حماقت و بد دماغی عالمی اثاثہ ہے

وسعت اللہ خان

اگر پہلی اور دوسری عالمی جنگ، جنگِ ویت نام (انیس سو پینسٹھ تا پچھتر) اور پہلی جنگِ خلیج (جنوری، فروری انیس سو اکیانوے) سمیت بیسویں صدی کی چار بڑی جنگوں میں امریکی شرکت کا دورانیہ جوڑ لیا جائے تب بھی افغانستان میں (سات اکتوبر دو ہزار ایک تا  اکتیس اگست دو ہزار اکیس) بیس سالہ امریکی فوجی تجربہ  مذکورہ جنگوں کی مجموعی مدت سے زیادہ ہے۔

جنگ ِ کوریا (انیس سو پچاس تا تریپن) کے بعد شاید ہی کوئی جنگ ہو جس میں امریکی قیادت میں چھتیس ممالک کے فوجیوں نے شرکت کی ہو۔ افغانستان میں بیس برس کے دوران جو خرچہ ہوا وہ بیسویں صدی میں امریکی شراکت میں لڑی جانے والی تمام چھوٹی بڑی جنگوں کے مجموعی اخراجات سے زیادہ ہے۔

ویتنام کی دس سالہ اور افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں امریکا جن قوتوں سے ویتنام اور افغانستان کو بچانے کے لیے میدان میں اترا۔آخر میں انھی قوتوں کے آگے ہار مان کر امریکا کو نکلنا پڑا۔جنگِ ویتنام نے کمیونزم کے پھیلاؤ کو بزور روکنے کے امریکی مشن کو بریک لگا دی اور جنگِ افغانستان نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے مسلسل امریکی جذبے کو تھکا کے رکھ دیا۔

نائن الیون سے اب تک لگ بھگ تین ملین انسانوں کی عالمی ہلاکت اور کھربوں ڈالر کے ڈھانچے کی بربادی کے باوجود نہ امریکا مطلوبہ نتائج حاصل کر پایا نہ ہی دہشت گردی اور افراتفری میں کمی آئی۔ فائدہ ہوا بھی تو جنگی خدمات کی آؤٹ سورسنگ کے چیمپین نجی ٹھیکے داروں اور اسلحہ ساز ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا ہوا۔دونوں کا اگلا اسائنمنٹ اگلے چند برس امریکی اسٹیبلشمنٹ کو رائے عامہ کی اگلی ہمواری کا موقع دینے کے بعد چین کے بھرپور ہانکے پر آمادہ کرنا ہے ۔

تو جو سبق ویتنام میں شکست اور پھر عراقی ریاست کی توڑ پھوڑ کا تجربہ نہ دے سکا وہ افغانستان میں لڑی جانے والی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ دے پائے گی؟اس وقت امریکی تھنک ٹینک اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین عالمگیر سطح پر اسی سوال پر دھیان دے رہے ہیں۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ بیس برس کی محنت اور پیسے سے کھڑی کی جانے والی افغان فوج کا ہفتے بھر میں پگھل جانے کا منظر ایک عرصے تک یاد دلاتا رہے گا کہ ہر مسئلے کا حل گولی نہیں ہوتی۔جب کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ کابل ایرپورٹ پر ملک چھوڑنے کے خواہش مندوں کا اڑدھام بتاتا ہے کہ اس دنیا کو پیٹھ نہ دکھانے والے طاقتور امریکا کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

معدودِ چند کا خیال ہے کہ بے پناہ فوجی طاقت کے استعمال سے فوری کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر محض فوجی طاقت کے بل پر کسی ملک کی تعمیر اور اس ملک کے سماج کو اپنی شرائط کی زمین پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ناممکن ہے۔

اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر اسے سمجھنے کے لیے امریکا کو بیس برس کیوں لگے ؟ ایک صدر (بش) نے وقتی اشتعال میں آ کر امریکا کو بے مقصد جنگ میں جھونکا تو یہ بات دوسرے (اوباما) اور تیسرے (ٹرمپ) سے زیادہ چوتھے صدر (بائیڈن) کی سمجھ میں کیوں آئی ؟ کس امید پر انسانی جان اور پیسہ مسلسل جھونکا جاتا رہا۔

جو بات بیس برس بعد جسم و دماغ پر سوار ہونے والی تھکن نے سمجھائی وہ بات تاریخ کی کسی اچھی سی کتاب کے مطالعے یا ماضیِ قریب کا زخم (ویتنام) زرا سا کھجلا کے بھی تو یاد آ سکتی تھی۔پر وہ جو کہتے ہیں ’’حماقت اور بددماغی پر کسی ایک شخص، گروہ یا قوم کا اجارہ تھوڑی ہے۔‘‘

سابق ریپبلیکن نائب وزیرِ خارجہ جان بولٹن جیسے لٹھیت بھی ہیں جو آج بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’امریکا فیصلہ کن زور لگاتا تو جنگ جیتنا ممکن تھا۔ اس وقت یکلخت افغانستان سے نکلنا ایک عظیم غلطی ہے۔ چین اور روس شادیانے بجا رہے ہیں۔ تہران اور شمالی کوریا یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ ایک بڑی طاقت بھی اچانک اکتا سکتی ہے‘‘۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے طالبان کے ساتھ دوحہ سمجھوتے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ طالبان نے اس لیے جارحانہ اور دیدہ دلیری والا رویہ اپنایا کیونکہ انھیں یہ خوف نہیں تھا کہ سابق ٹرمپ انتظامیہ کی طرح بائیڈن انتظامیہ بھی ان کے جارحانہ رویہ کو آسانی سے ہضم نہیں کرے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آخری دنوں میں شدت کا جواب شدت سے دے تاکہ طالبان آخری دیدہ دلیری دکھانے کے بجائے محتاط روی پر مجبور رہیں اور آخری دن تک دوہا سمجھوتے کے دائرے سے باہر نہ نکلیں‘‘۔

ایک افغان امریکن تجزیہ کار جاوید نوابی کے مطابق جب آپ کے ہاتھ میں ہتھوڑا مسلسل ہو تو ہر شے میخ نظر آتی ہے۔میں صرف امید ہی کر سکتا ہوں کہ امریکی فیصلہ ساز اس زہنیت سے جس قدر جلد چھٹکارا پا سکیں۔نوابی کے بقول امریکا اگر چین کی عالمی معاشی سفارت کاری کا توڑ چاہتا ہے تو اسے عالمی مسائل  فوجی دوربین سے دیکھنے کے بجائے ترقیاتی ساجھے داری کی پالیسی کی جانب لوٹنا چاہیے۔

بقول نوابی کہنے کو تو امریکا نے افغانستان میں دو کھرب ڈالر خرچ کر دیے۔لیکن اس میں سے کتنا پیسہ  فوجی اور عسکری حکمتِ عملی کھا گئی اور کتنی رقم واقعی ایسے منصوبوں پر لگی جن کا مقصد افغان عوام کو اجتماعی پسماندگی کی دلدل سے نکالنا تھا۔اگر سو میں سے اسی روپے پینٹاگون اور سی آئی اے کے آپریشنز پر لگنے کے بجائے بیس روپے فوجی مقاصد پر اور اسی روپے اپنے حواریوں کی جیبوں میں ٹھونسنے کے بجائے براہِ راست ہر عوامی طبقے کے معیار اور شعور کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر شفاف انداز میں لگائے جاتے تو آج  گلی گلی طالبان کو عوامی چیلنج کا سامنا ہوتا۔

مگر جب آپ مقامی زبان بھی نہ جانتے ہوں۔ وہاں کی سیاسی و ثقافتی و نظریاتی حساسیت و روایات سے بھی نا واقف ہوں اور ترقی بھی اپنی مرضی، انداز اور رفتار سے کروانا چاہتے ہوں۔وسیع پیمانے پر مشاورت کی اہمیت کے بھی قائل نہ ہوں اور ’’میں تمہارا اچھا برا تم سے بہتر جانتا ہوں‘‘ کے خبط میں بھی مبتلا ہوں تو پھر تو وہی ہوتا ہے جو ہوا۔

تعجب ہے کہ کسی نے بھی امریکی فیصلہ سازوں کو وہ کہاوت نہ سنائی کہ آپ ایک افغان کو نرم رویے سے جہنم کی جانب لے جا سکتے ہیں مگر سختی برت کے جنت میں بھی نہیں دھکیل سکتے۔

نوٹ: یہ کالم ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا، ادارے کا اس کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

وسعت اللہ خان کے دیگر کالمز :

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close