حیات اپنے ہزاروں جلوؤں اور حیرت انگیز مناظر سے آپ پر آشکار ہوتی جاتی ہے۔ جب بھی وہ اپنے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے تو ہر بار وہ آپ کی جھولی میں کبھی ہنسی اور حیرت کے پھول ڈالتی چلی جاتی ہے اور کبھی آنکھوں کے نمکین پانی سے آپ کا دامن تر کر کے چلی جاتی ہے۔
ان کیفیات نے مجھ پر عیاں کیا کہ، مرتے فقط لوگ نہیں بلکہ تمنائیں بھی مرتی ہیں۔ راستے، گلیاں اور پگڈنڈیاں بھی مرجاتی ہیں، بستیاں بھی مرجاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے جانے سے بہت سارے لوگوں کی امیدوں کی صبحیں اور تمناؤں کی شامیں بھی مرجاتی ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کا وجود ہوتا تو ان کا اپنا ہے پر ان کی آنکھوں میں محرومیوں کے ماروں کے پھٹے کپڑوں اور ننگے پاؤں اور وقت سے پہلے نور گنواتی آنکھوں کے درد کی دنیا بستی ہے۔
یہ نومبر 2003ء کی بات ہے، میں شاہ صاحب کی دعوت پر ’ماہی گیروں کے عالمی دن‘ کے موقعے پر، مچھیروں کی اس بستی ’ابراہیم حیدری‘ میں پہلی بار گیا تھا۔ نومبر میں سمندری کناروں پر ٹھنڈا موسم سب سے پہلے آتا ہے اور جاڑے کی آمد کے احترام میں سمندر اپنی مستی اور شور کو اپنے سے دُور کردیتا ہے، اور یوں سمندر کے پانی کی سطح کسی پگھلے شیشے کی طرح لگنے لگتی ہے اور اوپر آسمان گہرے نیلے رنگ میں جیسے ڈوب جاتا ہے۔
میرے لیے ابراہیم حیدری کی گلیاں بالکل نئی تھیں۔ یہاں پر بسنے والوں کا اپنا ایک الگ لب و لہجہ ہے، کبھی کبھی تو اتنی روانی سے بات کرتے ہیں کہ کچھ پلے ہی نہیں پڑتا۔ بالکل ایسے جیسے لہروں کا شور آپ کو سمجھ میں نہیں آتا۔ پھر آپ جب بڑے دھیان اور توجہ سے سنتے ہیں تو آپ ان کی باتوں کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
میں مرکزی عیدگاہ پر گاڑی سے جیسے ہی اترا، ویسے ہی مچھلیوں کی اپنی مخصوص تیز بُو نے میرا استقبال کیا۔ ابراہیم حیدری کی گلیوں کو رنگین جھنڈیوں اور فشر فوک فورم کے جھنڈوں سے سجایا گیا تھا۔ سامنے دُور سے جہاں سمندر کنارا تھا وہاں سے ماہی گیروں سے متعلق گائے گئے گیتوں کی تیز آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ ایک گیت اب بھی مجھے یاد ہے کیونکہ اسی گیت کے بول سب سے پہلے میری سماعتوں تک پہنچے تھے:
ساتھی…. تیرا میرا ساتھی ہے یہ لہراتا سمندر،
ہم بیٹے ہیں سمندر کے، ہم طوفانوں کے پالے ہیں
لوگ آ جا رہے تھے۔ اکیلے، ٹولیوں کی شکل میں بالکل جیسے عید کے موقعوں پر ہوتا ہے۔ نئے، صاف اور دھلے ہوئے رنگین کپڑے پہنے۔ سندھ کے دیگر شہروں سے بھی ماہی گیروں کی گاڑیاں اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے آ رہی تھیں۔ ہر وجود میں ایک جوش تھا جس کا اظہار وہ نعرے لگا کر کرتا تھا۔
گلیوں سے گزرتا میں سمندر کنارے اس وسیع پنڈال میں پہنچا جہاں پروگرام ہو رہا تھا۔ ساتھ میں ایک نمائشی بازار بھی تھا جس میں ماہی گیروں نے اسٹال لگائے تھے۔ ان اسٹالوں کے ذریعے مچھیروں کے کلچر کی عکاسی کی جارہی تھی۔ یہ سب کچھ مجھے حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ یہ اتنا بڑا میلہ یقیناً کمیونٹی کی مدد کے سوا منعقد کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر اس کا مرکزی کردار، محمد علی شاہ تھا جس کی ماہی گیروں کے حقوق کے لیے جدوجہد نے یہ وسیع میدان سجایا تھا۔ یہ ابراہیم حیدری کی گلیوں اور سمندر کناروں سے میری پہلی ملاقات تھی۔
محمد علی شاہ ماہی گیر کمیونٹی کے لیے آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے
ابراہیم حیدری کی گلیوں اور شاہ صاحب کی محبت نے خون میں ایسی جڑیں پکڑیں کہ میں ابراہیم حیدری میں فشر فوک فورم کے مرکزی دفتر ’سچل ہال‘ ملازمت کرنے چلا آیا۔ سچل ہال بس ایک سپنے جیسا تھا کیونکہ کچھ اسٹرکچر ایسے ہی بن جاتے ہیں، جن کو اگر آپ پلان دے کر بنائیں تو نہیں بنیں گے۔
یہ سچل ہال ان غریب ماہی گیروں کی امیدوں کا ایسا مرکز تھا جہاں پہنچنے پر ان کے درد کا مداوا ہوجاتا تھا۔ مچھیرے سکھر، نوابشاہ، سیہون، سانگھڑ، حیدرآباد، بدین، بابا بھٹ، گذری، گابو پٹ، ریڑہی میان مطلب کے ساری سندھ سے اپنے درد لے کر آتے اور وہاں سچل ہال پر شاہ صاحب ہوتے اور پوری کوشش کرتے کہ ان کے مسائل کسی طرح بھی حل ہوں۔
ابراہیم حیدری میں واقع سچل ہال
وہ جو مچھیرے اپنے مسائل لے کر آتے، ایک ہو یا چار ہوں، جب تک ان کا مسئلہ حل نہ ہوتا، تب تک سچل ہال پر مقیم رہتے۔ وہاں ان کو ناشتہ، دوپہر کا کھانا، رات کا کھانا اور رہائش ملتی اور ساتھ میں امید بھی ہوتی کہ یہاں چارہ گر کو چارہ گری سے کوئی گریز نہیں ہے اس لیے ہمارے دکھ بھی لا دوا نہیں ہے۔
یہ اس کائنات کا بڑا سکھ ہے کہ آپ کو لگے کہ کوئی تو ہمارا بھی ہے اور وہ محمد علی شاہ تھا۔ ہمارے ملک میں مچھیروں کی وہ واحد کمیونٹی ہے جن کے سروں پر غریبی اور بے بسی کا آسمان ہر وقت جھلساتا رہتا ہے۔ ایسے جھلسا دینے والے آسمان کے نیچے شاہ صاحب ان کے لیے برگد کے ٹھنڈے پیڑ جیسے تھے۔
وہ ایک پڑھے لکھے اور زیادہ مطالعہ کرنے والے انسان تھے۔ انہوں نے 1986ء میں جامعہ کراچی سے معاشیات میں گریجویشن کی تھی۔ ساتھ میں ماحولیات کے حوالے سے ان کا وسیع مطالعہ تھا۔ وہ رسول بخش پلیجو صاحب اور فاضل راہو صاحب کی عوامی تحریک کے ایک سرگرم کارکن بن کر رہے۔ فشر فوک فورم تو 1998ء میں بنی، مگر اس سے پہلے وہ مختلف سماجی تنظیموں میں سرگرم رہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، 2003ء میں پرویز مشرف کے دور میں بدین اور ٹھٹہ کے ساحل پر گورنمنٹ فورسز مچھلی جھینگے پر ٹھیکیداری کرتی تھی۔ اس فورس کا جو ٹھیکیدار ہوتا وہ اپنی مرضی سے مچھلی اور جھینگے کے دام لگاتا اور ماہی گیروں کا استحصال کرتا۔ یہاں تک کہ جھینگے کا ایک کلو 10 روپے میں خریدا جاتا اور مارکیٹ میں وہی جھینگا 100 یا اس سے بھی زیادہ قیمت پر بیچا جاتا تھا۔ سمندر سے پکڑی ہوئی مچھلی کے ریٹ بھی کچھ اس طرح تھے لہٰذا معاشی طور پر مچھیروں کی حالت انتہائی خراب تھی۔ آدمی زندگی میں دوسری ٹھوکریں اور لاتیں تو برداشت کرلیتا ہے لیکن جب یہ لات پیٹ پر پڑے تو برداشت کے سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں۔
جب بدین کے مچھیرے، محمد علی شاہ کے پاس اپنا دکھڑا لے کر ابراہیم حیدری گئے تو فشر فوک فورم نے ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور اس ناانصافی کے خلاف ایک تحریک چلی اور بڑی زوردار تحریک چلی جس کا اثر یہ ہوا کہ، پرویز مشرف نے خود وہاں سے ٹھیکیداری نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ انتہائی مشکل کام تھا جو شاید شاہ صاحب ہی کرسکتے تھے۔ یہ بات کہنے کے لیے میرے پاس جاندار حوالے ہیں۔ وہ فشر فوک فورم جس کے پورے ملک میں ایک لاکھ کے قریب رکن ہیں، جن میں 35 فیصد عورتیں ہیں۔ اس تنظیم کی یہ وسعت اسی صورت ممکن ہوسکی جب ابراہیم حیدری میں پہلی بار کسی شاہ فیملی کی عورتیں اس سماجی کام کے لیے گھر سے باہر نکلی تھیں۔
یہ پہل شاہ صاحب نے، اپنی شریکِ حیات طاہرہ علی شاہ کو اس سماجی تحریک میں شامل کرکے کی۔ وہ ایک شفیق اور بہادر خاتون تھیں۔ ایک دفعہ جب ادی طاہرہ شاہ سے ان کی سماجی سرگرمیوں میں شمولیت سے متعلق پوچھا تو جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘اس کمیونٹی میں سب سے زیادہ پریشانیوں میں پسنے والی مچھیروں کی عورتیں ہیں۔ میں نے گاؤں میں جاکر دیکھا ہے۔ بڑی مشکل اور تنگ زندگی گزرتی ہے ان بچاریوں کی۔ ان کے مسائل تو جدوجہد اور وقت کے ساتھ حل ہوں گے۔ مگر ان کو کوئی آسرا دینے والا ہو، ان کی مشکلات کے زخموں پر کوئی لفظوں سے مرہم رکھنے والا ہو۔ میں جب ان کے ساتھ بیٹھتی ہوں تو ان کے درد سنتی ہوں اور ان کو اچھے دنوں کی امید دلاتی ہوں، یوں ان میں جیسے جان آجاتی ہے۔ حقوق کی تحریکوں میں اگر عورتوں کی شمولیت ہو تو ان کو بھی احساس ہوگا کہ وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ چل سکتی ہیں’۔
میں سمجھتا ہوں کہ سچل ہال میں مچھیروں کی ایک دنیا بستی تھی۔ ایک طرف پروگراموں میں ہونے والے انٹرایکٹو تھیٹر پیش کرنے کی تیاری ہورہی ہوتی تو دوسری طرف ماہانہ میگزین پر کام چل رہا ہوتا۔ اسی ہال کے ایک احاطے میں مچھیروں کے استعمال میں رہنے والے شکار کے پرانے اوزاروں کا چھوٹا سا میوزیم بھی قائم کیا گیا تھا۔ نئے آنے والے لوگ بڑی حیرت سے اس میوزیم کو دیکھ رہے ہوتے۔ پھر یہیں پر ایک طرف آئندہ پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں میٹینگز ہورہی ہوتیں۔
وہاں ایک ڈاکومینٹری یونٹ بھی تھا جو پروگراموں کو فلمبند کرتا۔ کراچی کی سڑکوں پر سب سے بڑی مرد اور عورتوں کی اگر ریلیاں نکلتیں تو وہ فشر فوک فورم کی ہوتیں جن کو شاہ صاحب لیڈ کر رہے ہوتے، اور 21 نومبر کو ماہی گیروں کے عالمی دن کے موقعے پر جو رنگین ریلی، ریگل چوک سے پریس کلب تک نکلتی اس کو کون بھول سکتا ہے۔
میٹھے پانی یعنی جھیلوں پر ٹھیکیداری کے خلاف شاہ صاحب مسلسل سرگرم عمل رہے۔ جس کے سبب جون 2006ء میں انہیں حیدرآباد کی جیل میں ایک ماہ کی قید بھی کاٹنی پڑی۔ انڈس ڈیلٹا کے ماحولیاتی مسائل پر سب سے بڑی ایڈووکیسی شاہ صاحب نے کی۔ ڈیپ سی ٹرالر کی ماحولیاتی بربادی سے لے کر کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں میٹھا پانی نہ چھوڑنے، ڈیم بنانے، ماحولیاتی آلودگی اور جزیروں ’ڈنگی‘ اور ’بھنڈاڑ‘ پر شہر آباد کرنے کی مخالفت کرنے میں وہ ایک بہادر سماجی کارکن کی حیثیت سے سب سے آگے رہے۔
میں نے ان کے نزدیکی ساتھی اور دوست گلاب شاہ سے جب ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کو اپنے کام سے عشق ہوتا ہے، شاہ صاحب کے سر پر غریب مچھیروں کو بہتر زندگی دینے کا ایک جنون سا سوار تھا، جو ہر لحاظ سے محرومیوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یہی سبب تھا کہ ان کی جدوجہد کے اعتراف میں انہیں ’ورلڈ فورم آف فشر پیپل‘ کے ایشیا ریجن کا چیئرمین بنایا گیا، یہ چھوٹے ماہی گیروں کا ایک عالمی فورم ہے۔
‘وہ مچھیروں کے برائے نام لیڈر نہیں تھے بلکہ جب کوئی مشکل اس کمیونٹی پر آتی تو وہ چاہے کہیں بھی ہوں، شاہ صاحب وہاں پہنچ جاتے۔ وہ مسئلہ حل کرنے میں جُٹ جاتے۔ پھر چاہے مچھیروں کے ان مسائل کے لیے ریلیاں نکالنی پڑیں، جلسے کرنے پڑیں، کورٹ میں جانا پڑے، وہ سب شاہ کی قیادت میں فشرفوک فورم کرتی۔ ان کی محبت اور محنت کے نتیجے میں جب 1998ء میں یہ تنظیم بنی تب شاہ صاحب چیئرمین بنے اور آخری دم تک چیئرمین رہے۔’
محمد شاہ کے بہت سارے ایسے کارنامے ہیں جن کا اس چھوٹی سی تحریر میں احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
پھر شاید اپنی عادت کے مطابق وقت نے کسی باز کی طرح پلٹا کھایا۔ وہ سچل ہال جو ماہی گیروں کی بستی میں ان کے لیے ایک آسرا تھا، اسے چھوڑ دیا گیا اور دفتر 2012ء میں کراچی کے علاقے نرسری میں منتقل کردیا گیا۔ پھر 10 مارچ 2015ء کو شاہ صاحب اور طاہرہ علی شاہ کی گاڑی کو ٹھٹہ کے قریب دیوان شگر مل کے قریب حادثہ پیش آیا اور طاہرہ علی شاہ موقعے پر ہی جاں بحق ہوگئیں۔
محمد علی شاہ کو اپنی شریک حیات سے جدائی کا شدید صدمہ پہنچا۔ انہوں نے اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ساتھ ایک مخلص ساتھی ورکر کو بھی کھودیا تھا۔ 2 برس بعد فشر فوک کا دفتر ایک بار پھر ابراہیم حیدری میں موڑو ہال میں منتقل ہوگیا اور کچھ دن پہلے 18 اگست کو شاہ صاحب نے اپنی آنکھیں موند لیں۔
میں محمد علی شاہ کی آخری آرام گاہ سے تھکے قدموں کے ساتھ ابراہیم حیدری کی ان گلیوں سے ہوتا ہوا آیا جہاں سے ہم کئی بار پیدل ہنستے باتیں کرتے گزرے ہوں گے۔ پھر راستے میں وہ پرانا گھر آیا جہاں پہلے شاہ رہا کرتے تھے۔ اب وہاں فقط گلی کا نشان رہ گیا ہے اور کچھ نہیں ہے۔
میں اس مرکزی عیدگاہ پہنچا جہاں 18 برس پہلے میں نے ابراہیم حیدری میں قدم رکھا تھا۔ وہ نومبر کا مہینہ تھا، دن ٹھنڈے تھے اور ابراہیم حیدری کی گلیاں ماہی گیروں کے دن کی وجہ سے رنگین جھنڈیوں سے سجی تھیں۔ اور تھوڑا آگے وہ سچل ہال ہے جو اس دن فشر فوک کے جھنڈوں سے سجا تھا۔ مگر آج 10ویں محرم کی وجہ سے بازار بند ہیں، کوئی چہل پہل نہیں ہے۔ سچل ہال اس بیوہ کی طرح نظر آتا ہے جس کا سہاگ اجڑ چکا ہے۔ اب وہ بہت ہی خستہ حال ہوگیا ہے۔
مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو
’جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
بشکریہ ڈان ڈاٹ کام