وہی ہوا جو ان حالات میں ناگزیر ہے۔ افغانستان کی نوے فیصد بیرونی تجارت اس وقت تھمی ہوئی ہے۔ خصوصی پروازیں ملک چھوڑنے کے خواہش مند غیر ملکیوں یا مقامیوں کو لے جارہی ہیں اور بیرونِ ملک سے آنے والی پروازیں امدادی سامان لا رہی ہیں۔
عالمی ادارے چیخ رہے ہیں کہ افغانستان کی ستانوے فیصد آبادی اگلے چند ہفتوں میں خطِ غربت کے آر یا پار کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کر مساوی غربت کی کگار پر آنے والی ہے۔فوری طور پر چھ سو ملین ڈالر کی ہنگامی رقم درکار ہے۔
پاکستان اور خلیجی ریاستوں نے ہنگامی امداد کا جو فضائی کاریڈور بنانے کی کوشش کی ہے، وہ کوشش حوصلہ افزا سہی مگر اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔امریکا اگرچہ عسکری لحاظ سے افغانستان چھوڑ چکا ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں کی طنابیں اس کے ہاتھ میں ہیں۔
کہنے کو افغانستان کی ریاست اس وقت دس ارب ڈالر کی مالک ہے مگر یہ سارا پیسہ بطور امانت امریکی بینکوںمیں منجمد کر دیا گیاہے۔آئی ایم ایف نے افغانستان کے لیے ساڑھے چار سو ملین ڈالر قرضے کی منظوری دے رکھی ہے مگر حالات کی بے یقینی کے سبب اس رقم کی فراہمی بھی رکی ہوئی ہے۔
تادم ِ تحریر کسی ملک نے نئی افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ سب ’’پہلے آپ پہلے آپ ‘‘ کے انتظار میں ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ طالبانی طرزِ حکومت کا اونٹ بالاخر کس کروٹ بیٹھتا ہے۔کابل پر قبضے سے پہلے تک طالبان کہتے تھے کہ امریکا کے پاس گھڑی اور ہمارے پاس وقت ہے۔مگر اب طالبان کے پاس گھڑی اور امریکا کے پاس وقت ہے۔
امریکا فوجی ہزیمت کا بدلہ طرح طرح سے لینے کی کوشش کرے گا۔اسے یقین ہے کہ وہ جنگ نہیں بلکہ ایک لڑائی ہارا ہے۔یہ مکمل شکست نہیں بلکہ ایک محاذ پر اسٹرٹیجک پسپائی ہے۔ فتح کس کی ہو گی اور بالاخر شکست کون کھائے گا۔اس بحث سے قطع نظر نقصان گھاس (عام آدمی) کا ہی ہے۔
میں نے بچشمِ خود دیکھا کہ اپریل دو ہزار تین میں بغداد میں فاتحین جشن منا رہے تھے، ہوائی فائرنگ کر رہے تھے اور اپنی اپنی گاڑیوںکے ہوٹر بجا رہے تھے۔ اور انھی سڑکوں پر ایک ہفتے بعد عام لوگ اپنے گھر کے صوفے، بیڈ ، واشنگ مشین، کٹلری کا سامان، ٹی وی، اے سی، گاڑی، موٹرسائیکل لے کر بیٹھے ہوئے گاہکوں سے کوڑیوں کے دام مول تول کر رہے تھے۔ تاکہ اتنے پیسے مل جائیں کہ گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو، بیمار کی دوا دارو کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔
دنیا بھر کو پٹرول فراہم کرنے والے عراق کے دارالحکومت میں ہر پٹرول پمپ پر پانچ پانچ کلو میٹر طویل لائنیں دیکھیں۔کئی کئی ماہ سے بنا تنخواہ کام کرنے والے سرکاری ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کو مریضوں کے لواحقین سے پیسے مانگتے دیکھا۔
جنگ میں کسی کی جیت کسی کی ہار سے الگ پہلی ہلاکت سچ کی اور دوسری ہلاکت اس آدمی یا خاندان کی عزتِ نفس کی ہوتی ہے جس کا اس پوری ککھکیڑ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔جنگ سے پہلے عراقی مڈل کلاس دنیائے عرب کی سب سے بڑی، بہتر اور باصلاحیت مڈل کلاس تھی۔تیس فیصد افرادی قوت خواتین پرمشتمل تھی۔خواندگی نوے فیصد تھی۔ مواصلاتی نظام پہلی دنیا کے ہم پلہ تھا۔
مگر دو دہائیوں کی اقتصادی ناکہ بندی اور پھر دو جنگوں نے متوسط طبقے کو گویا حالات کے بلڈوزر نے ایک معاشی اسٹیکر میں تبدیل کر دیا۔ دینے والا ہاتھ تیزی سے لینے والے ہاتھ میں بدلتا چلا گیا۔آج لگ بھگ اٹھارہ برس بعد بھی عراقی متوسط طبقہ جس حال میں ہے وہ اس کے پچھلے دور کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔یعنی ہر جنگ کا اثر کم ازکم اگلی دو نسلیں طرح طرح سے بھگتتی ہیں۔
کابل میں چمن حضوری کے علاقے میں کم و بیش ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ خوددار شہری، جنہوں نے پچھلے بیس برس میں گذارے بھر اثاثہ بنایا، اب سڑک پر بغداد کی طرح اپنے گھر کا سامان لے کر بیٹھے ہیں یا پھر چمن حضوری کے دکان داروں کے پاس رکھوا رہے ہیں. جو صوفہ انہوں نے پچاس ہزار افغانی میں لیا، آج اس کے پانچ ہزارافغانی بھی نہیں مل رہے۔یہی حال دیگر گھریلو اشیا کا ہے۔
اے ٹی ایم مشینیں زیادہ تر خالی ہیں۔ جن میں تھوڑے بہت پیسے بھی ہیں، ان میں سے بھی ایک اے ٹی ایم کارڈ پر ہفتے میں بیس ہزار افغانی (دو سو پینتیس ڈالر) سے زائد نہیں نکلوائے جا سکتے۔ اگر دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی شہروں اور قصبات میں کیا ہو رہا ہوگا۔ جہاں تعلیم، صحت اور پولیس سے جڑے عملے کو چھ چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔
طالبان سے پہلے بھی افغانستان کے سالانہ بجٹ میں غیر ملکی امداد کا تناسب پچھتر فیصد تھا، اب یہ امداد معطل ہے۔اگر اگلے چند ماہ میں بیرونِ ملک منجمد افغان خزانہ (دس ارب ڈالر) غیر منجمد نہیں ہوتا.
بین الاقوامی مالیاتی ادارے امریکی جنبشِ ابرو کی پکڑ میں رہتے ہیں اور خلیجی ریاستیں ہنگامی امدادی کاریڈور کو وسیع نہیں کرتیں تو افغان معیشت اگلے ایک برس میں بیس سے پچیس فیصد تک سکڑ جائے گی۔بے خانماں دیوالیہ آبادی دو وقت کی روٹی کی تلاش میں ہمسایہ ممالک کا رخ کرے گی اور کوئی بھی سرحدی دیوار کھڑی نہ رہ سکے گی۔ بھوک خانہ جنگی کی ماں ہے۔بھوکے کو کوئی بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
اگر دنیا زخم کے ناسور بننے کا انتظار کر رہی ہے تب تو عالمی و علاقائی لاتعلقی کی پالیسی بہترین ہے،لیکن جب یہ لاتعلقی اگلے ایک برس میں بارودی پھوڑے کی طرح پھٹے گی تب کیا ہو گا؟ دہشت گردی کے خلاف عالمی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی ایک نئی منافع بخش جنگ؟ اور اس جنگ کا ایندھن ایک بار پھر مغربی و جنوبی ایشیا؟ یہ کسی کی فتح کسی کی شکست کی خوشی منانے کا نہیں آستینیں چڑھانے کا وقت ہے۔ پچھلے چار عشروں میں جمع ہونے والے گند کی صفائی کا وقت ہے۔
سوئی کے ناکے میں سے کتنے اونٹ گزریں گے؟ یہ بحث بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔فی الحال تو اس اونٹ کی سوچیے جو خمیے میں گردن ڈال چکا ہے۔
وسعتﷲ خان کا یہ کالم ایکسپریس نیوز اور بی بی سی اردو کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں.