محبت کسی بھی حیثیت میں ہو، وہ اپنا ایک مستحکم وجود رکھتی ہے کہ جس کی بنیادیں خلوص پر ہی استوار ہوسکتی ہیں ورنہ محبت محبت نہیں رہتی بلکہ مفاد بن کر مادہ پرستی اور خود غرضی کو فروغ دینے کا سبب بن جاتی ہے۔
یہ محبت ہی ہے جو محبوب کے حصول سے کہیں زیادہ اپنی بقا کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ اپنی خواہشات کے بجائے محبوب کے احکامات پر عمل پیرا ہونے اور اس کی عزت و آبرو کا پاس رکھنے سے مشروط ہے۔
یہ خدا سے ہو یا انسان سے، اگر خالص ہے تو کبھی دلوں کو گمراہ نہیں ہونے دیتی بلکہ زندگی کے لیے عظیم مقاصد عطا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ محبت اور لگاؤ میں بہت فرق ہے لیکن اکثر کسی کے ساتھ لگاؤ کو بھی محبت سمجھ لیا جاتا ہے اور یہی غلط فہمی بعض دفعہ مسائل کا سبب بنتی ہے۔
جب کسی کے لیے پیدا ہونے والا جذبہ خلوص کے تمام تر تقاضے پورے کرکے ایک خاص مقام تک پہنچ کر، حالات موافق ہوں یا مخالف اس سے بے غرض وہیں مستحکم رہے تو اسے محبت کہتے ہیں، جس کا تعلق کسی شے سے نہیں بلکہ ذات کے احساس سے ہے۔ دوسری طرف لگاؤ کسی کے ساتھ بھی رہنے سے قدرتی طور پر پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ یہ لگاؤ پالتو جانور سے بھی ہوسکتا ہے جبکہ اس کے برعکس محبت وقتی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا ہر کسی سے ہونا ممکن ہے۔
آج آپ کو ایسی ہی ایک داستان سنانے جا رہا ہوں جو المناک ہونے کے باوجود ایک مثبت مقصد پر استوار ہوئی۔
سربیا میں قدرتی حُسن سے مالامال دُور دراز دیہاتی علاقے سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ پُرکشش شخصیت کے حامل سیاح ولادیمیر راسکووچ سے میری ملاقات 2007ء میں ہوئی تھی۔ 2 روزہ قیام کے دوران راسکووچ سے معلوم ہوا کہ وہ اپنی محبوبہ کی یاد میں دنیا کے سفر پر نکلے ہیں۔
راسکووچ کو روز شام کے وقت کافی پینے کی عادت تھی۔ وہ یہاں اپنی آخری شام کے لمحات میں بھی کافی کی چُسکیاں لے رہا تھا کہ میں بھی راسکووچ کی اس محفل میں شریک ہوگیا۔ اسی دوران میں نے اس کی محبوبہ سے متعلق پوچھا تو اس نے بجائے دُکھی ہونے کے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’کیا تمہیں وہ دکھائی نہیں دیتی؟ وہ ہمارے درمیان ہی اپنے پُرنور چہرے پر حَسین مسکراہٹ سجائے بیٹھی تو ہے‘۔
میں نے حیرانی سے جواب دیا، دراصل میری آنکھیں فی الحال عدم موجود چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ، ’اگر ایسی بات ہے تو پھر تم بھٹکے ہوئے ہو اور خود کو تلاشنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو‘۔
پھر اس نے اپنا احوالِ محبت بتانا شروع کیا اور میں بنا کسی مداخلت کے اس کی داستان پوری طرح سے محو ہوکر سنتا رہا۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں ہم سب میں بھی ایک نامراد عاشق دل کی دیواروں پر سر پٹخ پٹخ کر غمزدہ و لاچار ہوا پڑا رہتا ہے۔
راسکووچ نے بتایا کہ ’جب محبت اپنی پوری رعنائیوں کے ہمراہ آشکار ہوتی ہے تو پھر وجود اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔ مجھ پر محبت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تب آشکار ہوئی جب میں نے اپنی محبوبہ کو اپنے ہی ہاتھوں میں کھو دیا تھا۔ اس وقت مجھے ادراک ہوا کہ اصل میں محبت وہ جذبہ ہے جس کا تعلق کسی وجود سے نہیں بلکہ احساس سے ہے۔ احساس مخفی حیثیت رکھنے کے باوجود حقیقی طاقتوں کی حامل وہ کیفیت ہے جو خود آپ کو آپ کے سامنے عیاں کردیتی ہے‘۔
راسکووچ بتاتے ہیں کہ، ‘ایلینا’ کا مطلب بنتا ہے ‘روشن چمکدار شعاع’، میری محبوبہ ایلینا بھی اپنے نام جیسی ہی تھی۔ میں نا چاہتے ہوئے بھی اسے محسوس کرسکتا ہوں۔ وہ میری زندگی کی تاریکیوں میں ایک روشنی کی مانند تھی‘۔
ایلینا سے پہلی ملاقات اور اس کے ظاہری حُسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے راسکووچ نے کہا کہ، ’سرسبز چراگاہوں میں بھیڑیں چراتے ہوئے جب ایلینا کو دیکھا تھا تب اس نے اپنی زندگی کی بمشکل 16 بہاریں ہی دیکھی ہوں گی۔ اس وقت وہ بادلوں کے اوپر اڑتی ہوئی کسی تتلی کی مانند اپنے وجود کے ہر رنگ سے تمام منظر پر نمایاں تھی۔ جیسے اس منظر میں ماسوائے اس کے اور کچھ بھی نہ ہو۔ یوں قوسِ قزح کا اثر رکھنے والی ایلینا کی جانب بے اختیار بڑھتے ہوئے مجھے احساس تک نہ ہوا کہ کب میں اس کے سنگ بادلوں پر سواری کرنے لگا تھا۔
’اس روز ایلینا کے ساتھ کھلی فضاؤں میں اُڑتے ہوئے مجھے یہ پتا ہی نہ چلا کہ کب مشرق سے فلک کی سیر کرتے کرتے سورج مغرب کی پناہوں میں آچکا تھا۔ اسی وقت ایلینا اپنی بھیڑوں کے ہمراہ گھر کی طرف لوٹ رہی تھی۔ میں چاہتے ہوئے بھی اسے روک نہ سکا۔ وہ رات بستر پر کروٹیں بدلتے ایلینا کی سوچوں میں ہی گزر گئی۔
’کھڑکی سے جھانکتی اگلی صبح معمول کے کاموں کی ایک فہرست لیے کھڑی تھی۔ دن مصروفیت میں گزرا پھر ایلینا کا احساس دلاتی رات مجھے جگائے رکھنے پر معمور ہوئی۔ یوں پورا ہفتہ بیت گیا اور پھر اتوار تھا۔ میری بے خوابی شدید بے چینی میں بدل چکی تھی اور میں غیر ارادی طور پر ان چراگاہوں کی طرف چل پڑا جہاں حسبِ توقع ایلینا اپنی بھیڑوں کے ہمراہ چہک رہی تھی۔ پاس جاتے ہی میں نے احوال پوچھا تو اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، یہ بھیڑیں، جھرنے، چراگاہیں، پرندے، درخت اور یہ حسین وادیاں رازدار ہیں میری، ان سے پوچھو میرا احوال اور پھر کھلکھلاتے ہوئے وہ بھیڑوں کے پیچھے دوڑتی چلی گئی۔ واپسی کی راہ تکتے تکتے مجھے شام کی ہولناکیوں نے آن لیا اور میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔
’یوں یہ سلسلہ معمول بن گیا، اور ہر اتوار کو میں ان چراگاہوں کی طرف چل پڑتا اور ایلینا کے ساتھ زندگی کے خوبصورت ترین لمحات گزار کر اس کی یادوں کے ساتھ واپس لوٹ آتا۔
’ایک بار میں نے ایلینا سے پوچھا تھا کہ زندگی کی تمام تر پُراسراریت کے باوجود تم نے جو اسے سادگی کا پیراہن پہنا رکھا ہے کیا یہ واقعی دائمی ہے یا پھر عارضی یا پھر محض ایک دکھاوا ہے؟
’ایلینا نے میرے سوال پر مجھے غور سے دیکھا اور سنجیدگی سے گویا ہوئی، کسی بھی زندہ وجود کی کُل کیفیات دائمی ہوسکتی ہیں اور نہ ہی انہیں مستقل بنیادوں پر یکساں طور پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ ہر وجود کی تمام تر کیفیات ماحول سے متعلق مشاہدات، تخیلات، اندرونی و بیرونی عوامل کی مرہونِ منت ہیں اور ان کے بقدر فہم اثرات اپنے مقررہ وقت تک ہی قائم رہ سکتے ہیں۔
’ایلینا نے ایک گہری سانس لی اور ایک بار پھر بولی کہ اس سے قطع نظر کہ کیفیت مثبت ہے یا منفی، اس کی جگہ لینے کے لیے انہی خصوصیات کی حامل ایک اور کیفیت کئی گنا زیادہ طاقت کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہتی ہے، اور جیسے ہی موجودہ کیفیت کا وقت پورا ہوتا ہے تو نئی کیفیت اس کی جگہ لے لیتی ہے اور یہی سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہتا ہے۔ اگر کیفیت مثبت ہے تو وقت کے ساتھ اس کی طاقت میں پُر ثمر اضافہ ہوتا رہے گا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو نتائج بھی بھیانک ہوں گے۔
’میں نے ایلینا سے حیرت سے پوچھا کہ یہ باتیں تمہیں کون سکھاتا ہے؟ اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا، مجھے سکھانے والا بھی وہی ہے جس نے پہلے انسان کو سکھایا تھا البتہ ممکن ہے کہ ہر نفس کو سکھانے کے لیے وہ مختلف ذرائع بروئے کار لایا ہو۔ لیکن یہاں امتحان سیکھنے سکھانے کا نہیں بلکہ اصل امتحان تو کچھ بھی سیکھنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبۂ عمل یا ردِعمل کو زیادہ سے زیادہ بہتر طور سے تحریک دینے کا ہے، جس میں گنتی کے چند لوگ ہی کامیاب ہوپائے ہیں۔
’یہ کہتے ہی ایلینا اٹھی اور اپنی بھیڑوں کو شام کے اس پار ان کی پناہ گاہ کی جانب ہانکتے ہوئے میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔
’گھر لوٹتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ نہ جانے ایلینا جیسے کتنے ہی نفوس مذہبی یا جدید عصری تعلیمات سے محروم ہونے کے باوجود اپنی محدود دنیا کے توسط سے ذاتی اور خالص مشاہدات کے ذریعے اَن دیکھے خدا تک رسائی حاصل کرتے ہوں گے؟
’یوں دن، ہفتے اور مہینے گزر گئے اور میں ایلینا کے احساس سے معمور ہوتے ہوتے اس کے نفس کی رعنائیوں کا اسیر ہوگیا۔
’اور پھر ایک روز باتوں باتوں میں اظہارِ محبت کرتے ہوئے جب ایلینا سے میں نے کہا کہ میں اپنی باقی زندگی کی ہر خوشی اور دُکھ تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں مگر اس حوالے سے تمہاری رائے جاننا بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی میں کوئی حتمی فیصلہ کر پاؤں گا۔
’میرے غیر متوقع اظہارِ محبت پر حیران یا خوفزدہ ہونے کے بجائے وہ کہنے لگی کہ کسی بھی جذبے بالخصوص محبت کا اظہار کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن مجھے پہچاننے کے باوجود تم مجھے جانتے نہیں۔ محبت کسی بھی شخص کو پہچاننے کے بعد اسے جاننے کا تقاضا کرتی ہے۔ ورنہ آئے دن ظاہری حُسن و جمال سے مرعوب ہوکر ایک زندگی میں نہ جانے ہمیں کتنی محبتوں سے گزرنا پڑجائے گا۔
’میں نے حیران ہوکر بے ساختگی سے پوچھا کہ، تمہیں پڑھنا لکھنا آتا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ تم لکھتی کیوں نہیں؟ تمہارے خیالات اچھوتے ہیں اگر تم انہیں لکھتی رہو تو بہت اچھی لکھاری کے طور پر اپنا نام روشن کرسکتی ہو.
’اس نے افسردگی سے جواب دیا کہ، پڑھنا بھی آتا ہے اور لکھنا بھی لیکن میرے پاس نوٹ بُک نہیں۔ مجھے ان وادیوں میں سفر کرنا بہت پسند ہے۔ یہاں مجھے سکون کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے اور میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ نہ صرف اپنے تمام تر جذبات اور تجربات بلکہ اس ماحول سے وابستہ تمام عناصر کی ان باتوں کو لکھوں جو یہ اکثر میری سماعتوں تک پہنچاتے ہیں۔
’پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا کہ، تم بھی سفر کیا کرو۔ اس سے تمہیں خود کو جاننے اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کے مواقع ملیں گے اور پھر اس نے فوراََ چہکتے ہوئے پوچھا کہ، کیا تم مجھے نوٹ بُک لا دو گے؟
’میں نے معمولی سی فرمائش کرنے والی ایلینا کی سادگی پر مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہاں بالکل، میں ضرور لادوں گا۔
’میرا جواب سُنتے ہی وہ اچھل پڑی اور کسی معصوم بچے کی طرح وضاحت دیتے ہوئے کہا، یوں تو گاؤں کی دکانوں میں کاپیاں ملتی ہیں لیکن مجھے وہ پسند نہیں۔ تم میرے لیے شہر سے چمڑے کے کور والی نوٹ بُک لانا جس کے صفحات تعداد میں زیادہ اور نہایت ملائم ہوتے ہیں۔ ایسی نوٹ بُک ہمارے لینڈ لارڈ کی بیٹی کے پاس دیکھی تھی میں نے۔ اگر تم وہی نوٹ بُک لے آئے تو پھر میں بھی وہ سب بتا دوں گی جو میرے دل میں ہے۔
’میں نے ہامی بھری اور ایلینا کی سادگی پر مسکراتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑا۔
’اگلے اتوار جب میں ایلینا کی فرمائش کے مطابق نوٹ بُک لے کر چراگاہ کی ڈھلوان سطح سے اوپر کی طرف چڑھ رہا تھا تو ایلینا نے بلندی سے مجھے دیکھا اور خوشی کے مارے میری جانب دوڑی۔ اسی اثنا میں میری آنکھوں کے سامنے اس کا پاؤں پھسلا اور یکا یک وہ لڑھکتی ہوئی کافی نیچے آنے کے بعد پتھر کے ساتھ ٹکرا کر رُک گئی۔
’میں حواس باختگی میں دوڑا اور ایلینا کے پاس پہنچ کر اسے ٹٹولا تو جسم کی باقی معمولی چوٹوں کے علاوہ سر پر گہری چوٹ لگنے کے باعث وہ بے حال ہو رہی تھی۔ پھر ایلینا نے بجھتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کراہتے ہوئے مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ ‘میری نوٹ بُک؟’
’نوٹ بُک تو میں گھبراہٹ میں نیچے ہی کہیں پھینک آیا تھا۔ سو میں نے ایلینا سے کہا کہ وہ میرے پاس ہی ہے اور تمہیں مل جائے گی لیکن اس وقت تمہیں طبی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ سنتے ہی کرب میں مبتلا ایلینا نے زیرِ لب ‘جھوٹ’ کہتے ہوئے اپنی روح کو چراگاہ کی فضاؤں میں آزاد چھوڑ دیا۔
’ماحول پر کچھ دیر کے لیے ہیبت ناک سکوت طاری رہا جس کے بعد اپنے بیگ سے نوٹ بُک نکال کر ولادیمیر راسکووچ نے مجھے دکھاتے ہوئے کہا، آج میں اس کی کہی ہوئی بات کے مطابق سفر پر ہوں۔ شاید ایلینا کی روح پھر کہیں سے کچھ دیر کے لیے اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہوجائے اور میں اس سے کہوں کہ اے عزیزہ من ایلینا! میں قطعی جھوٹا نہیں ہوں بلکہ آج بھی تمہاری کہی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہوں۔ یہ دیکھو تمہاری لیدر کور والی نوٹ بُک۔ اب جو بھی اور جس قدر بھی تمہارے جذبات ہیں انہیں لکھ ڈالو تاکہ دنیا بھی تمہارے خیالات کی رعنائیوں سے بہرہ مند ہوسکے۔‘
ایک ہلکی سی آہ کے ساتھ میں نے راسکووچ پر ہمدردانہ نگاہ ڈالتے ہوئے دیکھا تو اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری تھے۔
نوٹ: یہ دلگداز تحریر ڈان ڈاٹ کام کے شکریے کے ساتھ شائع کی گئی.