ایک ’’سچ مچ‘‘ کا شاعر!

عطاء الحق قاسمی

سچے شعراء کے بارے میں میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ وہ اندر سے صوفی ہوتے ہیں، وہ اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتے ہیں۔ انہیں ستائش کی تمنا ہوتی ہے، نہ صلے کی پروا… وہ ہمیں خوبصورت خیال ’’دان‘‘ کرتے ہیں، ان کی دنیا ایک خوبصورت دنیا ہوتی ہے جس میں وہ مگن رہتے ہیں۔

نصف صدی پہلے تک تو وہ اپنی شکل و صورت، رنگ و ڈھنگ اور لاابالی پن کے سبب لگتے ہی ملنگ تھے، سر پر گھنے بالوں کی چھت، رات کو جن کپڑوں میں سوتے تھے، صبح انہی کپڑوں میں گھر سے نکل آتے تھے۔ نوکر ی چاکری بھی کم کم ہی کرتے تھے مگر اب زمانہ بدل گیا ہے، سچا شاعر بھی ان دنوں بظاہر ہم جیسے دنیا داروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، گھریلو ذمہ داریاں پوری کرتا ہے، دفتر میں، کالج میں یا کہیں دور ملازمت کے دوران اپنے فرائض بھی دلجمعی سے ادا کرتا ہے مگر اندر سے صوفی کا صوفی رہتا ہے، تاہم میں ایسے بہت سے شاعروں کو بھی جانتا ہوں جو فیس بک پر اپنا ایک گینگ تیار رکھتے ہیں جو ان کی شاعرانہ حیثیت کو چیلنج کرنے والوں کو ناکوں چنے چبوا دیتا ہے۔ شاعروں کا یہ ٹولہ شاعر کم اور سلطان راہی کے پیرو کار زیادہ لگتے ہیں، جو اپنے ادبی مقام کے شِکروں کو ’’تیری لاش نوں مچھیاں ای کھان گیاں‘‘ کی دھمکی دیتے نظر آتے ہیں۔

جب گزشتہ روز مجھے شارق جمال خان کا شعری مجموعہ ’’فسانۂ کون و مکاں‘‘ موصول ہوا اور میں نے مطالعہ کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ اس شاعر نے ابھی تک ’’ہم چُوما دیگرے نیست‘‘ کا دعویٰ کیوں نہیں کیا، میں نے اس شاعر کو کسی پبلک مشاعرے یا ریڈیو، ٹی وی مشاعروں میں شرکت کرتے بھی نہیں دیکھا۔ سچی بات یہ ہے کہ میری ان سے نہ کبھی ملاقات ہوئی اور اس سے بھی زیادہ سچی بات یہ کہ میں نے اس سے پہلے موصوف کا کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ چلیں اس آخری بات کو میری جہالت کے کھاتے میں ڈال دیں اور اس تمہید کے بعد دیکھتے ہیں کہ شارق جمال خان شاعر کیسے ہیں؟

سو قارئین کرام! بات یہ ہے کہ روزانہ موصول ہونے والی بہت خوبصورت کتابیں بھی اب میں پوری کی پوری پڑھ نہیں پاتا۔ شاید اس کی وجہ اکنامکس کا اصول ’’ڈیمانڈ اینڈ سپلائی‘‘ یہاں بھی لاگو ہوتا ہے، سو میرا ارادہ ’’فسانۂ کون و مکاں‘‘ کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنے کا تھا مگر جب میں نے یہ شعری مجموعہ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔

کتاب کے ابتدائی صفحات میں پہلے تو مجھے شاعر کی علمیت نے متاثر کیا، پہلے بیدلؔ کا شعر پڑھا، اگلے صفحہ پر منشی ہرگوپال تفتہ کے نام غالبؔ کے فارسی مکتوب کا ترجمہ جو زبان و بیان کے حوالےسے تھا، ایک اور صفحہ پر بوب ڈائلان (BOB DYLAN) کی انگریزی نظم SHELTER FROM THE STORM، جو شاعر نے اپنی بیٹی حفصہ کے نام انتساب کے لئے منتخب کی۔ پھر غالبؔ کے دو اشعار، جن میں اتنی فارسیت تھی کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آئے مگر کیا بتائوں کہ علم کی اس فراوانی نے مجھے شک میں ڈال دیا کیونکہ میں نے بہت سے ایسے عالم فاضل شاعر دیکھے ہیں جو اپنی شاعری میں علم اس طرح داخل کرتے ہیں کہ اس پر ’’خلافِ وضع فطری‘‘ کا گمان گزرنے لگتا ہے، چنانچہ میں اس شعری مجموعہ کے مطالعہ سے پہلے ہی شش و پنج میں پڑ گیا کہ کہیں یہ شاعر بھی بعض دوسرے عالم فاضل شعراء کی طرح بےرس شاعر تو نہیں؟

مگر خدا کا شکر ہے کہ اس باب میں میری کوئی نیکی جو کبھی مجھ سے سرزد ہوئی ہوگی، وہ کام آئی اور یوں مجھے مطالعہ کے دوران خوشی ہوئی کہ شارق جمال خاں عالم فاضل تو ہیں مگر ’’شاعر‘‘ بھی ہیں۔ ان کے کلام میں گہری باتیں بھی ملیں اور شعریت کا لطف بھی، ان کے ہاں فلسفیانہ نکات بھی ہیں۔

ناصر عباس نیر کے مطابق ان کے ہاں انسان و کائنات سے متعلق مسلسل تفکر دکھائی دیتا ہے اور بالکل ایسے ہی ہے، عباس تابش نے بھی میرے جیسے تاثر ہی کا اظہار کیا ہے، یعنی ’’شارق جمال خاں پہلے ایسے شاعر ہیں جو اپنے اشعار میں فلسفیانہ سوچ رکھنے کے باوجود اپنا ایک علیحدہ اسلوب اور معنوی جہان تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔

شارق صاحب کے لکھے ہوئے پیش لفظ میں فارسیت کا غلبہ ہے مگر شعر میں میرے جیسے جہلاء کے لئے انہوں نے اپنی شاعری کو سادہ رکھا ہے بلکہ مجھے لگتا ہے کہ ان کی شاعری میں جو فارسی کے الفاظ آئے ہیں وہ انہوں نے مجھ سے مشورہ کرکے بہت عام فہم الفاظ چنے ہیں اور اب ایک شکایت، اس خوبصورت شعری مجموعے میں اتنے سارے دوستوں سے رائے لینا کیا ضروری تھا۔ مشک آنست کے خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔ لہٰذا میں بھی دل کو لگنے والی اس شاعری کا پوسٹ مارٹم کرنے کی بجائے ذیل میں شارق خان کی صرف دو غزلیں پیش کر رہا ہوں، آپ یقین کریں پورا شعری مجموعہ ایک خوبصورت انتخاب ہے، مگر کالم کی SPACEمحدود ہوتی ہے چنانچہ ذیل میں اُن کی ایک غزل پیش کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں:

مَیں نامنظور ہوں، خارج ہوں، رد ہوں
مگر پھر بھی ازل سے تا ابد ہوں

تعاقب لغزشیں کرتی ہیں میرا
گنہگاروں میں ہوں اور مستند ہوں

مِرا انسان ہونا مستقل ہے
مسلسل نیک ہوں مَیں اور نہ بد ہوں

تُو جب سے اعتبارِ خال و خد ہے
مَیں تب سے مبتلائے خال و خد ہوں

مجھے انجامِ فطرت کی خبر ہے
جو پہلے تھا ازل سے وہ ابد ہوں

خرد کے واسطے گویا جُنوں ہوں
جُنوں کے واسطے گویا خرد ہوں

مجھے آتا ہے فن قسمت گری کا
خود اپنا زائچہ ہوں، خود عدد ہوں

مِرے ایما پہ برپا ہے تلاطم
کہ مَیں ہی زندگی کا جزر و مد ہوں

ہے میری سوچ لامحدود شارقؔ
جو حد ٹھہری ہر اک حد کی وہ حد ہوں

(بشکریہ جنگ اخبار)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close