بگٹی قبیلے اور کچے کے ڈاکوؤں کے درمیان لڑائی کیوں ہوئی؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے سرحدی علاقے گھوٹکی میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بلوچستان ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسلح افراد ضلع گھوٹکی پہنچے، شہر سے کچے کی طرف جانے والے علاقوں میں بگٹی قبیلے کے افراد جمع ہوئے اور ڈاکوؤں سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ غیر سرکاری ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس واقعہ میں کم سے کم 6 ڈاکو ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے کچے کے علاقے ماچھیکا میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران خطرناک ڈاکو فاروق شر جب کہ کارروائی میں مرنے والے ڈاکوؤں کی تعداد 4 ہوگئی۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) رحیم یار خان رضوان گوندل نے بتایا کہ ماچھیکا میں پنجاب پولیس کی شر گینگ کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں میں اب تک خطرناک ڈاکو فاروق شر سمیت عالم شر، نذیر شر اور حاکم شر مارے جاچکے ہیں جبکہ 7 ملزمان زخمی بھی ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے میں کئی ماہ سے کچے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ آئے روز ملک کے کسی نہ کسی حصے سے تعلق رکھنے والے فرد کو کچے کے ڈاکو نشانہ بنا رہے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز پر بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے چیف آف کلپر (بگٹی قبیلے کی شاخ) جلال خان کے جوان سال بیٹے عبدالرحمنٰ کو قتل کیا گیا تھا۔ بیٹے کے قتل پر بگٹی قبیلے کے رہنما نے پولیس سمیت دیگر اداروں سے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

سندھ کے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمعہ اور ہفتے کے درمیان بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقے میں قافلوں کی صورت میں پہنچے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان کچے کے علاقوں میں مختلف راستوں سے داخل ہوئے اور کئی گاؤں کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی اس دوران ان کی کچے کے ڈاکوؤں سے لڑائی ہوئی ہے۔ دوطرفہ فائرنگ کے تبادلہ میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

انہوں کے مطابق بلوچستان کے نوجوان کے کچے کے علاقے میں قتل ہونے پر بلوچستان کے قبیلے اور کچے کے ڈاکوؤں کے درمیان کافی عرصے سے کشیدگی ہے۔ متعدد ذرائع سے بلوچستان کے بگٹی قبیلے کے چیف آف کلپر کو بیٹے کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی لیکن خاطر خواہ نتائج نہ نکلنے پر بگٹی قبیلے کے لوگ خود بدلہ لینے گھوٹکی پہنچے ہیں۔

دوسری جانب چیف آف کلپر جلال خان نے اپنے موقف کے حوالے سے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں بیشتر اطلاعات سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سندھ اور بلوچستان کے کچے کے علاقے میں اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے نہیں گئے ہیں۔

انہوں نے کہا ’میری سوشل میڈیا پر وائرل تصویر پرانی ہے، اس میں میرے بال بڑے نظر آ رہے ہیں، میں ابھی عمرہ ادا کرکے لوٹا ہوں ان دنوں میرے بال چھوٹے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ہاں البتہ پنجاب پولیس کے معمول کے ایک آپریشن میں کچھ بگٹی نوجوانوں نے پولیس کے ساتھ مل کر رضاکارانہ طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا ہے۔‘

اپنے بیٹے کے قتل کے بدلے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’سندھ پولیس نے ان کے بیٹے کے قتل کے کچھ روز بعد ایک ڈاکو کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ہم ان کے بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہمیں سندھ پولیس سے شکایت ہے، سندھ پولیس کے افسران ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں۔‘

سابق صوبائی وزیر داخلہ حارث نواز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے نگراں حکومت نے اپنے دور میں ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت کچے کے علاقے میں اب بھی کارروائی کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کام کرنے والے ادارے متحرک ہیں، لیکن ان کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کچھ عناصر موجود ہیں۔ اب ان کے خلاف بھی کارروائی ہوتی نظر آرہی ہے۔ امید ہے جلد ہی حالات بہتر ہوں گے۔

کراچی یونیورسٹی کے کرمنالوجی ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں کے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا ’کچے کے علاقے میں منظم ہونے والے ان ڈاکوؤں کی سیاسی پست پنائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اب اداروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ لوگوں کو انصاف فراہم کریں گے یا پھر مسلح جھتے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا خود حساب کریں گے۔‘

ڈاکٹر نائمہ کہتی ہیں کہ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں کی حکومت کو مل بیٹھنا ہوگا، ایک موثر حکمت عملی ترتیب دے کر ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے شکار پور کے علاقے میں تعینات 79 پولیس اہلکاروں کو ڈاکوؤں کی سہولت کاری کے الزام میں معطل کرکے بی کمپنی کر دیا ہے۔

پنجاپ پولیس کا بدنام زمانہ ڈاکو فاروق شر، نزیر شر اور حاکم شر کو مارنے کا دعویٰ
دوسری جانب پنجاب پولیس نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ کچہ ماچھکہ آپریشن میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ رواں ماہ میں مختلف کارروائیوں میں اب تک شر گینگ کے 4 خطرناک ڈاکوؤں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں خطرناک ڈاکو فاروق شر بھی ہلاک ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس مقابلے میں خطرناک ڈاکوؤں عالم شر، نزیر شر اور حاکم شر کو بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ سات ڈاکو زخمی ہوئے ہیں۔

ڈی پی او رحیم یار خان رضوان گوندل کے مطابق پنجاب پولیس نے شر گینگ کے ٹھکانوں کو بھاری اسلحہ سے نشانہ بنایا ہے۔ پنجاب پولیس آپریشن میں بکتر بند گاڑیوں، بھاری اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close