فیکٹری ورکر سے اداکار بننے والے نوازالدین صدیقی کی کہانی

ویب ڈیسک

نوازالدین صدیقی کو اداکار کہلانے سے زیادہ فنکار کہلوانا پسند ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایک فنکار کے طور پر پہچانے جائیں

خیر اداکار ہو یا فنکار۔۔ ایک چھوٹے سے گاؤں سے آنے والے نوازالدین صدیقی کے لیے بالی وڈ میں اپنی پہچان بنانا اتنا آسان نہیں تھا، جہاں پاکستانی سیاست کی طرح نسل در نسل خاندانی غلبہ چلتا آ رہا ہے

سو ممبئی آنے سے پہلے ہی نواز الدین صدیقی کے لیے چیلنجز شروع ہو گئے۔ خود ان کے گھر میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ اداکار بن سکتے ہیں، صرف ایک ماں تھیں، جنہیں ان پر یقین تھا

نوازالدین صدیقی کی کہانی دوسرے بہت سے اداکاروں سے کئی لحاظ سے مختلف ہے،مثال کے طور پر بچپن سے ہی سنیما کی دنیا میں قدم رکھنے کا خواب، ان کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ ایک بہت ہی دیہاتی، عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے نواز کا خواب ایک عام آدمی کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کرنا ہی تھا

اپنے کالج کے دنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے نواز کہتے ہیں ”سائنس میں گریجوئیشن کرنے کے بعد میں کافی عرصے تک گھومتا رہا، فیکٹریوں میں کام کیا اور اس دوران کسی نے مجھے تھیٹر کے بارے میں بتایا، تب میں نے محسوس کیا کہ اداکاروں اور سامعین کی کیمسٹری حیرت انگیز ہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ اس سے زیادہ خوبصورت کوئی میدان نہیں ہو سکتا“

نواز تھیٹر کے ابتدائی دنوں کے بارے میں بتاتے ہیں ”شروع میں میں نے تھیٹر میں صفائی کا کام بھی کیا۔ لوگوں کو چائے پلائی اور تقریباً ہر قسم کا کام کیا“

نواز کا کہنا ہے ”اسٹیج کے پیچھے کام کرتے ہوئے، لوگوں کو چائے پیش کرتے ہوئے، ایک دن مجھے ایک بہت چھوٹا کردار ملا۔ پہلا کردار صرف ایک لائن کا تھا۔ اس کے بعد مجھے دو لائنیں ملیں، یہ سب کام وڈودرا میں چل رہا تھا اور پھر وہاں سے این ایس ڈی چلا گیا۔ این ایس ڈی میں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ اداکاری کیا ہوتی ہے“

نواز بتاتے ہیں کہ ایک بار انھوں نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ وہ اداکار بننا چاہتے ہیں۔ ”اس وقت ان کا ایک رشتہ دار بھی موجود تھا۔ اس نے میری والدہ سے کہا کہ یہ کیسی بکواس کر رہا ہے؟ کوئی اسے سمجھائے۔ معذرت، لیکن اپنے بچے کی شکل دیکھو۔“

نواز بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ سب باتیں کھڑکی کے پیچھے سے سنی تھیں

وہ کہتے ہیں ”مجھے بہت عجیب لگا اور میں سوچنے لگا کہ میرے چہرے کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے مان لیا کہ میں خوبصورت نہیں ہوں لیکن ساتھ ہی میں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ بھلے میں خوبصورت نہ ہوں، اس کے باوجود میں اداکار رہوں گا“

یوں خواب کو پورا کرنے کی یہ ضد انہیں ممبئی لے آئی۔ ایک ایسا خواب، جو پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب ’این ایس ڈی‘ کے بعد نواز کی اگلی منزل ممبئی تھی

نواز بتاتے ہیں ”میرے لیے ممبئی میں رہنا سب سے مشکل تھا۔ کسی دن رات کا کھانا مل جاتا، اور میں سوچتا کہ صبح کا کھانا کیسے ملے گا؟ وہ وقت اتنا مشکل تھا کہ میں اُس وقت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔ میرے ذہن میں بس یہ آتا ہے کہ اچھا ہوا کہ وقت گزر گیا۔۔“

انہوں نے بتایا ”حالات ایسے تھے کہ جب ہمیں گورگاؤں سے باندرہ جانا ہوتا تھا تو ہمارے پاس آٹو کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ہم پیدل ہی چلتے تھے“

نواز بتاتے ہیں ”زندگی میں ایک جدوجہد چل رہی تھی لیکن اُس دن کچھ ایسا ہوا، جب میری روح بکھر گئی۔۔ میرے پاس دس بارہ دنوں سے بالکل پیسے نہیں تھے۔ میں اپنے ایک سینیئر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ مجھے پچاس روپے دیں۔ اس نے کہا کہ میرے پاس صرف سو روپے ہیں، تاہم اس نے کھلے کروا کے مجھے پچاس روپے دے دیے، ہم دونوں نے چند لمحے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اس کے فوراً بعد میں گر پڑا، میں اس دن رو پڑا“

نواز کا کہنا ہے کہ ایک لمحے کے لیے انھوں نے سوچا کہ انہیں ممبئی چھوڑ دینا چاہیے لیکن وہ رک گئے کیونکہ انہیں اداکاری کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا

نواز بتاتے ہیں کہ ابتدائی دنوں میں جب وہ آڈیشن کے لیے جاتے تھے تو کاسٹنگ ڈائریکٹر انھیں یہ کہہ کر مسترد کر دیتے تھے کہ وہ اداکار نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں زیادہ تر جگہوں سے صرف مسترد کیا گیا

نواز نے اپنے کیریئر کا آغاز بہت چھوٹے کرداروں سے کیا۔ کسی فلم میں کوئی سین، کسی میں ڈائیلاگ۔۔۔

اپنے ابتدائی کرداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے نواز کہتے ہیں ”سرفروش، شول، ایک چلی، آخری لوکل، منا بھائی، دیو ڈی، ان تمام فلموں میں میرا کردار ایک ہی سین کا تھا لیکن اس وقت کام ایک ہی تھا۔ کچھ فلموں کے لیے پیسے ملے اور کچھ فلموں کے لیے پیسے نہیں ملے“

تاہم، ایک وقت کے بعد نواز نے وہ فلمیں کرنے سے انکار کر دیا، جس میں ان کا ایک سین کا کردار تھا

انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ صرف ان فلموں میں کام کریں گے، جن میں انہیں دو سین کا کردار ملے گا

نواز بتاتے ہیں ”لیکن اس وقت تک پیپلی لائیو، پتنگ جیسی فلمیں بن رہی تھیں اور مجھے ان میں اچھے اور بڑے کردار ملنے لگے۔ یہ فلمیں فیسٹیول میں جانے لگیں اور لوگ مجھے پہچاننے لگے۔ جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چلا اور پھر کام ملنے لگا“

حال ہی میں نواز اور ان کی اہلیہ کے درمیان جھگڑا خبروں کی شہہ سرخیوں میں رہا ہے

اس تنازعے اور اپنی خاموشی پر نواز کا کہنا ہے ”میں خاموش رہا اور مجھے اس پر کوئی رنجش نہیں ہے، اس وقت بھی میں صرف یہی چاہتا تھا کہ میرے بچے اسکول جائیں اور آج جب وہ جارہے ہیں تو میں بہت خوش ہوں“

نواز کا کہنا ہے ”میں ان چیزوں کے بارے میں بات کر کے انھیں دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا۔۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اپنی ذاتی زندگی کو اپنے پیشے پر اثر انداز نہ ہونے دوں اور میں نے ایسا ہی کیا“

نوازالدین صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ بڑے گھر اور گاڑی کو کامیابی میں شمار نہیں کرتے۔ وہ صرف اس بات پر خوش ہیں کہ وہ وہ کام کرنے کے قابل ہیں، جو وہ کرنا چاہتے ہیں

نواز کا کہنا ہے ”میں شکر گزار ہوں کہ میں وہ کام کرنے کے قابل ہوں جو میں کرنا چاہتا ہوں، میں کسی اور کا کام نہیں کر رہا ہوں“

وہ کہتے ہیں ”مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ مجھے کسی دوڑ میں بھاگنا ہے۔ مجھے اپنی پسند کا کام مل رہا ہے اور میں یہ کرنے کے قابل ہوں۔ میں مستقبل میں بھی یہی کام جاری رکھنا چاہتا ہوں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close