شاداب ملیر کا المیہ اور کراچی کے موسمی حالات

ڈاکٹر ابوبکر بلوچ

کراچی کا سرسبز و شاداب خطہ ملیر کبھی کراچی کے گرین اور ایگریکلچرل بیلٹ کے نام سے مشہور تھا۔ ملیر کراچی کا گرین بیلٹ ہونے کے باعث سیاحت کا مرکز بھی تھا اور شہر کراچی کو سستے تازہ پھل اور سبزیاں فراہم کرنے کا ذریعہ بھی۔۔۔۔

قسم قسم کے درختوں سے بھرے ملیر کے سرسبز و شاداب باغات کے باعث کراچی کا موسم ہر طرح کی آلودگی سے پاک اور نہایت ہی صحت بخش خوشگوار رہتا تھا۔ ملیر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح اپنی بیماری کے باعث آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے گاہ بہ گاہ ملیر تشریف لاتے تھے. قائد اعظم ملیر کے جس مقام پر قیام فرماتے تھے، وہ مقام ملیر بنگلوز کے نام سے میمن گوٹھ کے عقب میں ڈملوٹی روڈ پر واقع ہے۔ ایک روایت کے مطابق قائد اعظم کو ملیر کے پپیتے بہت مرغوب اور پسند تھے۔

واضح رہے کہ شاداب ملیر کے عروج کے زمانے میں معالجین کے مشورے پر لوگ صحت کی دولت پانے کے لیے ملیر کا رخ کر لیا کرتے تھے اور یہاں کی صحت بخش آب و ہوا سے مستفیض ہوکر ہی واپس لوٹتے تھے۔

پھر سرسبز و شاداب ملیر کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ  گردش_دوراں کے ساتھ ہی حالات تبدیل ہوتے گئے۔۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کے گرین بیلٹ ملیر کو تباہ کردیا گیا، گھنے درختوں کو کاٹ کر سرسبز و شاداب ملیر کو اجاڑ دیا گیا۔ پابندی کے باوجود سرکاری سرپرستی میں وسیع پیمانے پر ملیر ندی سے ریتی بجری چوری کرکے ندی کا وہ قدرتی انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا گیا، جس پر برساتی پانی کے جذب ہونے کا سارا انحصار تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا  کہ برساتی پانی ملیر ندی میں جذب ہونے کے بجائے سمندر میں ضائع ہونے لگا، جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح گرتی چلی گئی، میٹھے پانی کے زیر زمین ذخائر ختم ہوگئے اور سمندر کے کھارے پانی کا غلبہ ہوگیا. یوں اس عمل سے ملیر کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور ملیر کی زرخیز زمینیں ویران و بنجر ہوگئیں۔

اس تمام صورتحال کا فائدہ ریتی مافیا، قبضہ مافیا اور بلڈر مافیا کو پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہرے بھرے باغات "سنگ و خشت” کے جنگل میں تبدیل ہوتے گئے، ملیر کی زرخیز زمینوں پر جا بجا بھانت بھانت کے ہاوسنگ پراجیکٹس متعارف ہونے لگے۔

باغات کے ختم ہونے سے روزگار کے مواقع بھی ختم ہوگئے اور وسیع پیمانے پر لوگ بے روزگار ہونا بھی شروع ہوگئے۔

ہاوسنگ پروجیکٹس کے ذریعے نئی آبادیوں کی غیر فطری پیوندکاری کے باعث صدیوں سے آباد مقامی لوگ کے وسائل متاثر ہونے لگے۔ بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی پر اس کا اثر پڑا، خوش کن ناموں سے معنون  بھانت بھانت کے ان ہاوسنگ پروجیکٹس سے نہ صرف ملیر کا تاریخی اور ثقافتی تشخص بری طرح متاثر ہورہا ہے بلکہ نفسیاتی اور سماجی سطح پر بھی اس کے سنگین مضمرات سامنے آرہے ہیں۔

نئی آبادیوں سے علاقے میں جرائم کے واقعات میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے، جس سے لوگ بری طرح عدم تحفظ کا شکار ہیں. اس کے علاوہ اس امر سے منشیات کی لعنت بھی عام ہوتی جارہی ہے۔

ان ہاؤسنگ پروجیکٹس کے آزار سے پہلے باغات کے پہلو بہ پہلو اسپورٹس کے میدان بھی ہوتے تھے، ہاؤسنگ پروجیکٹس نے اسپورٹس گراونڈ تو دور کی بات معمولی پارک کے لیے بھی جگہ نہیں چھوڑی۔ کھیلوں کے میدان نہ ہونے کے باعث نوجوانوں میں کھیل کی صحتمند سرگرمیاں معدوم ہوتی چلی گئیں اس امر نے نوجوانوں کو نفسیاتی سطح پر ان گنت مسائل سے دوچار کرتے ہوئے منفی اور تخریبی سرگرمیوں کی طرف راغب کردیا۔

ملیر کی اس تباہ ہوتی صورتحال نے سب سے زیادہ موسمی حالات کو متاثر کیا اور کراچی میں موسم کی شدت اور اس سے جنم لینے والے ہیٹ اسٹروک وغیرہ کا بنیادی اور کلیدی سبب شاداب ملیر کی تباہی، باغات کا اجڑنا اور وسیع پیمانے پر شہر کراچی اور بالخصوص ملیر کے درختوں کی کٹائی ہے۔

اب جب کہ ملک بھر میں موسمی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں شجر کاری کے حوالے سے ایک بیداری مہم چل رہی ہے، اس لیے کراچی کے موسمی حالات کے پیش نظر ملیر میں زراعت کی ترقی، شجرکاری اور سیاحت کے فروغ کے حوالے سے اربابِ حل و عقد کی خدمت چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

1۔ ملیر کو "ایگریکلچرل بیلٹ” ڈکلیئر کراتے ہوئے ہاؤسنگ پروجیکٹس پر فوراً پابندی عائد کی جائے۔

2۔جدید ڈرپنگ اریگیشن سسٹم کے ذریعے ملیر میں زراعت کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں،اس مقصد کے لیے اگر وژن اور جذبہ موجود ہو تو سمندر کے پانی کو میٹھا کرکے استعمال میں لایا جاسکتا ہے. اس کے علاوہ جدید ذرائع سے زیرزمین پانی کو بھی میٹھا کرنے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں.

3۔ حکومت کی جانب سے ملیر میں زراعت کی بحالی، ترقی اور  فروغ کے لیے کاشتکاروں کی سرپرستی کی جائے اور ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کی اور اس مقصد کے لیے ان کو بغیر کسی تعطل کے سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

4۔ ریتی بجری چوری پر فوری طور پر برائے نام پابندی کے بجائے موثر پابندی عائد کی جائے۔

5۔ ملیر میں وسیع پیمانے پر شجرکاری کی جائے۔

6۔ نکاسیِ آب کے نظام کو ری سائیکلنگ پلانٹس کے ذریعے زرعی مقاصد کے لیے قابل استعمال بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

7۔ ملیر ندی میں آس پاس کے جغرافیے کا سائنسی مطالعہ کر کے چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ برساتی پانی سمندر میں ضائع ہونے کے بجائے ملیرندی میں ذخیرہ ہوکر ٹیوب ویلز کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close