طالبان کابل میں داخل ہو گئے، افغان وزارت داخلہ کی تصدیق

نیوز ڈیسک

کابل: طالبان جنگجو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور بزور طاقت قبضہ نہ کرنے کے وعدے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کے منتظر ہیں

غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایک عہدیدار نے بتایا کہ طالبان تمام اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے ہیں البتہ انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں

ایک آن لائن بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل کے دروازے پار کر کے طاقت کے ذریعے شہر کا کنٹرول نہ حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے

ان کا کہنا تھا کہ کابل کے شہریوں کی زندگی، املاک، عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر اقتدار کی محفوظ منتقلی کا عمل یقینی بنانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں. کابل شہر کی پر امن منتقلی کا انتظار کررہے ہیں تاہم انہوں نے جنگجوؤں اور حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔

البتہ معاہدے کی تفصیلات کے اصرار پر سہیل شاہین نے اعتراف کیا کہ وہ مرکزی حکومت کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں

ایک طالبان عہدیدار نے خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گروپ اقتدار کے حصول میں کوئی جانی نقصان نہیں چاہتا لیکن اس نے جنگ بندی کا اعلان بھی نہیں کیا ہے

دوسری جانب طالبان مذاکرات کار اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے بات چیت کرنے افغان صدارتی محل روانہ ہوئے، حکام کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ اقتدار کی منتقلی کب ہوگی

دوسری جانب ایک ویڈیو بیان میں افغان قائم مقام وزیر داخلہ نے کہا کہ کابل پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور اقتدار کی منتقلی پر امن ماحول میں ہوگی

افغان وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کابل میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں، امریکی صدر نے طالبان جنگجوؤں کو وارننگ دیدی کہ سفارتی عملے کو نقصان پہنچنے کی صورت میں سخت جواب دیا جائے گا

قبل ازیں اطلاعات تھیں کہ طالبان نے کئی اہم افغان شہروں پر قبضے کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل کا گھیراؤ شروع کر دیا ہے جس کے بعد افغان حکومت کا کنٹرول صرف کابل شہر تک محدود ہو گیا ہے ، جلال آباد بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں کئی گھنٹوں سے بلیک آؤٹ ہے

طالبان نے ازبک سرحد کے قریب آخری بڑے شہر مزار شریف پر بھی قبضہ کر لیا، طالبان اپنے پہلے دور میں مزار شریف پر قابض نہیں ہو سکے تھے

شہر کا دفاع کرنے کی دعوے دار افغان فورسز، فیلڈ مارشل اور وار لارڈ جنرل عبدالرشید دوستم اور ملیشیا لیڈر عطاء محمد نور فرار ہو گئے اور ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل اور وار لارڈ جنرل عبدالرشید دوستم مزار شریف سے ازبکستان فرار ہوئے ہیں، جبکہ طالبان جنرل رشید دوستم کے گھر میں قہوے اور ڈرائی فروٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں

جب کہ دوسری جانب قائم مقام افغان وزیرداخلہ عبدالستار میرز کوال نے کہا ہے کہ کابل پرحملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے، افغانستان میں اقتدار پرامن طور پرعبوری حکومت کو منتقل ہو گا

افغان میڈیا کے مطابق طالبان کو اقتدار کی منتقلی کے لئے افغان صدارتی محل میں مذاکرات جاری ہیں، علی احمد جلالی کو نئی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔ عبداللہ عبداللہ معاملےمیں ثالث کا کردارادا کر رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کا کچھ دیر میں مستعفی ہونے کا امکان ہے

طالبان نے افغانستان کے تمام بارڈرز کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ طالبان کے حملوں کے پیش نظر دارالحکومت میں عمارتوں کوخالی کیا جا رہا ہے۔ ترجمان طالبان نے کہا کہ جنگ کے ذریعے کابل میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں، جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں چاہتے، کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہم افغان اور دیگر لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں، ان کوخوش آمدید کہیں گے جو بد عنوان کابل انتظامیہ کے خلاف ہیں، جنہوں نے دخل اندازوں کی مدد کی، ان کے لئے بھی دروازے کھلے ہیں۔

قبل ازیں کابل کی جانب طالبان کی پیش قدمی کے پیش نظر افغان قیادت کی سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں، افغان صدر اور عبداللہ عبداللہ کی افغان سرداروں اور سیاستدانوں سے الگ الگ ملاقات ہوئیں، طالبان نے جلال آباد اور مزار شریف پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ طالبان سے جنگ کے دوران بعض افغان فوجی سرحد پار کرکے ازبکستان بھاگ گئے ، طالبان صوبہ پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں بھی داخل ہوگئے، پاکستان کی سرحد پر واقع صوبہ کنڑ کے صدر مقام اسعد آباد پر بھی قبضہ ہو گیا، زابل کے گورنر نے طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔

صوبہ دایکندی کے دارالحکومت نیلی پر طالبان نے بغیر لڑے قبضہ کرلیا، افغان فوجیوں کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سمیت پناہ کے لئے ایران جانے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی۔

کابل میں صدر اشرف غنی کی سیاسی رہنماؤں اور سابق جنگی سرداروں سے ہنگامی ملاقات ہوئی جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بااختیار ٹیم تشکیل دینے پر اتفاق ہوا، اس سے قبل عبداللہ عبداللہ کی اہم افغان رہنماؤں سے ملاقات ہوئی جس میں عبوری حکومت کے قیام کا معاملہ زیر بحث آیا

امریکی صدر جو بائیڈن نے طالبان جنگجوؤں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سفارتی عملے کو نقصان پہنچنے کی صورت میں سخت جواب دیا جائے گا۔ مستقبل میں بھی طالبان سے نمٹنے کے لئے نگرانی جاری رکھی جائے گی۔

دوحہ میں قطر کے وزیر خارجہ کی طالبان رہنما عبدالغنی برادر سے ملاقات ہوئی، شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے طالبان پر فوری جنگ بندی کرنے پر زور دیا

یاد رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001ع میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا

تاہم دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی ایک امریکی خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی دیکھ کر لگتا ہے کہ طالبان کابل پر تین ماہ کے عرصے میں قبضہ کر لیں گے، لیکن یہ رپورٹ آنے کے دوسرے ہفتے ہی طالبان کابل پہنچ چکے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close