روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) اٹھارہویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

جزیرے کی فتح

توپ بہت وزنی تھی، یہ ہماری چھوٹی کشتی میں نہیں جا سکتی تھی ، اس لئے ہم نے نئی اور بڑی کشتی سے سارا سامان اتارا اور اسے حفاظت سے پھر کیبن میں رکھ دیا۔ ہم نے توپ کو بڑی اور نئی کشتی میں رکھا اور پھر اسے رسوں سے کھینچتے ہوئے سمندر کے کنارے تک لے آئے بارود بھی کشتی میں رکھ لیا گیا.

اگرچہ موسم کا کچھ اعتبار نہ تھا۔ پھر بھی جلدی حملہ کرنا ضروری تھا ، کیونکہ ایک دو دنوں کے بعد چاند رات آنے والی تھی۔ بلا شبہ سینکڑوں لوگوں ، بچوں اور عورتوں تک کی زندگیاں خطرے میں تھیں ، اپنے منصوبے پر غور کرنے کے بعد میں نے فرائیڈے سے کہا، ”آج صبح منہ اندھیرے ہم آ دم خوروں کے جزیرے پر حملہ کریں گے“

فرائیڈے کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔

ابھی صبح نہیں ہوئی تھی اور تاریکی پھیلی ہوئی تھی کہ ہم دونوں کیبن سے نکلے اور بڑی کشتی میں آ گئے اور کشتی کو دھکیلتے ہوئے کھلے سمندر میں نکل آئے ۔ سمندر پر سکون تھا ۔ جب ہمارا جزیرہ نگاہوں سے اوجھل ہوا تو صبح کی روشنی پھیلنے لگی تھی ۔ تھوڑی دیر میں ہمیں آدم خوروں کا جزیرہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے فرائیڈ ے کو اپنی حکمت عملی سے آگاہ کیا، ”ہم سامنے سے نہیں، بلکہ عقب سے جا کر گولہ باری کریں گے۔ اس طرح ہم سردار کی بڑی جھونپڑی کا صحیح نشانہ لے سکیں گے۔“

فرائیڈے نے میرے منصوبے کی تائید کی۔

ہم آدم خوروں کے جزیرے میں سامنے سے نہیں ، بلکہ عقب سے آئے ۔ دھوپ سے اب سارا جزیرہ چمک رہا تھا۔ہمیں آدم خوروں سے چھپنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے پاس توپ تھی اور آدم خور توپ کے کمالات اور تباہی سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے۔ وہ اس سے خوفزدہ تھے۔

ہم اپنی کشتی کو ایک کھاڑی میں لے آئے۔ جہاں سے سردار کی اونچی جھونپڑی کا پچھلا حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا.

میں نے وہیں کنارے کے قریب کشتی روکی.. فرائیڈے کو بندوق دے کر کہا کہ تھوڑے فاصلے پر واقع درخت پر جا کر چھپ جائے تاکہ وہ اوپر سے آدم خوروں کو نشانہ بنا سکے۔

میں نے توپ میں بارود بھرنا شروع کر دیا ۔ چقماق سے آگ جلائی اور پھر توپ کا منہ سردار کی اونچی جھونپڑی کی طرف کر کے اسے آگ دکھادی..

ایسا خوفناک دھماکہ ہوا کہ سارا جزیرہ ہل گیا.. پرندے خوف سے آوازیں نکالتے پھڑ پھڑاتے درختوں سے اڑ گئے۔ دھماکے سے کشتی بھی پیچھے کو ہٹ گئی۔ میں چپوؤں کی مدد سے اسے آگے لے آیا۔ بارود کا دھواں صاف ہوا تو میں نے دیکھا سردار کی اونچی جھونپڑی کا نام و نشان تک باقی نہیں تھا۔

جزیرے پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ آدم خور شور مچاتے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ وہ تیر برساتے ہماری توپ کی طرف بڑھے۔ وہ چیخ رہے تھے۔ میں نے توپ کو بارود سے دوبارہ بھر دیا ۔ اس عرصے میں درخت پر چھپا فرائیڈے ان پر فائر کرنے لگا۔ آدم خور گرتے گئے اور آگے بڑھتے گئے..

میں نے دوسری بار توپ داغ دی۔ زبر دست دھماکا ہوا اور آدم خوروں کے جسم کے ٹکڑے اڑنے لگے۔ آدم خوروں کے چہرے پر اب خوف اور دہشت صاف دکھائی دینے لگی تھی ۔ کچھ آدم خور جہاں تھے، حیرت سے وہیں ساکت کھڑے رہ گئے ۔ کچھ پیچھے کو بھاگنے لگے.. فرائیڈے ان پر فائرنگ کرتا رہا۔

میں نے تیسری بار پر توپ چلائی. پھر وقفہ دے کر چوتھی بار توپ چلادی… ان گنت بھاگتے ہوئے آدم خور زمین پر گر کر تڑپنے لگے۔ میں نے اونچی آواز میں جزیرے کے لوگوں کی زبان میں پکارکر کہا۔
”آدم خوروں کے سردار، ہتھیار پھینک کر سامنے آ جاؤ.. میں تم پر رحم نہیں کروں گا… تم ہزاروں انسانوں کو کھا چکے ہو ۔ یاد رکھو میں تمہارے جزیرے کو نیست و نابود کردوں گا۔‘‘

کسی نے میری آواز کا جواب نہیں دیا۔ آدم خور لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے، کچھ چھپ گئے تھے..

میں نے پھر بارود بھرا اور توپ چلا دی۔
اس بار جو دھماکہ ہوا، وہ پہلے تمام دھماکوں سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن تھا۔ کیونکہ اس بار میں نے توپ میں پہلے سے زیادہ بارود بھر دیا تھا ۔ اب چاروں طرف تباہی پھیل گئی تھی ۔ جھونپڑیاں جلنے لگی تھیں اور آدم خور ہاتھ اونچے کئے اور سر جھکائے ہوئے ہماری طرف آنے لگے.. سردار سب سے آگے تھا۔

میں نے فرائیڈے کو آواز دی، ’’درخت سے نیچے آ جاؤ.. اپنے وفادار ساتھیوں سے کہو کہ وہ ان کو سردار سمیت گرفتار کرلیں۔‘‘

فرائیڈے نے چھلانگ لگائی اور درخت سے نیچے اتر آیا ۔ سردار نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

میں نے پستول سے دوبارہ ہوائی فائر کرنے کے بعد سردار کو مخاطب کر کے کہا، ’’آدم خور سردار! تمہاری زندگی کا آخری وقت آ گیا ہے.. تم نے جتنا ظم کرنا تھا، کر لیا.. اب تمہیں تمہارے مظالم کی سزا ملے گی!

میں نے فرائیڈے سے کہا، ’’اپنے آدمیوں سے کہو انہیں گرفتار کر لیں..“
فرائیڈے نے اپنے وفاداروں کو پکارا۔ ہجوم میں سے کتنے ہی لوگ نکل آئے، جنہوں نے سب سے پہلے سردار کو باندھا ، پھر باقی آدم خوروں کو جو سردار کے وفادار تھے.

میں دونوں ہاتھوں میں پستول پکڑے سردار کے سامنے آ کر کھڑ اہو گیا ۔ جب میں نے سردار کی زبان میں بولنا شروع کیا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹنے لگیں.. میں نے کہا،
”تم نے قبیلے کے سردار کو قتل کیا.. اس کا سارا خاندان کھا گئے.. اپنے مخالفوں پر ظلم کیا.. اب تک تم ہزاروں انسانوں کو کھا چکے ہو.. تم سے ہر مظلوم کابدلہ لیا جائے گا.. اگر تم کچھ کہنا چاہتے ہو تو بولو.“

تمام آدم خور مجھے یوں دیکھ رہے تھے، جیسے میں کوئی انسان نہیں بلکہ دیوتا ہوں ۔ وہ سب ایک ساتھ کہنے لگے،
”دیوتا…… دیوتا…. دیوتا…!“

میں نے اونچی آواز میں ان کی زبان میں ان سے کہا،
’’غور سے سنو، میں عام انسان ہوں ، تمہارا دیوتا اور سردار فرائیڈے ہے ۔ ہاں میرے پاس یہ توپ ہے، جس سے میں ایک منٹ میں تم سب کو ہلاک کر سکتا ہوں.. میں سردار کے ساتھیوں کو معاف کرتا ہوں اور انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ فرائیڈے کی اطاعت قبول کر لیں ۔ سردار کو زندہ نہیں چھوڑوں گا!“

سارے آدم خور سجدے میں گر گئے ۔ پھر انہوں نے فرائیڈے کو اپنا سردار تسلیم کر لیا۔ سردار کو ساتھ لئے وہ ہمیں جزیرے میں جلوس کی شکل میں اسی جگہ لے گئے، جہاں سینکڑوں عورتیں اور بچے قید تھے ۔ سب کو آزاد کیا گیا ۔ بچے اور عورتیں نعرے لگاتے میرے ارد گرد جمع ہو گئے ۔ میں نے بچوں کو پیار کیا.. عورتیں میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے لگیں ۔ وہ سب مجھے دیوتا کہہ ر ہے تھے..

فرائیڈے بہت خوش تھا..
اس وقت لوگوں نے اعلان کیا کہ اب قبیلے اور جزیرے کا سردار فرائیڈے ہے ۔ دوپہر کو انہوں نے ہمارے اعزاز میں زبردست دعوت دی ۔ آدم خور مرد عورتیں اور بچے ناچ کر ہمارا دل بہلانے لگے ۔ دعوت میں سالم بھونی ہوئی بکریاں تھیں ۔ فرائیڈے نے میرے کان میں کہا۔
”یہ میری وجہ سے ہے.. ورنہ لوگ تو آج سردار کو بھون کر کھانا چاہتے تھے..“

کھانے کے بعد انہوں نے سردار کو پیش کیا۔ جو رسوں میں بندھا ہوا تھا۔ فرائیڈے کے وفادار اسے گھسیٹ کر لا رہے تھے ۔ سردار کی حالت بہت خراب تھی ۔ بہت پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن موت کا خوف اس کے چہرے پر نہیں تھا۔ وہ واقعی ایک ظالم اور پتھر دل انسان تھا۔

اس نے معافی نہیں مانگی ۔ مجھے جان بخشی کے لئے نہیں کہا۔ سب اسے قتل کرنا چاہتے تھے اور اس کا گوشت کھانا چاہتے تھے، لیکن مجھے اس کی بہادری بہت پسند آئی..

میں نے کہا
”اگر فرائیڈے اجازت دے تو اس کی جان بخشی کر کے اسے کسی بہت دور دراز واقع جزیرے میں جلا وطن کر دیا جائے..“

فرائیڈے نے کہا ۔’’میں اسے جلا وطن کرنے پر رضامند ہوں“

لیکن آدم خور مرد ، عورتیں اور بچے اس کے لئے تیار نہ تھے ۔ وہ شور مچانے لگے.. چیخ رہے تھے ”ہم اس ظالم کو زندہ نہیں چھوڑیں گے..“ وہ مجھے یاد دلاتے کہ میں نے سردار کو قتل کرنے اور سزادینے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ چیخ رہے تھے کہ اگر میں ان کی مدد کو نہ آتا، تو یہ ظالم سردار سینکڑوں بچوں، عورتوں اور مردوں کو قتل کر کے ہڑپ کر جاتا.. وہ کسی صورت میں بھی اسے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے..

آدم خور سر دار کا انجام

آدم خوروں نے سردار کے اردگرد ناچنا شروع کر دیا..
یہ موت کا وحشیانہ رقص تھا۔ عورتوں کے ہاتھوں میں نوکیلے تیر تھے، ناچتے ہوئے وہ ان تیروں کو سردار کے جسم میں چبھونے لگیں، اس کے جسم کے زخموں سے خون بہنے لگا۔ وہ خاموش بیٹھا تھا، اپنی قسمت پر راضی ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ موت اس کے سر پر پہنچ گئی ہے.

فرائیڈے کے وفاداروں میں سے ایک بوڑھے آدم خور نے آگے بڑھ کر زمین سے مٹی اٹھائی اور ظالم سردار کے سر پر ڈال دی، یہ کوئی خاص رسم تھی ۔ اس کے بعد سب عورتیں اور مرد دیوانہ وار خوشی سے چیخنے لگے ۔ پھر انہوں نے سردار کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کر دیا اور اچانک ایک چھرے والے آدم خور نے سردار کی گردن پر چھرا چلایا اور اسے بکرے کی طرح ذبح کر دیا..

خون کا فوارہ سامنے گرنے لگا ۔ آدم خور  چلو بھر بھر کے اس کا خون پینے لگے ۔ مردہ سردار کی کٹی ہوئی گردن ایک طرف ڈھلک گئی ۔ اور پھر کتنے ہی آدم خور چھرے لے کر سردار کے جسم پر ٹوٹ پڑے۔ میں خوفزدہ بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ اب سردار کا جسم دکھائی نہیں دیتا تھا، لوگ اس پر جھکے تھے..

جب آ دم خوروں کی بھیڑ چَھٹی تو میں نے دیکھا، جہاں پہلے سردار کا جسم تھا، وہاں اب خون کے نشانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سر دار کی بوٹی بوٹی کر کے لے گئے تھے…

سردار کا سر ایک نیزے پر چڑھا کر سارے جزیرے میں گھمایا گیا اور پھر اس سر کو فرائیڈے کے باپ کی پرانی جھونپڑی کے اوپر لٹکا دیا گیا..

وہ رات میں نے فرائیڈے کے کہنے پر اس جزیرے پر بسر کی ۔ جزیرے میں جشن کا سماں تھا۔ سب نا چ رہے تھے.. جب آدھی رات کے بعد میں سویا تو بھی لوگ ناچ رہے تھے.

دوسرے دن فرائیڈے بھی میرے ساتھ جانے پر ضد کرنے لگا ۔ اس کا دل اب آدم خوروں میں نہیں لگتا تھا ۔ وہ میرے ساتھ جزیرے پر اور پھر کشتی میں سوار ہو کر میرے ساتھ کسی بڑے شہر میں جانا چاہتا تھا ۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اب وہ سردار ہے ۔اسے اپنے جزیرے اور قبیلے میں رہنا ہے ۔ وہ ان لوگوں کی عادتیں بدل کر آدم خوری کی عادت چھڑا کر انسانیت پر بڑا احسان کر سکتا تھا.

بالآخر میں نے اسے اپنی دلیلوں سے قائل کر لیا اور وہ اپنے جزیرے میں رکنے پر آمادہ ہو گیا ۔ میں جانتا تھا کہ اگر فرائیڈے میرے ساتھ کسی بڑے شہر میں چلا بھی گیا تو وہاں اس کا دل نہیں لگے گا۔ وہ بڑے شہروں میں رہنے کا عادی نہیں ہو سکتا تھا.

چلتے وقت میں نے اسے توپ بھی دے دی اور بچا ہوا بارود بھی.. اور دو پستول بھی اس کے حوالے کر دیے.

سارے جزیرے نے مجھے رخصت کیا ۔ فرائیڈے بہت جذباتی ہو رہا تھا ۔اس نے کہا کہ وہ مجھے ملنے کے لئے جزیرے میں آ تا رہے گا..

(جاری ہے)

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close