کہانی ایک سائن بورڈ کی

عومر درویش

یہ بورڈ آپ دیکھ رہے ہیں۔۔ آج ایک کہانی اسی بورڈ کا سناتے ہیں۔۔ گڈاپ روڈ سے آف روڈ ایک راستہ تھدو ڈیم کی طرف جاتا ہے، اس سے آگے چلتے ہوئے جیسے ہی آپ کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں داخل ہوتے ہیں، کچھ ہی فاصلے کے بعد یہ بورڈ دکھائی دیتا ہے۔ اس بورڈ کے ساتھ ایک چوکی بھی ہوا کرتی تھی، جو اب نہیں ہے۔ یہاں آپ سے کھیرتھر نیشنل پارک کا عملہ آپ سے معلومات لیتا تھا۔۔

تصویر میں آپ جس بورڈ کو دیکھ رہے ہیں، ایک سال پہلے یہ ایسا نہیں تھا۔ یہ شان سے یہاں ایستادہ تھا، اس کا سر فخر سے بلند ہوا کرتا تھا، اس کا چہرہ نکھرا نکھرا تھا اور یہ دور سے دکھائی دیتا تھا۔۔ لیکن آج اداس ہے، رنجور ہے، دل شکستہ ہے اور شرم سے جھکا ہوا ہے۔۔ یہ حالت اس کا اپنا انتخاب ہر گز نہیں، اسے اس حالت تک پہنچنے پر مجبور کیا گیا

اس بورڈ کی یہ خستہ حالی اپنے اندر کھیرتھر کی تباہی کی ایک ایسی تباہی کی داستان سموئے ہوئے ہے، جسے سننے اور دیکھنے کے لیے فطرت سے محبت کا ہونا شرط ہے۔

اس بورڈ کے پیچھے جو منظر آپ کو نظر آ رہا ہے یہ دو سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم نے اس راستے سے کئی سفر کیے۔ کچھ ہی برس کی بات ہے یہاں خوبصورت جھرنے، صاف شفاف بہتا ہوا پانی اور اٹھکیلیاں کرتی ہوائیں دنیا کی ہمہ اقسام آلودگی سے تھکے ہارے مسافروں کی پیشانی پر بوسہ دے کر انہیں فطرت کی مامتا بھری گود میں خوابوں سے بھری نیند سلاتی تھیں، ایسے خواب جو سکون سے لبریز اور محبتوں سے بھرپور تھے

پیچھے منظر میں ایک تباہ شدہ پہاڑی نظر آ رہی ہے، اس پہاڑی کے چوٹی کو دیکھ کر آپ بھی ضرور اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتے۔ پانچ سال ہی تو ہوئے ہونگے، اس پر چڑھنے پر کھیرتھر نیشنل پارک کے عملے نے ہمیں واپس اترنے کو کہا۔۔ نیچے آنے کے بعد اس بندے نے کہا ”آپ کے پہاڑی پر چڑھنے کی وجہ سے جنگلی حیات خوفزدہ ہونگی۔۔ یہ
"It’s the Main Habitat of Wildlife and Breeding Ground”

ہم نے معزرت کر لی۔۔

اس بورڈ کے قریب اسی پہاڑی (خیر اب یہ پہاڑی تو نہیں رہی) کے مخالف سمت تھدو ندی کے کنارے ایک گھنے جنگل میں ایک قدیم اور تاریخی قبرستان ہے، جو ’مور مرادی‘ کے نام سے موسوم ہے۔

نہیں معلوم، جب بھی ہم کھیرتھر کے سفر پر نکلتے تھے، جیسے ہی اس بورڈ کے قریب آتے تھے، بائیک کو دائیں جانب موڑتے تھے، اپنے پُرکھوں کی قبریں دیکھنے یا پھر ان پر کندہ ’چِٹسالی‘ و نقش نگاری ہمیں اپنی طرف کھنچتی تھی یا اس پہاڑی اور قبرستان کے بیچ تھدو ندی کا نیلگوں پانی یا اس بورڈ کے ساتھ ’فضل گوندر‘ کی چائے۔۔؟ اب یہ سب قصہِ پارینہ بننے جا رہے ہیں۔۔

اب یہاں منظر نامہ تھوڑا بدلتے ہیں۔۔ پھر سے بورڈ کے کہانی پر آتے ہیں۔۔ اس بار بورڈ پر لکھے ضابطوں کے رنگ روغن اور نیا کرنے کے ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اب شاید ان کی ضرورت بھی نہیں رہی۔۔ اب بورڈ کے پیچھے منظر نامہ بدل گیا ہے دوبارہ غور سے دیکھیں آپ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کی چار دیواری نظر آ رہی ہے، اس دیوار کو پہیے لگے ہوئے ہیں، یہ Moving Wall ہے۔۔ شاید اگلی بار جب ہم یہاں آئیں تو یہ قومی ورثہ قرار دیا گیا یہ تاریخی قبرستان بھی اس کینسر کی زد میں آگیا ہوگا۔ کیوں کہ یہ کینسر بہت تیزی سے پہیل رہا ہے۔۔

اس بورڈ پر لکھے پارک قوانین و ضابطے، اہمیت اور کہانی اب یہیں ختم ہوجاتی ہے۔۔ اب تو اس بات کی بھی کم ہی امید ہے کہ یہ بورڈ بھی بچ سکے کہ فطرت کا کوئی عاشق اس پر کھیرتھر کی تباہی کا نوحہ لکھے۔۔ کیوں کہ کل یہ بورڈ کسے کباڑ خانے کے کونے پر پڑا ہوگا اور اس پر لکھے قوانین تو بہت پہلے ملک ریاض، آصف علی زرداری، مقتدر اداروں، پاکستانی عدلیہ اور سندھ گورنمنٹ نے اپنے جوتوں کے نیچے روند ڈالے ہیں۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close