بلوچ پختون اختلافات

جمیل مرغز

مرحوم عطاءاللہ مینگل کی کہانی جاری ہے، پاکستان میں ترقی پسند سیاسی قوتوں کی پہلی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی تھی، اس اتحاد کو بنانے میں کمیونسٹ پارٹی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، اس پارٹی میں مغربی پاکستان کے مختلف صوبوں سے سیاسی پارٹیاں شامل تھیں۔

اس میں سندھ سے جی ایم سیّد، پنجاب سے میاں افتخار الدین کی پیپلز پارٹی، بلوچستان سے میر غوث بخش بزنجو کی بزگر گل، عبدالصمد خان کی رور پختون، باچا خان کی خدائی خدمتگار تنظیم اور کمیونسٹ پارٹی شامل تھی۔ پارٹی کا نام نیشنل پارٹی رکھا گیا۔ کچھ عرصہ بعد مولانا بھاشانی نے مشرقی پاکستان میں عوامی مسلم لیگ کے نام سے پارٹی بنائی، جب عوامی مسلم لیگ بھی نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئی تو اس کا نام نیشنل عوامی پارٹی (نعپ) تجویز کیا گیا۔ پہلے صدر مولانا بھاشانی اور نائب صدر باچا خان منتخب ہوئے، جنرل سیکریٹری غالباً محمود علی قصوری تھے.

نیشنل عوامی پارٹی کو ملک میں اتنی پذیرائی ملی کہ پاکستان میں سامراجی طاقتوں کی پروردہ حکومت کو یقین ہوگیا کہ 1958ع کے انتخابات یہ پارٹی جیتے گی. اسی خوف سے جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا، انتخابات ملتوی کردیے اور سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگائی گئی۔1962ع میں نئے آئین کے تحت انتخابات ہوئے اور پھر کچھ پابندیوں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کو بحال کردیا گیا. مولانا بھاشانی چین نواز کمیونسٹوں کے زیر اثر تھے، جب سوویت یونین اور چین کی نظریاتی مخالفت شروع ہوئی تو اس کا اثر پوری دنیا کی کمیونسٹ پارٹیوں پر پڑا. پاکستان میں بھی کمیونسٹ پارٹی روس نواز اور چین نواز دھڑوں میں تقسیم ہوگئی.

مولانا بھاشانی چین نواز دھڑے کے ساتھ چلے گئے اور نعپ سے الگ ہوکر ’’نعپ بھاشانی‘‘  بنائی۔ غالباً 1964ع میں باچا خان افغانستان چلے گئے اور خان عبدالولی خان کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا ‘ اس دوران بعض اختلافات کی وجہ سے عبدالصمد خان بھی پارٹی سے الگ ہوگئے اور اپنی نئی پارٹی قائم کی.

1970ع کے انتخابات میں نعپ کو صوبہ سرحد اور بلوچستان میں کامیابی حاصل ہوئی اور دونوں صوبوں میں نعپ کی حکومتیں قائم ہوئیں. بلوچستان میں عطاءاللہ مینگل وزیراعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر بن گئے. دس مہینے کے بعد ان کی حکومت ایک سازش کے تحت ختم کردی گئی۔

بطور احتجاج صوبہ سرحد میں نعپ اور جمیعت کی حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا. حزب اختلاف کی جماعتوں نے احتجاجی تحریک شروع کی۔ حیات محمد خان شہید کی  شہادت کے بعد حکومت نے پارٹی پر پابندی لگائی. رہنماؤں کو گرفتار کرکے حیدر آباد سازش کیس کے نام سے خصوصی ٹریبونل کے سامنے مقدمے کے لیے پیش کردیا گیا. حیدرآباد جیل میں پارٹی کے رہنماء تین سال تک رہے ، پھر کچھ رہنماء رہا ہوگئے اور کچھ اندر رہے. پھر حیدر آباد جیل ہی پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سامراج دشمن اور قوم پرست پارٹی کو ٹوٹنے کا سبب بن گئی. اس کے بعد آج تک چھوٹی قومیتوں اور ترقی پسند قوتوں کا اتحاد دوبارہ نہ بن سکا۔

مرحوم عطاء اللہ مینگل اور دوسری بلوچ قیادت کے پختون قیادت سے حیدر آباد جیل میں اختلافات پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں بلوچ لیڈر اور کارکن نعپ کے بعد قائم ہونے والی پارٹی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) میں شامل نہیں ہوئے. اس طرح پختون قوم پرستوں اور بلوچ قوم پرستوں کا اتحاد قابل افسوس حالات میں ٹوٹ گیا.

وزیر اعظم بھٹو نے قومی اتحاد  تحریک کے دوران حیدرآباد سازش کیس کے قیدیوں کو رہا کرنے کا ارادہ کیا، لیکن جنرل ضیاء الحق اور ساتھیوں نے اس کی سخت مخالفت کی. جب بھٹو کی حکومت کو ہٹاکر جنرل ضیاء نے حکومت پر قبضہ کیا تو پہلا کام یہ کیا کہ سیدھے حیدر آباد جا کر سازش کیس کے قیدیوں سے ملاقات کی اور ان کو رہائی کی یقین دہانی کرائی۔ملاقات کی کہانی بھی عجیب ہے، ہر فرد کو الگ بلاکر ملاقات کرائی گئی ‘ نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل نے جنرل صاحب سے ایک ایک منٹ ملاقات کی ‘ جس میں صرف ہیلو ہائی ہی کہا گیا. بزنجو صاحب نے تین منٹ کی ملاقات کی اور جنرل صاحب کو مشورہ دیا کہ باقی دنیا کے مہاجر تو پاکستان آگئے ہیں، اب صرف ویت نام کے کشتیوں والے مہاجر باقی ہیں، ان کو بھی لے آئیں۔ ولی خان اور پختون قیادت نے ڈیڑھ گھنٹے تک جنرل ضیاء سے ملاقات کی، ملاقات کے بعد ولی خان اور پختون قیادت نے عدالت میں ضمانت پر رہائی کی درخواست دی لیکن بلوچ قیادت نے ضمانت پر رہائی کو مسترد کرتے ہوئے درخواست دینے سے انکار کردیا، اس وجہ سے بلوچ  قوم پرستوں کو پختون قوم پرستوں کے مقابلے میں چھ ماہ بعد رہائی نصیب ہوئی. اس کے علاوہ بھی جیل میں دیگر اختلافات ابھرے تھے،  جس میں این ڈی پی کا قومی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بھی تھا.

یہ بے اعتمادی اتنی زیادہ تھی کہ جب ہم کمیونسٹ پارٹی کے ساتھی بزنجو صاحب کی نیشنل پارٹی سے الگ ہوکر اے این پی بنا رہے تھے، تو اس وقت بھی میر صاحب نے کہا تھا کہ ولی خان تمہیں راستے میں چھوڑ دے گا۔  عطاء اللہ مینگل نے جناح پارک کے جلسے میں اعلان کیا تھا کہ ’’میں پختون بلوچ اتحاد کے لیے ولی خان پر اس وقت اعتماد کروں گا، جب وہ باچا خان کی قبر پر کھڑے ہوکر قسم کھائے گا کہ تحریک سے انحراف نہیں کرے گا۔‘‘

اس کے علاوہ جب بھٹو صاحب نے بلوچستان پر فوج کشی کی تو اس وقت بھی پختون قوم پرست مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے۔ مینگل اور نواب خیر بخش مری صاحب کو اس کا سخت دکھ تھا اور وہ پختون قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والی قیادت کی سودے بازی سے شاکی تھے. ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پختون قیادت میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ قافلے کو منزل تک پہنچا سکے. آج جب ہم روایتی پختون قومی تحریک کی حالت کو دیکھتے ہیں، تو نواب صاحب کی باتیں یاد آتی ہیں.

یہ کالم ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا. ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close