھی دھندا چل رہا ہے ایس بی سی اے کا کام چل رہا ہے، کراچی پر کینیڈا سے حکمرانی کی جارہی ہے اور شہر کا سسٹم کینیڈا سے چلایا جا رہا ہے، یونس میمن سندھ کا اصل حکمران ہے، وہی سارا سسٹم چلا رہا ہے
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت؟ ایسی ہوتی ہے حکمرانی؟ آپ کی حکومت ہے یہاں کس کی حکومت ہے؟ آپ لوگ نالے صاف نہیں کرسکتے، صوبہ کیسے چلائیں گے؟ دو سال ہوگئے آپ نالہ صاف نہیں کرسکے، گورننس نام کی چیز نہیں ہے یہاں
عدالت نے نسلہ ٹاور کے وکلا سے کمشنر کراچی کی رپورٹ پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 16 جون تک ملتوی کردی
سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے وکیل کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے، تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی ایک بوند کے لئے ترس رہے ہیں، ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، پندرہ سو ملین روپے خرچ ہوگئے، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ صورت حال بدترین ہو رہی ہے، بدقسمتی ہے ہماری ، کوئی لندن سے حکمرانی کرتا ہے کوئی دبئی سے، کوئی کینیڈا سے، ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہے، سندھ حکومت کا خاصا ہے یہ
انہوں نے کہا کہ سندھ میں ایک اے ایس آئی بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ پورا سسٹم چلا سکتا ہے ، مسٹر ایڈوکیٹ جنرل اپنی حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟ جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آ جائے گا، پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے کسی کو نظر نہیں آتے ، کم از کم پندرہ بیس تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا ، ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے ، اتنے سالوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں کیا ملا شہریوں کو؟
ایڈوکیٹ جنرل نے درخواست کی کہ کل بجٹ کی تقریر ہے دو دن کی مہلت دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بجٹ تو ہر سال پیش کرتے ہیں مخصوص لوگوں کے لئے رقم مختص کردیتے ہیں بس، بجٹ تو بچھلے سال بھی آیا تھا لوگوں کو کیا ملا؟