کراچی : افغانستان میں دو روز قبل طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے اب تک نئی حکومت ناپید ہے۔ طالبان نے شہر اقتدار پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن نئی حکومت کا اعلان اب تک نہیں کیا ہے۔ دنیا بھر کے تھنک ٹینکس کے ذہنوں میں اس وقت یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ طالبان کیسے نئی حکومت بنا پاتے ہیں؟
افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے سوال پر طالبان کی بھی تیاری نہیں تھی۔ دوحہ میں طالبان قیادت اس جواب کی تلاش میں سر جوڑے بیٹھی ہے اور اس بار انہوں نے افغانستان کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی حکومت کے نام اور ڈھانچے پر مشاورت ہو رہی ہے اور جلد اس کا اعلان کیا جائے گا
اس بار طالبان کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے قانونی جواز اور بین الاقوامی برادری میں قبولیت!
اس مسئلے سے نمٹنے میں تین رکنی کونسل ان کی مدد کر رہی ہے جس کے ارکان میں سابق صدر حامد کرزئی، امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور جنگی سردار گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ اس کونسل سے مذاکرات کے لیے افغان سیاسی دفتر سے نمائندہ امیر خان متقی کابل پہنچے ہیں اور حامد کرزئی کے اپنے الفاظ میں طالبان حکومت کے قانونی جواز پر کام ہو رہا ہے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ طالبان ملک پر غالب آگئے ہیں دعا ہے ان کا غلبہ مضبوط ہو اور ملک کے لیے فائدہ مند ہو۔ کرزئی کے یہ الفاظ طالبان کے ساتھ ان کے خفیہ معاہدے کی نشاندہی کرتے ہیں
طالبان کی طرف سے حکومتی ڈھانچے کا اعلان قانونی جواز مہیا ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ اس قانونی جواز کے راستے کیا ہوں گے، اس حوالے سے خبر تو نہیں آئی لیکن تین امکانات موجود ہیں
پہلا امکان تو یہ ہے کہ امن کونسل کا مینڈیٹ استعمال کیا جائے گا اور طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر عبداللہ عبداللہ اور ان کی کونسل دستخط کردے گی
دوسرا امکان یہ ہے کہ افغانستان میں آئین کوئی بھی ہو لیکن سب سے سپریم ادارہ لویہ جرگہ ہے، اور لویہ جرگہ بلا کر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے
جب کہ تیسرا اور قدرے موہوم امکان یہ ہے کہ افغان پارلیمنٹ کسی امن منصوبے اور انتقال اقتدار کو سند فراہم کردے
قانونی جواز ملنے کے بعد طالبان بھی حکومتی ڈھانچے کی تشکیل میں یکسو ہوسکیں گے اور شراکتِ اقتدار کے انفرادی معاہدوں پر عمل کرتے ہوئے دیگر فریقین کو نمائندگی دی جائے گی اور یہ کہا جاسکے گا کہ نئی حکومت جامع اور نمائندہ افغان حکومت ہے۔ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور دیگر سیاستدان طالبان کی حکومت کو اندرونی طور پر جواز فراہم کرنے کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو منانے میں بھی کردار ادا کرسکتے ہیں
اس وقت افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی برادری میں جگہ ملے گی؟ اس سوال کا جواب فوری طور پر آنے والے ردِعمل سے لگانا پڑے گا
امریکا اور یورپی ممالک:
امریکا کی طرف سے سخت ردِعمل کا امکان تھا لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے طالبان حکومت کو مشروط طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ امریکا طالبان کی حکومت کو صرف اسی صورت میں تسلیم کرے گا جب وہ خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے اور دہشتگردی سے اجتناب کریں گے۔ امریکا کے اس ردِعمل سے پہلے برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ برطانیہ طالبان کو جوابدہ بنانے کے لیے پابندیوں سمیت تمام دستیاب ذرائع بروئے کار لائے گا
امریکی صدر کی طرف سے طالبان کو لتاڑنے کے بجائے افغان سیاستدانوں پر انگلی اٹھانا اور محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کا بیان بتاتا ہے کہ امریکی قیادت تسلیم کرنے والا برطانیہ بھی واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ فرانس کے صدر میکرون نے طالبان کی حکومت بننے کے امکانات پر سخت تشویش ظاہر کی ہے جبکہ جرمنی بھی خدشات کا شکار ہے لیکن واشنگٹن کی پالیسی سے قدم ملانا ان کے لیے اہم ہے۔ جبکہ کینیڈا نے واضح طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے امکان کو رد کر دیا ہے
پاکستان، چین، روس اور ایران:
امریکا اور یورپ کا ردِعمل اہم ہے لیکن نئی افغان حکومت کے لیے یہ زیادہ اہم ہوگا کہ خطے کے ممالک کیا سوچتے ہیں اور وہ کیا کریں گے۔ پاکستان کا مؤقف قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سامنے آچکا ہے کہ پاکستان افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل سیاسی حل کا حامی ہے۔ پاکستان کا مؤقف بتاتا ہے کہ طالبان اور تین رکنی کونسل کے منصوبے پر اسلام آباد کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ شاید اسلام آباد ان مذاکرات میں مددگار کی حیثیت بھی رکھتا ہوگا کیونکہ پاکستان مسئلے کے تمام فریقین کے ساتھ رابطے میں تھا اور اسلام آباد میں اس حوالے سے کئی اہم رہنما ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں۔
چین، روس اور ایران کے لیے افغانستان میں طالبان کا دوبارہ ابھرنا ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا تھا لیکن ان تینوں ملکوں نے پیش بندی کر رکھی تھی۔ ایران اور روس نے ماضی کے برعکس پالیسی اپنائی تھی، ماضی میں یہ دونوں ملک طالبان مخالف قوت شمالی اتحاد کو مدد دیتے رہے تھے، لیکن اس بار ان دونوں ملکوں نے طویل مدت سے طالبان کے ساتھ روابط بنا لیے تھے۔ افغان طالبان کے دوسرے امیر ملا اختر منصور ایران سے واپسی پر امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے اور دنیا کو ایران-طالبان روابط کا علم ہوا تھا
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے سبکدوش ہونے والے وزیرِ خارجہ جواد ظریف سے ملاقات میں کہا کہ افغانستان میں ’امریکی انخلا اور شکست‘ سے ملک میں پائیدار امن کا موقع پیدا ہوا ہے۔ افغان شہریوں کی سلامتی، استحکام اور فلاح کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔ ایران استحکام قائم کرنے کے لیے کوششں کرے گا۔ یہ افغانستان کی سب سے پہلی ضرورت ہے۔ ہمسایہ ملک کی حیثیت سے یہ تمام گروہوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ قومی اتفاق پیدا کریں
روس نے بھی طالبان کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ روس کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے کہا کہ ’طالبان سے وسط ایشیا کو کوئی خطرہ نہیں اور اس کے کوئی شواہد بھی نہیں۔ روس نے طالبان کے ساتھ پیشگی تعلقات بنا لیے ہیں اور طالبان کے ساتھ روس کے طویل مدتی روابط ہیں۔ ہم افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے امکانات پر طالبان قیادت کے ساتھ عرصہ سے بات کر رہے تھے اور طالبان نے یقین دلایا تھا کہ ان کے افغانستان سے باہر کوئی عزائم نہیں اور انہوں نے 2000ء کے تجربات سے سیکھا ہے‘
ضمیر کابلوف نے کہا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پُرسکون ہوجائیں، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں بین الاقوامی دہشتگرد افغانستان میں جگہ بنالیں اور وہ وسط ایشیا میں ہمارے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں‘
ضمیر کابلوف کا بیان صاف نشاندہی کرتا ہے کہ روس طالبان کے اقتدار کے لیے عرصہ سے ذہنی طور پر نہ صرف تیار تھا بلکہ اسے تسلیم بھی کرلے گا
دوسری جانب چین نے بھی طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چینینگ سے سوال کیا گیا کہ کیا چین طالبان کی حکومت تسلیم کرلے گا؟ اس پر ترجمان نے کہا کہ ’چین افغان عوام کے انتخاب کا احترام کرے گا۔ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے بات چیت کریں گے جو سب کی ترجمان ہو اور افغان عوام اور غیر ملکی مشنز کی حفاظت کو یقینی بنائے‘
موجودہ حالات میں تمام اہم ملک طالبان کو کسی نہ کسی صورت تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں چین، پاکستان اور بھارت کو افغانستان کے حوالے سے زیادہ دلچسپی اور تشویش ہے جس کی نوعیت الگ الگ ہے۔ تینوں ملکوں نے طالبان کو مستقبل میں افغانستان کی سیاسی حقیقت کے طور پر بھانپ لیا تھا اور طالبان قیادت کے ساتھ روابط رکھے ہوئے تھے
افغان طالبان کے کابل پر قبضے کو پاکستان میں بھارت کی اسٹرٹیجک شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ کالعدم تحریکِ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کا حوصلہ بڑھنے پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ بھارت کو طالبان کی فتح کے بعد کشمیر میں علیحدگی پسندی بڑھنے کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں اور افغانستان کے قونصل خانوں اور اشرف غنی انتظامیہ کی مدد سے وہ پاکستان کے لیے جو مسائل کھڑے کررہا تھا وہ راستے بند ہوگئے ہیں۔ ساتھ ہی کابل میں بھارت کے تمام دوست راہِ فرار اختیار کرگئے ہیں
خطے کی سیاست افغانستان میں تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکا کا اتحادی بھارت واشنگٹن کے نکلتے ہی کابل میں غیر متعلق ہوچکا ہے۔ روس جو 3 دہائیاں قبل دریائے آمو کے پار واپس جانے پر مجبور ہوا تھا اس نے امریکی اتحادیوں کو بھاگ کر ازبکستان میں پناہ لیتے دیکھا اور بدلے کی آگ ٹھنڈی ہوئی، بدلے کی آگ اس لیے کہ ماسکو طالبان کو امریکی فوجیوں کے قتل پر انعامات دیتا رہا اور امریکی میڈیا چیختا رہا
چین جو امریکی فوجی موجودگی سے مضطرب تھا اس کی روانگی سے خوش ہے اور علاقائی سیکیورٹی کا انچارج بننے کو بیتاب بیٹھا ہے اور اس کے ساتھ افغانستان کو سنکیانگ میں سرگرم گروپوں کی آماجگاہ بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے
ایران بھی امریکی انخلا کو شکست سے تعبیر کرکے خوشی منا رہا ہے اور خطے میں افغان مسئلے پر بھارت تنہا دکھائی دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ طے ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار کی کوئی بھی شکل ہو فی الحال سب اسے تسلیم کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں.