کراچی کی اراضی سے بھی بڑا برفانی تودا تیس سال کے جمود کے بعد حرکت میں کیسے آیا؟

ویب ڈیسک

ماہرین کا کہنا ہے کہ تین دہائیوں تک سمندر کی تہہ میں پھنسے برفانی تودے کا سب سے بڑا ٹکڑا حرکت میں آ کر اپنی جگہ تبدیل کر رہا ہے

اے 23 اے نامی برف کا تودہ 1986ع میں قطب جنوبی کے ساحل سے علیحدہ ہوا تھا۔ یہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی جانب سے بحیرۂ ودل میں رُکنا برف کے جزیرے کی عکاسی کر رہا ہے

اس کا رقبہ چار ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے مقابلے میں کراچی شہر کا رقبہ 3530 مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے

گذشتہ سال سے برف کا یہ تودہ ایک رفتار سے چل رہا ہے اور یہ اب قطب جنوبی کے پانیوں سے باہر نکل رہا ہے

اے 23 اے کا حجم بہت بڑا ہے۔ نہ صرف اس کی چوڑائی حیرت انگیز ہے بلکہ ایک اندازے کے مطابق اس کی لمبائی تقریباً سات مینار پاکستان جتنی ہے

یہ ان بہت سارے تودوں میں سے ایک تھا، جو قطب جنوبی کے فلچنر آئس شیلف سے نکلا۔ آئس شیلف پانی میں تیرتی ہوئی برف کی ایسی چٹان ہوتی ہے جو زمین کے ساتھ جڑی رہتی ہے

اس وقت یہاں سوویت یونین کا ریسرچ اسٹیشن ہوا کرتا تھا، جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے عرصے پہلے یہ تودہ برگ کی چٹان سے ٹوٹا تھا

اس ڈر سے کہ اسٹیشن پر پڑے آلات ہمیشہ کے لیے گم ہو جائیں گے، روس نے ان کو واپس لانے کے لیے ایک ٹیم بھی بھیجی، لیکن یہ برف کا تودہ زیادہ دور نہ جا سکا اور اس کا نچلا حصہ بحیرہ ودل کے تہہ کے کیچڑ میں پھنس گیا

تو آخر ایسا کیا ہوا کہ چالیس سال بعد اے 23 اے اپنی جگہ سے اب ہلنا شروع ہو گیا ہے۔۔

برٹس ریمورٹ انٹارکٹک سروے کے ریمورٹ سینسنگ کے ماہر اینڈریو فلیمنگ کہتے ہیں ”میں نے کچھ ساتھیوں سے اس متعلق پوچھا، یہ سوچتے ہوئے کہ کیا پانی کے درجہ حرارت میں کوئی ممکنہ تبدیلی آئی ہے، جس کی وجہ سے یہ ہوا لیکن اتفاق رائے یہ ہے کہ اس کا وقت بس آ گیا تھا۔۔ یہ 1986 سے زمین میں پھنسا ہوا تھا لیکن اسے حجم میں اتنا کم ہونا تھا، جس کی وجہ سے اس کی گرفت کم ہوئی اور یہ حرکت میں آ گیا۔ میں نے پہلی حرکت کا مشاہدہ سال 2020 میں کیا تھا“

ہواؤں اور سمندر کی لہروں کی وجہ سے اے 23 اے کی حرکت میں تیزی آئی اور اب یہ جزیرہ نما قطب شمالی کے شمالی سرے سے گزر رہا ہے

یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ودل سیکٹر سے آنے والے زیادہ تر برف کے تودوں کی طرح اے 23 اے انٹارٹک کے سرکم پولر کرنٹ میں داخل ہو جائے گا، جو اسے جنوبی اٹلانٹک کے راستے پر چھوڑ دے گا۔ اس خطے کو آئس برگ ویلی کہا جاتا ہے

یہ پانی میں وہی نقل و حرکت ہے، جسے معروف محقق سر ارنسٹ شیکلٹن نے 1916ع میں سمندری برف کے باعث اپنا جہاز اینڈیورنس کھونے کے بعد انٹارٹک سے نکلنے کے لیے استعمال کیا تھا

شیکلٹن نے اپنی لائف بوٹ کا رُخ جنوبی جارجیا کی جانب کیا۔ اس جزیرے پر آپ کو اکثر برف کے بڑے ٹکڑے ساحل سمندر پر نظر آتے ہیں

آخر میں تمام برف کے ٹکڑے پگھل جاتے ہیں۔

سائنسدان بڑی باریکی سے اے 23 اے کی پیش قدمی پر نظر رکھ رہے ہیں۔

اگر یہ جنوبی جارجیا پہنچتا ہے تو اس سے لاکھوں سیلز، پینگوئنز اور سمندری پرندوں کی نسلوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

اے 23 اے کے بڑے حجم کے باعث جانوروں کا عمومی راستہ رُک سکتا ہے اور چھوٹے جانوروں کو کھانے ملنے میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

مگر ٹائٹینک وغیرہ کی وجہ یہ سوچنا غلط ہوگا کہ برف کے تودے محض خطرے کا باعث ہوتے ہیں۔ ماحول میں ان کی اہمیت تسلیم کی جا رہی ہے

بڑے برفانی تودوں کے پگھلنے سے ان میں موجود معدنیات کی دھول خارج ہوتی ہے، جو سمندری حیات کی خوراک ہے

ووڈز ہول اوشنوگرافک انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر کیتھرین واکر کے مطابق ”کئی طریفوں سے برفانی تودے زندگی پیدا کرتے ہیں۔ وہ کئی حیاتیاتی سرگرمیوں میں نقطۂ آغاز ثابت ہوتے ہیں“

ڈاکٹر کیتھرین واکر اسی سال پیدا ہوئی تھیں، جب اے 23 اے پیدا ہوا۔ وہ کہتی ہیں ”میری اس کے ساتھ ایک پہچان ہے۔۔ یہ ہمیشہ میرے لیے موجود رہا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close