کابل :طالبان جنگجو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور بزور طاقت قبضہ نہ کرنے کے وعدے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کے منتظر ہیں. گزشتہ ہفتے ہی ایک امریکی خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی دیکھ کر لگتا ہے کہ طالبان کابل پر تین ماہ کے عرصے میں قبضہ کر لیں گے، لیکن یہ رپورٹ آنے کے دوسرے ہفتے ہی طالبان کابل پہنچ چکے ہیں. ان حالات اس سوال کو لے کر ایک بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس وقت طالبان کی قیادت میں کون کون لوگ شامل ہیں
افغان طالبان کی قیادت کے بارے میں کم ہی تفصیلات سامنے آتی ہیں کیوں کہ ان کی قیادت رازداری سے کام کر رہی ہے. یہاں تک کہ جب انہوں نے افغانستان میں 1996 سے 2001 تک اپنی حکومت قائم کی اس وقت بھی ان کی حکومت کے امور کس طرح سر انجام دیے جارہے تھے لوگوں کو اس حوالے سے کم ہی معلومات تھیں
جیسا کہ طالبان کا سربراہ طاقت کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے ہم آپ کو مذکورہ رپورٹ میں ان کی قیادت سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کررہے ہیں:
سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ:
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہیبت اللہ اخونزادہ کو 2016ع میں ان کے پیش رو ملا منصور اختر کی امریکی ڈرون حملے میں موت کے بعد طالبان کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، ملا منصور کو ملا عمر کی موت کے اعلان کے بعد جنگجوؤں کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا
مذکورہ عہدے پر فائز کیے جانے سے قبل ہیبت اللہ ایک مذہبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، انہیں عسکری کمانڈر سے زیادہ روحانی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے
یاد رہے کہ ہیبت اللہ نے ایک ایسے وقت میں طالبان کی قیادت سنبھالی تھی جب جنگجوؤں کی قیادت کو ملا عمر کی موت کو کئی سالوں تک چھپائے جانے کے بعد اس کا عوامی سطح پر اعلان کرنے اور اس حوالے سے جنگجوؤں میں پیدا ہونے والی تشویش کو ختم کرنے جبکہ ملک میں دیگر عسکری محاذوں پر دباؤ کا سامنا تھا
ہیبت اللہ بیشتر بیانات جاری نہیں کرتے بلکہ صرف مذہبی تہواروں پر ہی ان کے بیانات سامنے آتے ہیں۔
طالبان بانیان، ملا برادر:
عبدالغنی برادر کی پرورش افغانستان کے علاقے قندہار میں ہوئی اور یہ علاوہ طالبان کی جائے پیداش بھی ہے
دیگر افغانوں کی طرح ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بھی 1970ع میں روسیوں کے قبضے کے بعد مزاحمت کار کے طور پر گزرا، انہوں نے ملا عمر، سابق طالبان سربراہ اور تنظیم کے بانی، کے ساتھ کئی محاذوں پر حصہ لیا
دونوں نے مل کر 1990ع میں طالبان کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ملک سے خانہ جنگی، سرداروں کے مظالم، کرپشن اور افراتفری کو ختم کرنا تھا، جو روسیوں کی پسپائی کے بعد ملک میں وسیع پیمانے پھیل گئی تھی
امریکی حملے اور طالبان کی حکومت کے اختتام پر 2001ع میں وہ اس مختصر مزاحمت گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ کام کیا اور ایسا ایک معاہدے کے بعد ہوا تھا
خیال رہے کہ 2010ع میں پاکستان نے ملا برادر کو گرفتار کرلیا تھا اور 2018ع میں رہائی کے بعد وہ قطر منتقل ہو گئے تھے، جہاں ملا برادر کو طالبان کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا اور اس دوران انہوں نے امریکا سے کامیاب امن معاہدہ بھی کیا
سراج الدین حقانی اور حقانی نیٹ ورک:
سراج الدین حقانی روس کے خلاف مزاحمت کرنے والے سابق کمانڈر جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں. سراج الدین حقانی نہ صرف طالبان کے اہم لیڈر ہیں بلکہ وہ حقانی نیٹ ورک کے بھی انتہائی طاقت ور ترین سربراہ تصور کیے جاتے ہیں
واضح رہے کہ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور بہت طویل عرصے سے انہیں انتہائی خطرناک افغان جنگجو تنظیم کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ انہوں نے دو دہائیوں تک قابض امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف حملے جاری رکھے
سابق سربراہ کے بیٹے ملا یعقوب:
ملا یعقوب طالبان کے سابق اور بانی سربراہ ملا عمر کے بیٹے ہیں۔ ملا یعقوب طالبان کی طاقت ور ترین عسکری شوریٰ کے سربراہ ہیں، جو فیلڈ میں موجود کمانڈرز کی رہنمائی کرتی ہے اور انہیں جنگ کی حکمت علمی سے متعلق آگاہ کرتی ہے. سابق طالبان سربراہ ملا عمر کے بیٹے ہونے کے باعث بھی انہیں طالبان جنگجوؤں کے درمیان بہت اہمیت حاصل ہے.
یہ خبر بھی پڑھئیے :
____________________________________________________________________