کالو بھنگی

کرشن چندر

میں نے اس سے پہلے ہزار بار کالو بھنگی کے بارے میں لکھنا چاہا ہے لیکن میرا قلم ہر بار یہ سوچ کر رک گیا ہے کہ کالو بھنگی کے متعلق لکھا ہی کیا جا سکتا ہے۔ مختلف زایوں سے میں نے اس کی زندگی کو دیکھنے، پرکھنے، سمجھنے کی کوشش کی ہے، لیکن کہیں وہ ٹیڑھی لکیر دکھائی نہیں دیتی جس سے دلچسپ افسانہ مرتب ہو سکتا ہے۔ دلچسپ ہونا تو درکنار کوئی سیدھا سادا افسانہ، بے کیف وبے رنگ، بے جان مرقع بھی تو نہیں لکھا جا سکتا ہے، کالو بھنگی کے متعلق، پھر نہ جانے کیا بات ہے، ہر افسانے کے شروع میں میرے ذہن میں کالو بھنگی آن کھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے مسکرا کر پوچھتا ہے ’’چھوٹے صاحب! مجھ پر کہانی نہیں لکھوگے؟ کتنے سال ہو گئے تمہیں لکھتے ہوئے؟‘‘

’’آٹھ سال‘‘

’’کتنی کہانیاں لکھیں تم نے؟‘‘

’’ساٹھ اور دو.. باسٹھ‘‘

’’مجھ میں کیا برائی ہے چھوٹے صاحب۔ تم میرے متعلق کیوں نہیں لکھتے؟ دیکھو کب سے میں اس کہانی کے انتظار میں کھڑا ہوں۔ تمہارے ذہن کے ایک کونے میں مدت سے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، چھوٹے صاحب، میں تو تمہارا پرانا حلال خور ہوں، کالو بھنگی، آخر تم میرے متعلق کیوں نہیں لکھتے؟‘‘

اور میں کچھ جواب نہیں دے سکتا۔ اس قدر سیدھی سپاٹ زندگی رہی ہے کالو بھنگی کی کہ میں کچھ بھی تو نہیں لکھ سکتا اس کے متعلق۔ یہ نہیں کہ میں اس کے بارے میں کچھ لکھنا نہیں چاہتا، دراصل میں کالو بھنگی کے متعلق لکھنے کا ارادہ ایک مدت سے کر رہا ہوں، لیکن کبھی لکھ نہیں سکا، ہزار کوشش کے باوجود نہیں لکھ سکا، اس لئے آج تک کالو بھنگی اپنی پرانی جھاڑو لئے، اپنے بڑے بڑے ننگے گھٹنے لئے، اپنے پھٹے پھٹے کھردرے بدہیبت پاؤں لئے، اپنی سوکھی ٹانگوں پر ابھری دریریں لئے، اپنے کولہوں کی ابھری ابھری ہڈیاں لئے، اپنے بھوکے پیٹ اور اس کی خشک جلد کی سیاہ سلوٹیں لئے، اپنے مرجھائے ہوئے سینے پر گرد آلود بالوں کی جھاڑیاں لئے، اپنے سکڑے سکڑے ہونٹوں، پھیلے پھیلے نتھنوں، جھریوں والے گال اور اپنی آنکھوں کے نیم تاریک گڈھوں کے اوپر ننگی چند یا ابھارے میرے ذہن کے کونے میں کھڑا ہے۔

اب تک، کئی کردار آئے اور اپنی زندگی بتا کر، اپنی اہمیت جتا کر، اپنی ڈرامائیت ذہن نشین کراکے چلے گئے۔ حسین عورتیں، خوب صورت تخیلی ہیولے، اس کی چار دیواری میں اپنے دئے جلا کر چلے گئے، لیکن کالو بھنگی بدستور اپنی جھاڑو سنبھالے اسی طرح کھڑا ہے۔ اس نے اس گھر کے اندر آنے والے ہر کردار کو دیکھا ہے، اسے روتے ہوئے گڑگڑاتے ہوئے، محبت کرتے ہوئےنفرت کرتے ہوئے، سوتے ہوئے، جاگتے ہوئے، قہقہے لگاتے ہوئے، تقریر کرتے ہوئے، زندگی کے ہر رنگ میں، ہر نہج سے ہر منزل میں دیکھا ہے، بچپن سے بڑھاپے سے موت تک، اس نے ہر اجنبی کو اس گھر کے دروازے کے اندر جھانکتے دیکھا ہے اور اسے اندر آتے ہوئے دیکھ کر اس کے لئے راستہ صاف کردیا ہے۔ وہ خود پرے ہٹ گیا ہے ایک بھنگی کی طرح ہٹ کر کھڑا ہو گیا ہے، حتٰی کہ داستان شروع ہو کر ختم بھی ہو گئی ہے، حتٰی کہ کردار اور تماشائی دونوں رخصت ہوگئے ہیں، لیکن کالو بھنگی اس کے بعد بھی وہیں کھڑا ہے۔ اب صرف ایک قدم اس نے آگے بڑھا لیا ہے، اور ذہن کے مرکز میں آگیا ہے، تاکہ میں اسے اچھی طرح دیکھ لوں۔ اس کی ننگی چندیا چمک رہی ہےاور ہونٹوں پر ایک خاموش سوال ہے، ایک عرصے سے میں اسے دیکھ رہا ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھوں گا اس کے بارے میں، لیکن آج یہ بھوت ایسے مانے گا نہیں، اسے کئی سالوں تک ٹالاہے، آج اسے بھی الوداع کہہ دیں؟

میں سات برس کا تھا جب میں نے کالو بھنگی کو پہلی بار دیکھا۔ اس کے بیس برس بعد جب وہ مرا، میں نے اسے اسی حالت میں دیکھا۔ کوئی فرق نہ تھا، وہی گھٹنے، وہی پاؤں، وہی رنگت، وہی چہرہ، وہی چندیا، وہی ٹوٹے ہوئے دانت، وہی جھاڑو جو ایسا معلوم ہوتا تھا، ماں کے پیٹ سے اٹھائے چلا آرہا ہے۔ کالو بھنگی کی جھاڑواس کے جسم کا ایک حصہ معلوم ہوتی تھی، وہ ہر روز مریضوں کا بول و براز صاف کرتا تھا۔ ڈسپینسری میں فینائل چھڑکتا تھا، پھر ڈاکٹر صاحب اور کمپونڈر صاحب کے بنگلوں میں صفائی کا کام کرتا تھا، کمپونڈر صاحب کی بکری، اور ڈاکٹر صاحب کی گائے کو چرانے کے لئے جنگل میں لے جاتا، اور دن ڈھلتے ہی انہیں واپس ہسپتال میں لے آتا اور مویشی خانے میں باندھ کر اپنا کھانا تیار کرتا اور اسے کھا کر سوجاتا، بیس سال سے اسے میں یہی کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ہر روز، بلا ناغہ اس عرصے میں وہ کبھی ایک دن کے لئے بھی بیمار نہیں ہوا۔ یہ امر تعجب خیز ضرور تھا، لیکن اتنا بھی نہیں کہ محض اسی کے لئے ایک کہانی لکھی جائے خیر یہ کہانی تو زبردستی لکھوائی جا رہی ہے۔ آٹھ سال سے میں اسے ٹالتا آیا ہوں، لیکن یہ شخص نہیں مانا۔ زبر دستی سے کام لے رہا ہے یہ ظلم مجھ پر بھی ہے اور آپ پر بھی۔

مجھ پر اس لئےکہ مجھے لکھنا پڑ رہا ہے، آپ پر اس لئے کہ آپ کو اسے پڑھنا پڑ رہا ہے۔ حلانکہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کے لئے اس کے متعلق اتنی سردردی مول لی جائے، مگر کیا کیا جائے کالو بھنگی خاموش نگاہوں کے اندر اک ایسی کھنچی کھنچی سی ملتحبیانہ کاہش ہے، اک ایسی مجبور بے زباں ہے، اک ایسی محبوس گہرائی ہے کہ مجھے اس کے متعلق لکھنا پڑ رہا ہے اور لکھتے لکھتے یہ بھی سوچتا ہوں کہ اس کی زندگی کے متعلق کیا لکھوں گامیں۔

کوئی پہلو بھی تو ایسا نہیں جو دلچسپ ہو، کوئی کونہ ایسا نہیں جو تاریک ہو، کوئی زاویہ ایسا نہیں جو مقناطیسی کشش کا حامل ہو، ہاں آٹھ سال سے متواتر میرے ذہن میں کھڑا ہے نہ جانے کیوں۔ اس میں اس کی ہٹ دھرمی کے سوا اور تو مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ جب میں نے آنگی کے افسانے میں چاندنی نے کھلیان سجائے تھے اور یرقانیت کے رومانی نظریئے سے دنیا کو دیکھا تھا۔ اس وقت بھی یہ وہیں کھڑا تھا جب میں نے رومانیت سے آگے سفر اختیار کیا اور حسن اور حیوان کی بوقلموں کیفیتیں دیکھتا ہوا ٹوٹے ہوئے تاروں کو چھونے لگا اس وقت بھی یہ وہیں تھا۔ جب میں نے بالکونی سے جھانک کر اَن داتاؤں کی غربت دیکھی، اور پنجاب کی سرزمین پر خون کی ندیاں بہتی دیکھ کر اپنے وحشی ہونے کا علم حاصل کیا اس وقت بھی یہ وہیں میرے ذہن کے دروازے پر کھڑا تھا۔ صُم بُکم۔ مگر اب یہ جائے گا ضرور۔ اب کے اسے جانا ہی پڑے گا، اب میں اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ للّلہ اس کی بے کیف، بے رنگ، پھیکی، سیٹھی کہانی بھی سن لیجئے تاکہ یہ یہاں سے دور دفان ہو جائے، اور مجھے اس کے غلیظ قرب سے نجات ملے، اور اگر آج بھی میں نے اس کے بارے میں نہ لکھا، اور آپ نے اسے پڑھا تو یہ آٹھ سال بعد بھی یہیں جما رہےگا اور ممکن ہے زندگی بھر یہیں کھڑا رہے۔

لیکن پریشانی تو یہ ہے کہ اس کے بارے میں کیا لکھا جا سکتا ہے۔ کالو بھنگی کے ماں باپ بھنگی تھے، اور جہاں تک میرا خیال ہے اس کےسارے آباو اجداد بھنگی تھے اور سینکڑوں برس سے یہیں رہتےچلے آئےتھے۔ اسی طرح، اسی حالت میں، پھر کالو بھنگی نے شادی نہ کی تھی، اس نے کبھی عشق نہ کیا تھا، اس نے کبھی دور دراز کا سفر نہیں کیا تھا، حد تو ہے کہ وہ کبھی اپنے گاؤں سے باہر نہیں گیا تھا، وہ دن بھر اپناکام کرتااور رات کو سو جاتا۔ اور صبح اٹھ کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا بچپن ہی سے وہ اسی طرح کرتا چلا آیا تھا۔

ہاں کالو بھنگی میں ایک بات ضرور دلچسپ تھی۔ اور وہ یہ کہ اسے اپنی ننگی چندیا پر کسی جانور، مثلاًً گائے یا بھینس کی زبان پھرائے سے بڑا لطف حاصل ہوتا تھا۔ اکثر دوپہر کے وقت میں نے اسے دیکھا ہے کہ نیلے آسمان تلے، سبز گھاس کے مخملیں فرش پر کھلی دھوپ میں وہ ہسپتال کے قریب ایک کھیت کی مینڈھ پر اکڑوں بیٹھا ہے، اور گائے اس کس سر چاٹ رہی ہے۔ بار بار، اور وہ وہیں اپنا سر چٹواتا چٹواتا اونگھ اونگھ کر سو گیا ہے، اسے اس طرح سوتے دیکھ کر میرے دل میں مسرت کا ایک عجیب سا احساس اجاگر ہونے لگتا تھا۔ اور کائنات کے تھکے تھکے غنودگی آمیز آفاقی حسن کا گماں ہونے لگتا تھا۔ میں نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں دنیا کی حسین ترین عورتیں، پھولوں کے تازہ ترین غنچے، کائنات کے خوب صورت ترین مناظر دیکھے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ایسی معصومیت، ایسا حسن، ایسا سکون کسی منظر میں نہیں دیکھا جتنا اس منظر میں کہ جب میں سات برس کا تھا، اور وہ کھیت بہت بڑا اور وسیع دکھائی دیتا تھا اور آسمان بہت نیلا اور صاف، اور کالو بھنگی کی چندیا شیشے کی طرح چمکتی تھی، اور گائے کی زبان آہستہ آہستہ اس کی چندیا چاٹتی ہوئی۔ اسے گویا سہلاتی ہوئی کُسر کُسر کی خوابیدہ آواز پیدا کرتی جاتی تھی۔ جی چاہتا تھامیں بھی اسی طرح اپنا سر گھٹا کے اس گائے کے نیچے بیٹھ جاؤں اور اونگھتا اونگھتا سو جاؤں۔ایک دفعہ میں نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو والد صاحب نے مجھے وہ پیٹا وہ پیٹا، اور مجھ سے زیادہ غریب کالو بھنگی کو وہ پیٹا کہ میں خود ڈر کے مارے چیخنے لگا کہ کالو بھنگی کہیں ان کی ٹھوکروں سے مر نہ جائے۔ لیکن کالو بھنگی کو اتنی مار کھاکے بھی کچھ نہ ہوا، دوسرے روز وہ بدستور جھاڑو دینے کے لئے ہمارے بنگلے میں موجود تھا۔

کالو بھنگی کو جانوروں سے بڑا لگاؤ تھا۔ ہماری گائے تو اس پر جان چھڑکتی تھی اور کمپونڈر صاحب کی بکری بھی، حلانکہ بکری بڑی بے وفا ہوتی ہے، عورت سے بھی بڑھ کے، لیکن کالوبھنگی کی بات اور تھی، ان دونوں جانوروں کو پانی پلائے تو کالو بھنگی، چارہ کھلائے تو کالوبھنگی، جنگل میں چرائے تو کالو بھنگی، اور رات کو مویشی خانے میں باندھے تو کالو بھنگی، وہ اس کے ایک ایک اشارے کو اس طرح سمجھ جاتیں جس طرح کوئی انسان کسی انسان کے بچے کی باتیں سمجھتا ہے میں کئی بار کالو بھنگی کے پیچھے گیا ہوں، جنگل میں راستے میں وہ انھیں بالکل کھلا چھوڑ دیتا ہے، لیکن پھر بھی گائے اور بکری دونوں اس کےساتھ قدم سے قدم ملائے چلے آتے تھے، گویا تین دوست سیر کرنے نکلے ہیں، راستے میں گائے نے سبز گھاس دیکھ کر منہ مارا تو بکری بھی جھاڑی سے پتیاں کھانے لگتی اور کالو بھنگی ہے کہ سنبلو توڑ توڑ کے کھا رہا ہے اور بکری کے منہ میں ڈال رہا ہے اور خود بھی کھا رہا ہے۔ اور آپ باتیں کر رہا ہے اور ان سے بھی برابر باتیں کئے جا رہا ہے اور وہ دونوں جانور بھی کبھی غّرا کر کبھی کان پھٹپھٹا کر، کبھی پاؤں ہلاکر، کبھی دم دبا کر، کبھی ناچ کر، کبھی گا کر، ہر طرح سے اس کی گفتگو میں شریک ہو رہے ہیں۔

اپنی سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا تھاکہ یہ لوگ کیا باتیں کرتے تھے پھر چند لمحوں کے بعد کالو بھنگی آگے چلنے لگتا تو گائے بھی چرنا چھو دیتی اور بکری بھی جھاڑی سے پرے ہٹ جاتی اور کالو بھنگی کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی۔ آگے کہیں چھوٹی سی ندی آتی یا کوئی ننھا ننھا چشمہ تو کالو بھنگی وہیں بیٹھ جاتا بلکہ لیٹ کر وہیں چشمے کی سطح سے اپنے ہونٹ ملا دیتا اور جانوروں کی طرح پانی پینے لگتا،اور اسی طرح وہ دونوں جانور بھی پانی پینے لگتے، کیونکہ بیچارےانسان تو نہیں تھےکہ اوک سے پی سکتے، اس کے بعد اگر کالو بھنگی سبزے پر لیٹ جاتا تو بکری بھی اس کی ٹانگو ں کے پاس اپنی ٹانگیں سکیڑ کر، دعائیہ انداز میں بیٹھ جاتی اور گائے تو اس انداز سے اس کے قریب ہو بیٹھتی کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا کہ وہ کالو بھنگی کی بیوی ہے اور ابھی ابھی کھانا پکاکے فارغ ہوئی ہے اس کی ہر نگاہ میں اور چہرے کے ہر اتار چڑھاؤ میں اک سکون آمیزگرہستی انداز جھلکنے لگتا، اور جب وہ جگالی کرنے لگتی تو مجھے معلوم ہوتا گویا کوئی بڑی سگھر بیوی کروشیا لئے سوزن کاری میں مصروف ہے اور یا کالو بھنگی کا سوئٹر بن رہی ہے۔

اس گائے اور بکری کے علاوہ ایک لنگڑا کتا تھا، جو کالو بھنگی کا بڑا دوست تھا۔ وہ لنگڑا تھا اور اس لئے دوسرے کتوں کے ساتھ زیادہ وہ چل پھر نہ سکتا تھا اور اکثر اپنے لنگڑے ہونے کی وجہ سے دوسرے کتوں سےپٹتا اور بھوکا رہتا اور زخمی رہتا۔ کالو بھنگی اکثر اس کی تیمار داری اور خاطر و تواضع میں لگا رہتا۔ کبھی تو صابن سے اسے نہلاتا، کبھی اس کی چچڑیاں دور کرتا، اس کے زخموں پر مرہم لگاتا، اسے مکّی کی روٹی کا سوکھا ٹکڑا دیتا لیکن یہ کتا بڑا خود غرض جانور تھا۔ دن میں صرف دو مرتبہ کالو بھنگی سے ملتا، دوپہر کو اور شام کو، اور کھانا کھاکے اور زخموں پر مرہم لگواکے پھر گھومنے کے لئےچلا جاتا۔ کالو بھنگی اور اس لنگڑے کتے کی ملاقات بڑی مختصر ہوتی تھی، اور بڑی دلچسپ، مجھے تو وہ کتّا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا لیکن کالو بھنگی اسے ہمیشہ بڑے تپاک سے ملتا تھا۔

اس کے علاوہ کالو بھنگی کی جنگل کے ہر جانور چرند اور پرند سے شاناسائی تھی راستے میں اس کے پاؤں میں کوئی کیڑا آجاتا تو وہ اسے اٹھا کر جھاڑی پر رکھ دیتا، کہیں کوئی نیولہ بولنے لگتا تو یہ اس کی بولی میں اس کا جواب دیتا، تیتر، رت گلہ، گٹاری، لال چڑا، سبزہ مخی، ہر پرندے کی زبان وہ جانتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ راھُل سنکر تائین سے بھی بڑا پنڈت تھا۔ کم ازکم میرے جیسے سات برس کے بچے کی نظروں میں تو وہ مجھے اپنے ماں باپ سے بھی اچھا معلوم ہوتا تھا۔ اور پھر وہ مکّی کا بھٹا ایسے مزے کا تیار کرتا تھا، اور آگ پر اسے اس طرح مدھم آنچ میں بھونتا تھا کہ مکّی کا ہر دانہ کندن بن جاتا اور ذائقے میں شہد کا مزا دیتا، اور خوشبو بھی ایسی سوندھی سوندھی، میٹھی میٹھی، جیسے دھرتی کی سانس۔

نہایت آہستہ آہستہ بڑے سکون سے، بڑی مشاقی سے وہ بھٹّے کو ہر طرف سے دیکھ دیکھ کر اسے بھونتا تھا، جیسے وہ برسوں سے اس بھٹّے کو جانتا تھا، ایک دوست کی طرح وہ بھٹّے سے باتیں کرتا، اتنی نرمی اور مہربانی اور شفقت سے اس سے پیش آتا گویا وہ بھٹا اس کا اپنا رشتے دار یا سگا بھائی تھا۔ اور لوگ بھی بھٹا بھونتے تھے مگر وہ بات کہاں۔ اس قدر کچے بد ذائقہ اور معمولی سے بھٹّے ہوتے تھے، وہ کہ انہیں بس مکّی کا بھٹا ہی کہا جا سکتا ہے لیکن کالو بھنگی کے ہاتھوں میں پہنچ کے وہی بھٹا کچھ کا کچھ ہو جاتا، اور جب وہ آگ پر سینک کے بالکل تیار ہو جاتا تو بالکل اک نئی نویلی دلہن کی طرح عروسی لباس پہنے سنہرا سنہرا نظر آتا۔ میرے خیال میں خود بھٹّے کو یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ کالو اس سے کتنی محبت کرتا ہے ورنہ محبت کے بغیر اس بے جان شے میں اتنی رعنائی کیسے پیدا ہو سکتی تھی۔ مجھے کالو بھنگی کے ہاتھ کے سینکے ہوئے بھٹّے کھانے میں بڑا مزہ آتا تھا، اور میں انھیں بڑے مزے میں چھپ چھپ کے کھاتا تھا۔ ایک دفعہ پکڑا گیا تو بڑی ٹھکائی ہوئی، بری طرح، بچارا کالو بھنگی بھی پٹا مگر دوسرے دن وہ پھر بنگلے پر جھاڑو لئے اسی طرح حاضر تھا۔

اور بس کالو بھنگی کے متعلق اور کوئی دلچسپ بات یاد نہیں آرہی میں بچپن سے جوانی میں آیااور کالو بھنگی اسی طرح رہا میرے لئے اب وہ کم دلچسپ ہو گیا تھا۔ بلکہ یوں کہیئے کہ مجھے اپنی طرف کھینچتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا میں مطالعہ کے لئے اس سے سوال پوچھتااور نوٹ لینے کے لئے فاونٹن پن اور پیڈ ساتھ رکھ لیتا۔

’’کالو بھنگی تمہاری زندگی میں کوئی خاص بات ہے؟‘‘

’’کیسی چھوٹے صاحب؟‘‘

’’کوئی خاص بات، عجیب، انوکھی، نئی‘‘

’’نہیں چھوٹے صاحب‘‘ (یہاں تک تو مشاہدہ صفر رہا۔ اب آگے چلئے، ممکن ہے۔۔۔)

’’اچھا تم یہ بتاؤ تم تنخواہ لے کر کیا کرتے ہو؟‘‘ ہم نے دوسرا سوال پوچھا۔

’’تنخواہ لے کر کیا کرتا ہو‘‘ وہ سوچنے لگا، ’’آٹھ روپے ملتےہیں مجھے‘‘ پھر وہ انگلیوں پر گننے لگتا، ’’چار روپے کا آٹا لاتا ہوں، ایک روپے کا نمک، ایک روپے کا تمباکو، آٹھ آنے کی چائے، چار آنے کا گڑ، چار آنے کا مصالحہ، کتنے روپے ہو گئے چھوٹے صاحب؟‘‘

’’سات روپے‘‘

’’ہاں سات روپے۔ ہر مہینے ایک روپیہ بنئے کو دیتا ہوں۔ اس سے کپڑے سلوانے کے لئے روپے کرج لیتا ہوں نا، سال میں دو جوڑے تو چاہئیں، کمبل تو میرے پاس ہے، خیر، لیکن دو جوڑے تو چاہیئں، اور چھوٹے صاحب، کہیں بڑے صاحب ایک روپیہ تنخواہ میں بڑھا دیں تو مجا آجائے۔‘‘

’’وہ کیسے‘‘

’’گھی لاؤں گا ایک روپے کا، اور مکّی کے پراٹھے کھاؤں گا کبھی پراٹھے نہیں کھائے مالک، بڑا جی چاہتا ہے؟‘‘

اب بولئے ان آٹھ روپوں پر کوئی کیا افسانہ لکھے۔

پھر جب میری شادی ہو گئی، جب راتیں جوان اور چمکدار ہونے لگتیں اور قرب کے جنگل سے شہد اور کستوری اور جنگلی گلاب کی خوشبوئیں آنے لگتیں اور ہرن چوکڑیاں بھرتے ہوئے دکھائی دیتے اور تارے جھکتے جھکتے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتے اور کسی کے رسیلے ہونٹ آنے والے بوسوں کا خیال کرکے کاپنے لگتے، اس وقت بھی میں کالو بھنگی کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا اور پینسل کاغذ لے کے اس کے پاس جاتا۔

’’کالو بھنگی تم نے بیاہ نہیں کیا‘‘

’’نہیں چھوٹے صاحب‘‘

’’کیوں‘‘

’’اس علاقے میں میں ہی ایک بھنگی ہوں۔ اور دور دور تک کوئی بھنگی نہیں ہے چھوٹے صاحب۔ پھر ہماری شادی کیسے ہو سکتی ہے!‘‘ (لیجئے یہ راستہ بھی بند ہوا)

’’تمہارا جی نہیں چاہتا کالو بھنگی؟‘‘ میں نے دوبارہ کوشش کر کے کچھ کریدنا چاہا۔

’’کیا صاحب؟‘‘

’’عشق کرنے کے لئے جی چاہتا ہے تمہارا؟ شاید کسی سے محبت کی ہوگی تم نے، جبھی تم نے اب تک شادی نہیں کی‘‘

’’عشق کیا ہوتا ہےچھوٹے صاحب؟‘‘

’’عورت سے عشق کرتے ہیں لوگ‘‘

’’عشق کیسے کرتے ہیں صاحب؟ شادی تو ضرور کرتے ہیں سب لوگ، بڑے لوگ عشق بھی کرتے ہونگے چھوٹے صاحب۔ مگر ہم نے نہیں سنا وہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں۔ رہی شادی کی بات، وہ میں نے آپ کو بتا دی، شادی کیوں نہیں کی میں نے، کیسے ہوتی شادی میری، آپ بتایئے؟‘‘ (ہم کیا بتائیں خاک)

’’تمہیں افسوس نہیں کالو بھنگی؟‘‘

’’کس بات کا افسوس چھوٹے صاحب؟‘‘

میں نے ہار کر اس کے متعلق لکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔

آٹھ سال ہوئےکالو بھنگی مرگیا۔ وہ جو کبھی بیمار نہیں ہوا تھا اچانک ایسا بیمار پڑا کہ پھر کبھی بستر علالت سے نہ اٹھا، اسے ہسپتال میں مریض رکھوا دیا تھا۔ وہ الگ وارڈ میں رہتا تھا، کمپونڈر دور سے اس کے حلق میں دوا انڈیل دیتا۔ اور ایک چپراسی اس کے لئے کھانا رکھ آتا، وہ اپنے برتن خود صاف کرتا، اپنا بستر خود صاف کرتا، اپنا بول و براز خود صاف کرتا۔ اور جب وہ مر گیا تو اس کی لاش کو پولیس والوں نے ٹھکانے لگا دیا۔ کیونکہ اس کا کوئی وارث نہ تھا، وہ ہمارے ہاں بیس سال سے رہتا تھا، لیکن ہم کوئی اس کےرشتے دار تھوڑی تھے، اس لئےاس کی آخری تنخواہ بھی بحق سرکار ضبط ہوگئی، کیونکہ اس کا وارث نہ تھا۔ اور جب وہ مرا اس روز بھی کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ روزکی طرح اس روزبھی ہسپتال کھلا، ڈاکٹر صاحب نےنسخے لکھے، کمپونڈر نے تیار کئے، مریضوں نے دوا لی اور گھر لوٹ گئے۔ پھر روز کی طرح ہسپتال بھی بند ہوا اور گھر آکر ہم سب نے آرام سے کھانا کھایا، ریڈ یو سنا، اور لحاف اوڑھ کر سو گئے۔ صبح اٹھے تو پتہ چلا کہ پولس والوں نے ازراہِ کرم کالو بھنگی کی لاش ٹھکانے لگوادی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کی گائے نے اور کمپونڈر صاحب کی بکری نے دو روز تک کچھ نہ کھایا نہ پیا، اور وارڈ کے باہر کھڑے کھڑے بیکار چلاتی رہیں، جانوروں کی ذات ہے نہ آخر۔

ارے تو پھر جھاڑو دے کر آن پہنچا! آخر کیا چاہتا ہے ؟ بتا دے۔

کیوں بھئی، اب تو میں نے سب کچھ لکھ دیا، وہ سب کچھ جو میں تمہاری بابت جانتا ہوں، اب بھی یہیں کھڑے ہو، پریشان کر رہے ہو، لللّٰہ چلے جاؤ، کیا مجھ سے کچھ چھوٹ گیا ہے، کوئی بھول ہو گئی ہے؟ تمہارا نام، کالو بھنگی، کام، بھنگی، اس علاقے سے کبھی باہر نہیں گئے، شادی نہیں کی، عشق نہیں لڑایا، زندگی میں کوئی ہنگامی بات نہیں ہوئی، کوئی اچنبھا، معجزہ نہیں ہوا، جیسے محبوبہ کے ہونٹوں میں ہوتا ہے، اپنے بچے کے پیار میں ہوتا ہے، غالب کے کلام میں ہوتا ہے، کچھ بھی تو نہیں ہوا تمہاری زندگی میں، پھر میں کیا لکھوں، اور کیا لکھوں؟ تمہاری تنخواہ آٹھ روپے، چار روپے کا آٹا، ایک روپے کا نمک، ایک روپے کا تمباکو، آٹھ آنے کی چائے، چار آنے کا گڑ، چار آنے کا مصالحہ، سات روپے، اور ایک روپیہ بنیئے کا، آٹھ روپے ہو گئے، مگر آٹھ روپے میں کہانی نہیں ہوتی، آج کل تو پچیں پچاس سو میں نہیں ہوتی، مگر آٹھ روپے میں تو شرطیہ کوئی کہانی نہیں ہو سکتی، پھر میں کیا لکھ سکتا ہوں تمہارے بارے میں۔

اب خلجی ہی کو لے لو ہسپتال میں کمپونڈر ہے بتیس روپے تنخواہ پاتا ہے، وراثت سے نچلے متوسط طبقے کے ماں باپ ملے تھے، جنھوں نے مڈل تک پڑھا دیا، پھر خلجی نے کمپونڈری کا امتحان پاس کر لیا، وہ جوان ہے، اس کے چہرے پر رنگت ہے، یہ جوانی یہ رنگت کچھ چاہتی ہے، وہ سفید لٹھے کی شلوار پہن سکتا تھا، قمیص پر کلف لگا سکتا ہے، بالوں میں خوشبودار تیل لگا کر کنگھی کر سکتا ہے، سرکار نے اسے رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا بنگلہ نما کوارٹر بھی دے رکھا ہے، ڈاکٹر چوک جائے تو فیس بھی جھاڑلیتا ہے۔ اور خوب صورت مریضاؤں سے عشق بھی کر لیتا ہے، وہ نوراں اور خلجی کا واقعہ تمہیں یاد ہوگا، نوراں بھیتا سے آئی تھی، سولہ سترہ برس کی الھڑ جوانی، چار کوس سے سنیماکے رنگین اشتہار کی طرح نظر آجاتی تھی۔ بڑی بے وقوف تھی وہ اپنے گاؤں کے دو نوجوانوں کا عشق قبول کئے بیٹھی تھی۔

جب نمبردار کا لڑکا سامنے آجاتا تو اس کی ہو جاتی اور جب پٹواری کا لڑکا دکھائی دیتا تو اس کا دل اس کی طرف مائل ہونے لگتا اور وہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کرسکتی تھی۔ بالعموم عشق کو لوگ ایک بالکل واضح، قاطع، یقینی امر سمجھتے ہیں۔ درحالیکہ یہ عشق اکثر بڑا متذ بذب، غیر یقینی، گومگو حالت کا حامل ہوتا ہے، یعنی عشق اس سے بھی ہے اور اس سے بھی ہے، اور پھر شاید کہیں نہیں ہے اور ہے بھی۔ تو اس قدر وقتی، گرگٹی، ہنگامی، کہ ادھر نظر چوکی ادھر عشق غائب، سچائی ضرور ہوتی ہے، لیکن ابدیت مفقود ہوتی ہے۔

اسی لئے تو نوراں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی تھی۔ اس کادل نمبردار کے بیٹے کے لئے بھی دھڑکتا تھا اور پٹواری کے پوت کے لئے بھی، اس کے ہونٹ نمبردار کے بیٹے کے ہونٹوں سے مل جانے کے لئے بیتاب ہو اٹھتے اور پٹواری کےپوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہی اس کا دل یوں کانپنے لگتا، جیسے چاروں طرف سمندر ہو، چاروں طرف لہریں ہوں، اور ایک اکیلی کشتی ہو اور نازک سی پتوار ہے اور چاروں طرف کوئی نہ ہو، اور کشتی ڈولنے لگے، ہولے ہولے ڈولتی جائے، اور نازک سی پتوار نازک سے ہاتھوں سے چلتی چلتی تھم جائے، اور سانس رکتے رکتے رک سی جائے، اور آنکھیں جھکتی جھکتی جھک سی جائیں، اور زلفیں بکھرتی بکھرتی سی جائیں، اور لہریں گھوم گھوم کر گھومتی ہوئی معلوم دیں، اور بڑے بڑے دائرے پھیلتی پھیلتے جائیں اور پھر چاروں طرف سناٹا پھیل جائے اور دل ایک دم دھک سے رہ جائے۔ اور کوئی ایک اپنی باہوں میں بھینچ لے، ہائے، پٹواری کے بیٹے کو دیکھنے سے ایسی حالت ہوتی تھی نوراں کی، اور وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکتی تھی۔

نمبردار کا بیٹا، پٹواری کا بیٹا، پٹواری کا بیٹا، نمبردار کا بیٹا، وہ دونوں کو زبان دے چکی تھی، دونوں سے شادی کرنے کا اقرار کر چکی تھی، دونوں پر مر مٹی تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آپس میں لڑتے لڑتے لہو لہان ہو گئے۔ اور جب جوانی کا بہت سالہو رگوں سے نکل گیا، انھیں اپنی بے وقوفی پر بڑا غصہ آیا، اور پہلے نمبردار کا بیٹا نوراں کے پاس کے پہنچا اور اپنی چھری سے اسے ہلاک کرنا چاہااور نوراں کےبازو پر زخم آگئے۔ اور پھر پٹواری کا پوت آیا اور اس نے اس کی جان لینی چاہی، اور نوراں کے پاؤں پر زخم آگئے مگر وہ بچ گئی، کیونکہ وہ بر وقت ہسپتال لائی گئی تھی اور یہاں اس کا علاج شروع ہو گیا۔

آخر ہسپتال والے بھی انسان ہوتے ہیں، خوب صورتی دلوں پر اثر کرتی ہے، انجکشن کی طرح، تھوڑا بہت اس کا اثرضرور ہوتا ہے،کسی پر کم کسی پر زیادہ، ڈاکٹر صاحب پر کم تھا، کمپونڈر پر زیادہ تھا۔ نوراں کی تیمارداری میں خلجی دل و جان سے لگا رہا۔ نوراں سے پہلے بیگماں، بیگماں سے پہلے ریشماں، اور ریشماں سے پہلے جانکی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، مگر وہ خلجی کے ناکام معاشقے تھے کیونکہ وہ عورتیں بیاہی ہوئی تھیں، ریشماں کا تو ایک بچہ بھی تھا، بچوں کے علاوہ ماں باپ تھے، اور خاوند تھےاور خاوندوں کی دشمن نگاہیں تھیں۔ جو گویا حلجی کے سینے کے اندر گھس کے اس کی خواہشوں کے آخر ی کونے تک پہنچ جانا چاہتی تھیں، خلجی کیا کر سکتا تھا، مجبور ہوکے رہ جاتا، اس نے بیگماں سے عشق کیا، ریشماں سے اور جانکی سے بھی، وہ ہر روز بیگماں کےبھائی کو مٹھائی کھلاتا، ریشماں کے ننھے بیٹے کو دن بھراٹھائے پھرتا تھا، جانکی کو پھولوں سے بڑی محبت تھی، وہ ہر روز صبح اٹھ کے منھ اندھیرے جنگل کی طرف چلا جاتا اور خوب صورت لالہ کے گچھے توڑ کر اس کے لئے لاتا۔ بہترین دوائیں، بہترین غذائیں، بہترین تیمار داری، لیکن وقت آنے پر جب بیگماں اچھی ہوئی تو روتے روتے اپنے خاوند کے ساتھ چلی گئی، اور جب ریشماں اچھی ہوئی تو اپنے بیٹے کو لے کر چلی گئی۔ اور جانکی اچھی ہوئی تو چلتے وقت اس نے خلجی کے دئے ہوئے پھول اپنے سینے سے لگائے، اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور پھر اس نے اپنے خاوند کا ہاتھ تھام لیا اور چلتے چلتے گھاٹی کی اوٹ میں غائب ہو گئی۔ گھاٹی کے آخری کنارے پر پہنچ کر اس نے مڑکر خلجی کی طرف دیکھا، اور خلجی منھ پھیر کر وارڈ کی دیوار سے لگ کے رونے لگا۔

ریشماں کے رخصت ہوتے وقت بھی وہ اسی طرح رویاتھا۔ بیگماں کے جاتے وقت بھی اسی شدت، اسی خلوص، اسی اذیت کے کربناک احساس سے مجبور ہوکر رویا تھا، لیکن خلجی کے لئے نہ ریشماں رکی، نہ بیگماں، نہ جانکی، اور پھر اب کتنے سالوں کے بعد نوراں آئی تھی۔ اور اس کا دل اسی طرح دھڑکنے لگا تھا۔ اور یہ دھڑکن روزبہ روز بڑھتی چلی جاتی تھی، شروع شروع میں تو نوراں کی حالت غیر تھی، اس کا بچنا محال تھامگر خلجی کی انتھک کوششوں سے زخم بھرتے چلے گئے، پیپ کم ہوتی گئی،سڑاند دور ہوتی گئی، سوجن غائب ہوتی گئی، نوراں کی آنکھوں میں چمک اور اس کےسپید چہرے پر صحت کی سرخی آتی گئی اور جس روز خلجی نے اس کے بازؤں کی پٹی اتاری تو نوراں بے اختیار اک اظہارِ تشکر کے ساتھ اس کے سینے سے لپٹ کر رونے لگی اور جب اس کے پاؤں کی پٹی اتری تو اس نے پاؤں میں مہندی رچائی اور ہاتھوں پر اور آنکھوں میں کاجل لگایا اور بالوں کی زلفیں سنواریں تو خلجی کا دل مسرت سے چوکڑیاں بھرنے لگا۔

نوراں خلجی کو دل دے بیٹھی تھی۔ اس نے خلجی سے شادی کا وعدہ کر لیا تھانمبردار کا بیٹا اور پٹواری کا بیٹا دونوں باری باری کئی دفعہ اسے دیکھنے کے لئے، اس سے معافی مانگنے کے لئے، اس سے شادی کا پیمان کرنے کے لئے ہسپتال آئے تھے، اور نوراں انھیں دیکھ کر ہر بار گھبرا جاتی، کانپنے لگتی، مڑ مڑ کے دیکھنے لگتی، اور اس وقت تک اسے چین نہ آتا جب تلک وہ لوگ چلے نہ جاتے، اور خلجی اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لیتا، اور جب وہ بالکل اچھی ہوگئی تو سارا گاؤں اس کا اپنا گاؤں اسے دیکھنے کے لئے امڈ پڑا۔ گاؤں کی چھوری اچھی ہوگئی تھی، ڈاکٹر صاحب اور کمپونڈر صاحب کی مہربانی سے، اور نوراں کے ماں باپ بچھے جاتے تھے، اور آج تو نمبردار بھی آیا تھا۔ اور پٹواری بھی، اور وہ دونوں خردماغ لڑکے بھی جواب نوراں کو دیکھ دیکھ کر اپنے کئے پر پشیمان ہو رہے تھے اور پھر نوراں نے اپنی ماں کا سہارا لیا، اور کاجل میں تیرتی ہوئی ڈبڈبائی آنکھوں سے خلجی کی طرف دیکھا۔ اور چپ چاپ اپنے گاؤں چلی گئی۔ سارا گاؤں اسے لینے کے لئے آیا تھا اور اس کے قدموں کے پیچھے پیچھے نمبردار کے بیٹے اور پٹواری کے بیٹے کے قدم تھے اور یہ قدم اور دوسرے قدم اور دوسرے قدم اور سیکڑوں قدم جو نوراں کے ساتھ چل رہے تھے، خلجی کے سینے کی گھاٹی پر سے گزرتے گئے، اور پیچھے ایک دھندلی گردوغبار سے ا ٹی رہ گزر چھورڑگئے۔ اور کوئی وارڈ کی دیوار کے ساتھ لگ کے سسکیاں لینے لگا۔

بڑی خوب صورت رومانی زندگی تھی حلجی کی، حلجی جو مڈل پاس تھا، بتیس روپے تنخواہ پاتا تھا۔ پندرہ بیس اوپر سے کما لیتا تھا خلجی جو جوان تھا، جو محبت کرتا تھا، جو اک چھوٹے سے بنگلے میں رہتا تھا، جو اچھے ادیبوں کے افسانے پڑھتا تھا اور عشق میں روتا تھا۔ کس قدر دلچسپ اور رومانی اور پر کیف زندگی تھی حلجی کی۔ لیکن کالو بھنگی کےمتعلق میں کیا کہہ سکتا ہوں، سوائے اس کے کہ؛

(۱)کالو بھنگی نے بیگماں کی لہو اور پیپ سے بھری ہوئی پٹیاں دھوئیں۔

(۲) کالو بھنگی نے بیگماں کا بول و براز صاف کیا۔

(۳) کالو بھنگی نے ریشماں کی غلط پیٹیاں صاف کیں۔

(۴) کالو بھنگی ریشماں کے بیٹے کو مکّی کے بھٹّے کھلاتا تھا۔

(۵) کالو بھنگی نے جانکی کی گندی پٹیاں دھوئیں، اور ہر روز اس کے کمرے میں فینائل چھڑکتا رہا۔ اور شام سے پہلے وارڈ کی کھڑکی بند کرتا رہا۔ اور آتشدان میں لکڑیاں جلاتا رہا تاکہ جانکی کو سردی نہ لگے۔

(۶) کالو بھنگی نوراں کا پاخانہ اٹھاتا رہا۔

تین ماہ دس روز تک کالو بھنگی نے ریشماں کو جاتے ہوئے دیکھا، اس نے بیگماں کو جاتے ہوئے دیکھا، اس نے جانکی کو جاتے ہوئے دیکھا، اس نےنوراں کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن وہ کبھی دیوار سے لگ کرنہیں رویا، وہ پہلے تو دو ایک لمحوں کے لئے حیران ہو جاتا، پھر اسی حیرت سے اپنا سر کھجانے لگتا اور جب کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تو وہ ہسپتال کے نیچے کھیتوں میں چلا جاتا اور گائے سے اپنی چندیا چٹوانے لگتا۔ لیکن اس کا ذکر تو میں پہلے کر چکا ہوں پھر اور کیا لکھوں تمہارے بارے میں کالو بھنگی، سب کچھ تو کہہ دیا جو کچھ کہنا تھا، جو کچھ تم رہےہو، تمہاری تنخواہ بتیس روپے ہوتی، تم مڈل پاس یا فیل ہوتے، تمہیں میں کچھ کلچر، تہذیب، کچھ تھوڑی سی انسانی مسرت اور اس مسرت کی بلندی ملی ہوتی تو میں تمہارے متعلق کوئی کہانی لکھتا۔ اب تمہارے آٹھ روپے میں میں کیا کہانی لکھوں۔ ہر بار ان آٹھ روپوں کو الٹ پھیر کے دیکھتا ہوں چار روپے کا آٹا، ایک روپے کا نمک، ایک روپے کا تمباکو، آٹھ آنے کی چائے، چار آنے کا گڑ، چار آنے کا مصالحہ، سات روپے، اور ایک روپیہ بنئے کا۔ آٹھ روپے ہو گئے، کیسے کہانی بنے گی تمہاری کالو بھنگی تمہارا افسانہ مجھ سے نہیں لکھا جائے گا۔ چلے جاؤ دیکھو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔

مگر افسوس ابھی تک یہیں کھڑا ہے۔ اپنے اکھڑے پیلے پیلے گندے دانت نکالے اپنی پھوٹی ہنسی ہنس رہا ہے۔

تو ایسے نہیں جائےگا اچھا بھئی اب میں پھر اپنی یادوں کی راکھ کریدتا ہوں شاید اب تیرے لئے مجھے بتیس روپوں سے نیچے اترنا پڑے گا۔ اور بختیار چپراسی کا آسرا لینا پڑے گا۔ بختیار چپراسی کو پندرہ روپے تنخواہ ملتی ہے اور جب کبھی وہ ڈاکٹر یا کمپونڈر یا ویکسی نیٹر کے ہمراہ دورے پر جاتا ہے تو اسے ڈبل بھتہ اور سفر خرچ بھی ملتا ہے۔ پھر گاؤں میں اس کی اپنی زمین بھی ہے اور ایک چھوٹا سا مکان بھی ہے جس کے تین طرف چیل کے بلند و بالا درخت ہیں اور چوتھی طرف ایک خوب صورت سا باغیچہ ہے، جو اس کی بیوی نے لگایا ہے۔ اس میں اس نے کڑم کا ساگ بویا ہے اور پالک اور مولیاں اور شلغم اور سبز مرچیں اور بڑی الیّں اور کدّو، جوگرمیوں کی دھوپ میں سکھائے جاتے ہیں۔ اور سردیوں میں جب برف پڑتی ہے اور سبزہ مر جاتا ہے تو کھائے جاتے ہیں۔ بختیار کی بیوی یہ سب کچھ جانتی ہے، بختیار کے تین بچے ہیں اس کی بوڑھی ماں ہے جو ہمیشہ اپنی بہو سے جھگڑا کرتی رہتی ہے، ایک دفعہ بختیار کی ماں اپنی بہو سےجھگڑا کرکے گھر سے چلی گئی تھی، اس روز گہرا ابر آسمان پر چھایا ہوا تھا اور پالے کے مارے دانت بج رہے تھے، اور گھر سے بختیار کا بڑا لڑکا ماں کے چلے جانے کی خبرلے کر دوڑتا دوڑتا ہسپتال آیا تھا اور بختیار اسی وقت اپنی ماں کو واپس لانے کے لئے کالو بھنگی کو ساتھ لے کر چل دیا تھا۔ وہ دن بھر جنگل میں اسے ڈھونڈتے رہے۔ وہ اور کالو بھنگی اور بختیار کی بیوی جو اب اپنے کئے پر پشیماں تھی اپنی ساس کو اونچی آوازیں دہے دے کر روتی جاتی تھی، آسمان ابر آلود تھا، اور سردی سے ہاتھ پاؤں شل ہوئے جاتے تھے، اور پاؤں تلے چیل کے خشک جھومر پھسلے جاتے تھے، پھر بارش شروع ہوگئی، پھر کریڑی پڑنے لگی اور پھر چاروں طرف گہری خاموشی چھا گئی، اور جیسے ایک گہری موت نے اپنے دروازے کھول دئے ہوں، اور برف کی پریوں کو قطار، اندر قطار باہر زمین پر بھیج دیا ہو، برف کے گالے زمین پر گرتے گئے، ساکن، خاموش، بے آواز، سپید مخمل، گھاٹیوں، وادیوں، چوٹیوں پر پھیل گئی۔

’’اماں‘‘ بختیار کی بیوی زور سے چلائی۔

’’اماں‘‘ بختیار چلایا۔

’’اماں‘‘ کالو بھنگی نے آواز دی۔

جنگل گونج کے خاموش ہوگیا۔

پھر کالو بھنگی نے کہا، ’’میرا خیال ہے وہ نَکرّ گئی ہوگی تمہارے ماموں کے پاس۔‘‘

نَکرّ کے دو کوس ادھر انھیں بختیار کی اماں ملی۔ برف گر رہی تھی اور وہ چلی جارہی تھی، گرتی، پڑتی، لڑھکتی، تھمتی، ہاپنتی، کانپتی۔ آگے بڑھتی چلی جارہی تھی اور جب بختیار نے اسے پکڑا تو اس نے ایک لمحے کے لئے مزاحمت کی، پھر وہ اس کے بازوؤں میں گر کر بے ہوش ہوگئی اور بختیار کی بیوی نے اسے تھام لیا اور راستے بھر وہ اسے باری باری سے اٹھاتے چلے آئے، بختیار اور کالو بھنگی اور جب وہ لوگ واپس گھر پہونچے تو بالکل اندھیرا ہو چکا تھا اور انھیں واپس گھر آتے دیکھ کر بچے رونے لگے، اور کالو بھنگی ایک طرف ہوکے کھڑا ہوگیا۔ اور اپنا سر کھجانے لگا، اور اِدھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سےدروازہ کھولا، اور وہاں سے چلا آیا۔ ہاں بختیار کی زندگی میں بھی افسانے ہیں، چھوٹے چھوٹے خوب صورت افسانے، مگر کالو بھنگی میں تمہارے متعلق اور کیا لکھ سکتا ہوں۔ میں ہسپتال کے ہر شخص کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھ سکتا ہوں، لیکن تمہارے متعلق اتنا کچھ کریدنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہارا کیا کیا جائے، خدا کے لئے اب تو چلے جاؤ بہت ستا لیا تم نے۔

لیکن مجھے معلوم ہے، یہ نہیں جائےگا۔ اسی طرح میرے ذہن پر سوار رہے گا۔ اور میرے افسانوں میں اپنی غلیظ جھاڑو لئے کھڑا رہے گا، اب میں سمجھتا ہوں تو کیا چاہتا ہے، تو وہ کہانی سننا چاہتا ہے جو ہوئی نہیں لیکن ہو سکتی تھی، میں تیرے پاؤں سے شروع کرتا ہوں سن، تو چاہتا ہے نا کہ کوئی تیرے گندے کھردرے پاؤں دھو ڈالے دھو دھو کر ان سے غلاظت دور کرے ان کی بیائیوں پر مرہم لگائے، تو چاہتا ہے، تیرے گھٹنوں کیابھری ہوئی ہڈیاں گوشت میں چھپ جائیں، تیری رانو میں طاقت اور سختی آجائے، تیرے پیٹ کی مرجھائی ہوئی سلوٹیں غائب ہو جائیں، تیرے کمزور سینے کے گرد و غبار سے اٹے ہوئے بال غائب ہو جائیں۔ تو چاہتا ہے کوئی تیرے ہونٹوں میں رس ڈال دےانھیں گویائی بخش دے۔ تیری آنکھوں میں چمک ڈال دے، تیرے گالوں میں لہو بھر دے، تیری چندیا کو گھنے بالوں کی زلفیں عطا کرے، تجھے اک مصفّا لباس دیدے، تیرے ارد گرد ایک چھوٹی سی چار دیواری کھڑی کردے، حسین مصفّا پاکیزہ۔ اس میں تیری بیوی راج کرے، تیرے بچے قہقہے لگاتے پھریں، جوکچھ تو چاہتا ہے، وہ میں نہیں کر سکتا میں تیرے ٹوٹے پھوٹے دانتوں کی روتی ہوئی ہنسی پہنچانتا ہوں۔

جب تو گائے سے اپنا سر چٹواتا ہے مجھے معلوم ہے تو اپنے تخیل میں اپنی بیوی کودیکھتا ہے جو تیرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیر کر تیرا سر سہلا رہی ہے حتٰی کہ تیری آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تیرا سر جھک جاتا ہے اور تو اس کی مہربان آغوش میں سو جاتا ہے اور جب تو آہستہ آہستہ آگ پر میرے لئے مکّی کا بھٹّا سینکتا ہےاور مجھے جس محبت سے اور شفقت سے وہ بھٹّا کھلاتا ہے تو اپنے ذہن کی پنہائی میں اس ننھے بچے کو دیکھ رہا ہوتا ہے جو تیرا بیٹا نہیں ہے جو ابھی نہیں آیا۔ جو ابھی نہیں آیا، جو تیری زندگی میں کبھی نہیں آئے گا، لیکن جس سے تونے ایک شفیق باپ کی طرح پیار کیا ہے، تو نے اسے گودیوں میں کھلایا ہے، اس کا منھ چوما ہے اسے اپنے کندھے پر بٹھا کر، جہاں بھر میں گھمایاہے، دیکھ لو، یہ ہے میرا بیٹا، یہ ہے میرا بیٹا، اور جب یہ سب کچھ تجھے نہیں ملا تو سب سے الگ ہو کر کھڑا ہوگیا اور حیرت سے اپنا سر کھجانے لگا، اور تیری انگلیاں لاشعوری انداز میں گننے لگیں، ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ۔ آٹھ روپے۔

میں تیری وہ کہانی جانتا ہوں جو ہوسکتی تھی، لیکن ہو نہ سکی کیونکہ میں افسانہ نگار ہوں، میں اک نئی کہانی گھڑ سکتا ہوں، اک نیا انسان نہیں گھڑ سکتا۔ اس کے لئے میں اکیلا کافی نہیں ہوں، اس کے لئے افسانہ نگار اور اس کا پڑھنے والا، اور ڈاکٹر، اور کمپونڈر، اور بختیار اور گاؤں کے پٹواری اور نمبردار اور دوکاندار، اور حاکم اور سیاست داں، اور مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ہر شخص کی، لاکھوں، کروڑوں اربوں آدمیوں کی اکھٹی مدد چاہئے۔ میں اکیلا مجبور ہوں، کچھ نہیں کرسکوگا۔ جب تک ہم سب مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کرینگے، یہ کام نہ ہوگا، اور تو اسی طرح اپنی جھاڑوں لئے میرے ذہن کے دروازے پر کھڑا رہے گا، اور میں کوئی عظیم افسانہ نہ لکھ سکوگا۔ جس میں انسانی روح کی مکمل مسرت جھلک اٹھے، اور کوئی معمار عظیم عمارت نہ تعمیر کرسکے گا، جس میں ہماری قوم کی عظمت اپنی بلندیاں چھولے، اور کوئی ایسا گیت نہ گا سکے گاجس کی پہنائیوں میں کائنات کی آفاقیت چھلک چھلک جائے۔

یہ بھر پور زندگی ممکن نہیں جب تک تو جھاڑو لئے یہاں کھڑاہے۔

اچھا ہے کھڑا رہ۔ پھر شاید وہ دن کبھی آجائے کہ کوئی تجھ سے تیری جھاڑو چھڑا دے، اور تیرے ہاتھوں کو نرمی سے تھام کر تجھے قوس قزح کے اس پار لے جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close